مئی 18, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سپریم کورٹ: جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی درخواست پر سماعت میں آج کیا ہوا؟

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا آئندہ سماعت ویڈیو لینک کے ذریعے ہوگی، کچھ ججز ممکن ہے اسلام آباد میں موجود نہ ہوں۔

سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسی کی درخواست پر آئندہ پیر کو سماعت وڈیو لنک کے ذریعے ہوگی۔  حکومتی وکیل فروغ نسیم نے کہا کہ  آئندہ سماعت پر بدنیتی اور اے آر یو پر دلائل دوں گا، شواہد اکٹھے کرنا اور جاسوسی کے نکتہ نظر پر بھی دلائل دوں گا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا آئندہ سماعت ویڈیو لینک کے ذریعے ہوگی، کچھ ججز ممکن ہے اسلام آباد میں موجود نہ ہوں۔

صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسٰی اور دیگر درخواستوں پر سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی ہے ۔ جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دس رکنی فل کورٹ  نے سماعت  کی۔

حکومت کے وکیل فروغ نسیم  نے آج بھی اپنے دلائل جاری رکھے۔

سماعت کے آغاز میں جسٹس منصور علی شاہ نے کہا صرف ایک بات بتا دیں جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ ٹیکس ریٹرنز جمع کراتی ہیں یا نہیں؟اگر ٹیکس ریٹرنز جمع کراتی ہیں تو پھر اہلیہ خود کفیل کیسے نہیں؟

فروغ نسیم نے کہا میری معلومات کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ ٹیکس ریٹرنز جمع کرواتی ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ٹیکس قانون تو تمام شہریوں کیلئے ہیں۔

فروغ نسیم نےکہا سپریم جوڈیشل کونسل میں ٹیکس سے متعلق کارروائی نہیں ہوتی۔ فروغ نسیم نے قرآنی آیت کا حوالہ بھی دیا اور کہا کہ مرد اور عورت ایک دوسرے کا لباس ہیں۔

جسٹس سجاد علی شاہ نے کہ افروغ نسیم صاحب اس آیت کا شان نزول بھی بتا دیں،آپکو پتا ہی نہیں یہ آیت کیوں نازل ہوئی؟

جسٹس قاضی امین نے کہا آپ ہمیں خطرناک صورتحال میں دھکیل رہے ہیں یہ آیت کیس سے متعلقہ نہیں ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کیا پاکستان میں بطور شہری خواتین کے حقوق نہیں؟کیا خواتین پاکستان میں علیحدہ جائیداد نہیں خرید سکتیں؟ یہ کیسے فرض کر لیا گیا کہ خواتین سے ٹیکس کا نہیں پوچھا جائے گا؟ یہ جمپ کیسے لے لیا کہ خاوند سپریم کورٹ کا جج ہے تو وہی جائیداد کا بتائے گا،

کیا خاتون جج کا خاوند پینشن نہیں لے سکتا؟

فروغ نسیم نے کہا قانون میں جج کا لفظ دیا گیا جس سے مراد مرد اور خاتون دونوں جج ہیں۔

جسٹس مقبول باقر نے کہا کسی نے بھی نہیں کہا کہ جج کا احتساب نہیں ہوسکتا،جج کا احتساب صرف قانون کے مطابق ہی ہوسکتا ہے۔ سپریم کورٹ کے جج کا بھی احتساب ہوسکتا ہے۔

فروغ نسیم نے کہا کبھی نہیں کہا کہ جج احتساب کو نہیں مانتے،آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی ڈسپلنری ہوتی ہے ٹیکس کی نہیں۔

جسٹس عمر عطابندیال نے اس موقع پر کہا 15 منٹ گزر چکے ہیں فروغ نسیم اپنے دلائل جاری رکھیں،قرآن پاک میں اثاثوں کے بارے میں کہا گیا ہے؟قرآن پاک میں امانت کو بھی اختیارات کہا گیا ہے،کیا قرآن پاک سے دئے گئے حوالے غیر مسلم ججز پر بھی لاگو ہونگے؟

جسٹس مقبول باقر نے کہا معاملہ قانون کے مطابق بہت آسان ہے،اگر قانون میں جوابدہی ہے تو وہ جواب دیں گے،قانون کے مطابق کارروائی تو شروع کر دی گئی۔

فروغ نسیم نے کہا ٹیکس کا قانون ریفرنس کے نکات میں سے ایک نکتہ ہے۔

جسٹس مقبول باقر نے استفسار کیا کہ کہ جب آپ ثابت کریں گے کہ یہ جائیدادیں جسٹس قاضی عیسیٰ کی آمدن سے ہیں پھر منی ٹریل کا سوال ہوگا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا میاں بیوی کا تعلق اور رشتہ تو ہمیں معلوم ہے، اس کیس میں آپ نے بیگم کے مالی معاملات کا تعلق جج صاحب سے ثابت کرنا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا فروغ نسیم صاحب آپ ہمارے سوالات کی تعریف کرتے ہیں لیکن جواب نہیں آتا۔

فروغ نسیم نے کہا میں سائل ہوں صرف گزارش کر سکتا ہوں۔ برطانیہ میں جج کی اہلیہ کے بار کو خط لکھنے پر جج کو جانا پڑا،برطانوی جج جبراٹر کے معاملے میں تو معمولی سی بات پر جج نے استعفیٰ دے دیا،یہاں پر تو کروڑوں کی جائیدادیں ہیں۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کیا ریفرنس فائل کرنے سے پہلے کسی نے جج یا انکی اہلیہ سے جائیدادوں بارے پوچھا؟

فروغ نسیم نے کہا جج سے جائدادوں کا پوچھنے کیلئے مناسب فورم کونسل ہے،سپریم جوڈیشل کونسل جائداد کا یہی تو پوچھ رہی ہے،  آئندہ سماعت پر بدنیتی اور اے آر یو پر دلائل دوں گا، شواہد اکٹھے کرنا اور جاسوسی کے نکتہ نظر پر بھی دلائل دوں گا

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا آئندہ سماعت ویڈیو لینک کے ذریعے ہوگی، کچھ ججز ممکن ہے اسلام آباد میں موجود نہ ہوں۔

یہ بھی پڑھیں:صدارتی ریفرنس:سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسی کی درخواست پر سماعت کا احوال

کیس کی سماعت پیر 9.30 بجے تک ملتوی کردی گئی ۔

%d bloggers like this: