مئی 10, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

دھرتی ماں تونسہ شریف۔۔۔قسور سعید

منگڑوٹھہ اونٹ میلا،بودو مکول گھڑ سواری،وہوا بیل دوڑ،تونسہ اکھاڑہ کشتی ،میلہ امیر شاہ اور سانول سوبھ اس دھرتی کی دل ربا یادیں ہیں...

محبت جس کی فطرت ہے ادب جس کا لبادہ ہے

یقینا” شہر تونسہ ہے جبھی خوشبو زیادہ ہے

(طیب امین)

نام سنو تو کانوں میں رس گھلتا ہے پڑھو تو آنکھوں کو سرور ملتا ہے جتنا خوبصورت نام میری اس دھرتی کا ہے حجاز مقدس کے علاوہ شاید ہی کسی شہر کا ہو……

بنجر اور خشک سالی کے عوض پانی نام کی کوئی چیز یہاں نہیں تھی تو اول تونس (عربی میں پیاس) بنا اور بعد میں سلسلہ چشتیہ کے ولی کامل حضرت خواجہ شاہ سلیمان رحمت اللہ علیہ کے یہاں مقیم ہونے کی نسبت سے ہر حوالے سے مالا مال ہوا اور نام تونسہ شریف بنا…..سبحان اللہ…

تقسیم سے قبل ہندو اور مسلمان جہاں اکٹھے رہتے تھے خواجہ صاحب کی جہد مسلسل اور صوفیانہ کوششوں سے ان گنت لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہوئے.بٹوارے کے وقت فکر تونسوی (بھارت سکونت پذیر ہندو مہاجر)کے مطابق خواجہ شاہ سلیمان رحمت اللہ علیہ کی تبلیغ اور دینی کام کی وجہ سے ہندئووں کا سب سے کم نقصان اسی علاقے میں ہوا..

دریائے سندھ کے بالائی میدان میں کوہ سلیمان کی مشرقی پٹی سے 20 کلومیٹر مشرق میں یہ حسین دھرتی قدرتی پانی کے ایک بڑے جھرنے سنگھڑ کے شمال میں پشاور کراچی انڈس ہائی کے اوپر واقع ہے….

یہ حسین دھرتی درگ روڈ سے بلوچستان اور پنجاب کے لوگوں کے نہ صرف دل ملاتی ہے بلکہ تہذیب و ثقافت کا حسین امتزاج لائی ہے….یہاں زیادہ تر سرائیکی بولی جاتی ہے جس کی شیرینی اور مٹھاس کے سر شجاع آباد اور بہالپور کے بہاول دور کے سروں کو چھوتے ہیں. جب سے کوہ سلیمان کی اندرونی پٹی کے بلوچوں نے یہاں سکونت اختیار کی تو محنت کی لازوال داستانیں رقم ہونا شروع ہوئیں.شہر وہوا میں جیسے سرائیکی کے ساتھ پشتو کا امتزاج ملتا ہے بالکل اس روش میں بلوچی کو تونسہ شریف کی دوسری قومی زبان کہنا بے جا نہ ہوگا.

یہاں پہ زیادہ تر چچہ پٹھان،قاضی،خلیفہ،قیصرانی،بزدار،لغاری،کھتران،

سکھانی،ملغانی،ارائیں،نتکانی،ملکانی، لعلوانی، بھٹہ،منگلہ، شیخ،کھوسہ، مہاجر ،چھجڑہ اور ملکانی آباد ہیں.یوں مختلف قوموں کا ایک حسین امتزاج ثقافتی فروغ کا سنگ میل ہے.

خشک سالی اور سوکھے نے جہاں ماضی میں لوگوں کی کمر توڑنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی وہاں دھرتی کے سپوتوں نے تعلیم کو اپنا ہتھیار بنایا….قدرت نے ان لوگوں کی محنت کی قدر کی اور آج شرح خواندگی میں اس تحصیل کا کوئی ثانی نہیں.

شان کریمی سے یہاں نہر پہنچی اور تعلیم و تعلم سے پہلے روٹی،پھر عہدے ،اور آخر میں ٹیوب ویلوں نے زمین سے پانی اگلنا شروع کیا.دھرتی کے لوگوں پہ تشنگی نے ایسے ان مٹ نشان چھوڑے کہ سب محرومیوں کے تقاطع کے بعد بھی نام تونسہ شریف ہی رہا…

عملی محکموں میں اس دھرتی نے جہاں پایے کہ ڈاکٹرز ،انوار اے خان،عثمان غنی،یونس بزدار ،جنرل حمزہ،پیدا کیے وہاں علمی و فنی حلقوں میں ظہور فاتح، ڈاکٹر نذیر قیصرانی، اقبال سوکڑی ،ایمان قیصرانی ،تہذیب حافی ،حق نواز بودوی ,عارف ملغانی اور گلزار حسین جیسے ہیرے تراشے…

منگڑوٹھہ اونٹ میلا،بودو مکول گھڑ سواری،وہوا بیل دوڑ،تونسہ اکھاڑہ کشتی ،میلہ امیر شاہ اور سانول سوبھ اس دھرتی کی دل ربا یادیں ہیں…

تونسہ کے خوشی کے لمحات یاد کریں تو ان میں حضرت خواجہ شاہ سلیمان کا درگ سے یہاں مقیم ہونا،سنگھڑ پل کا بننا ،میجر جرنل امیر حمزہ کا کور 3 کا کور کمانڈر بننا،زرعی نہر کا آنا ،عبدالغفار قیصرانی صاحب کا ڈی پی او بننا ،عثمان بزدار کا وزیر اعلی پنجاب تقرر ہونا، لیہ پل بننا شامل ہیں.

دھرتی کی تاریخ کے سیاہ اوراق کو دیکھیں تو تشنگی ،پیاس اور روٹی کو ترسنا،سنگھڑ رود کوہی میں سینکڑوں لوگوں کا بہہ جانا،غضنفر شہید کو بے دردی سے قتل کرنا،قادیانیت لابی کا شہر میں قدم رکھنا،صدر فاروق لغاری کا تونسہ کی اجڑی عوام کے سر پر ہاتھ نہ رکھنا، پرویز الہی کا موقع پر ضلع بنانے سے مکر جانا ،دہشتگری حملہ ،وہوا بس حادثہ ، فوجی پڑائو میں آگ لگنا اور مجسماتی گائے کا سر قلم کرنا شامل ہیں..

تونسہ کی ناقابل فراموش کھانے کی مرغوب چیزوں میں بخشو کا حلوہ،کلمہ چوک کے بابے کے سیخ کلیجیاں،ہائی سکول تونسہ کے روواں، پٹھان کے چاول ،چوہدری کے چپس برگر،کالج روڈ بابا فرید کے چپس

،منگڑوٹھے کے دہی بڑے،وہوا کا پھیکا کھویا،

کوٹ قیصرانی کا حلوہ،سرائیکی اور ربی ہوٹل کی چائے ،آغوش کے چائینیز رائس ،دیسی پردیس کا چیسٹ پیس،وہوا اور ناڑی کی صوبت،ہیڈ تونسہ اور ٹبی کی مچھلی شامل ہیں.

تونسہ کے یادگار مقامات میں ،دربار عالیہ محمودیہ،گھلو والا کھوہ،بگی مسجد،کالا مورچہ،رام سنارا تھلہ،مندرانی محل،فاضلہ بی ایم پی چیک پوسٹ،پرانا مندر شامل ہیں…

تونسہ کے بڑے شہروں میں وہوا ،ٹبی ،ریتڑہ،،ناڑی،سوکڑ،مٹھے آلی،ہیرو،بارتھی فاضلہ،لتڑہ،مکول،نتکانی،بودو شامل ہیں جن میں منگڑوٹھہ اور ٹب کی شہرت ایک الگ باب ہے..بعض لوگوں کا بستی ٹب کو آج تک یورپ کا حصہ سمجھنا ایک معمے سے کم نہیں.

ہائی سکول تونسہ ،ڈگری کالج تونسہ،تعمیر نو اکیڈمی، سنگھڑ و فرینڈز اکیڈمی اور گیریژن کالج اور پنجاب کالج کے جانفشاں درد دل رکھنے والے اساتذہ نے جہاں علمی عقدے طلبا پہ وا کیے وہاں روحانی طور پر عبدالستار تونسوی صاحب ،پیر صوفی نظر صاحب اور پیر صوفی محمود صاحب نے لوگوں کو اللہ پاک کی رحمت کی طرف متوجہ کرنے میں کوئی کسر ناچھوڑی..

تونسہ کی خوبصورتی،محبت،خلوص،ثقافت کو بیان کرتے کرتے شبد ختم ہو جاتے ہیں مگر پھر بھی صرف اس کے ایک پہلو بانکے کلچر کو

اگر ایک لائن میں بیان کرنے کی جسارت کروں تو

چھلے دار شلوار، کالزا کے جوتے،کندھے پہ اجرک ،چار چار سجیلے، کالج روڈ پہ 125 کی ریسیں لگائے آپکو ملیں گے.

تل تونسہ دا تس تونسے دی

کون بھلاوے چس تونسے دی

%d bloggers like this: