نومبر 8, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

گلاب چاچا تُو اکیلا کبھی نہیں آیا،ملک رزاق شاہد

سوائے چشتیاں کے رانا فیض اور سرگودھا کے شفیع گوندل کے جن کے نام سے دو محلے ان کی یاد دلاتے ہیں باقی آنے والے یہیں بس گئے.

گلاب چاچا تُو اکیلا کبھی نہیں آیا ہمیشہ بہار ساتھ لایا.

ملک صاحب!!

بھلا بہار کے بغیر کبھی گلاب دیکھے ہیں آپ نے.

بس دعا چا کر میڈا نواز لال پڑھ پووے… سارا پورھیا سجایا تھیوے…

پھر مہربان آسمان نے، فاضل پور کی عوام نے، ایک دن دیکھا… سکول کے سٹیج پر کرسیاں سجی ہیں اساتزہ بیٹھے ہیں…. اور اپنی ساری عمر سکول کے نام کرنے والے ہیڈ ماسٹر، شہید صاحب اٹھتے ہیں اور ڈائس پہ جا کر صرف اتنا کہتے ہیں…

آج میں اپنے محترم اساتزہ اور طالب علموں کے سامنے اپنے سکول کے خاکروب ملک گلاب اور ان کی زوجہ بہار بی بی کے ہونہار فرزند ملک محمد نواز کو سکول میں معلم تعینات ہونے پر خوش آمدید کہتا ہوں.

پھر اوپر آسمانوں پر یزداں مسکرا اٹھا…

اساتزہ خوشی سے کِھلکِھلا اٹھے اور تالیوں کے شور میں جب نئے استاد کو گلے میں ہار ڈالا گیا تو بہار نے گلاب کو اپنی بانہوں میں سمیٹ لیا.

سندھو سائیں کے مغربی کنارے، پشاور سے کراچی جاتی ریل لائن اور انڈس ہائی کے درمیان ساٹھ ہزار سے زائد نفوس کو اپنی پناہوں میں لئے فاضل پور….. مغرب سے کوہ سلیمان کی پانیوں سے کھیلتا ہے تو کبھی کبھی مشرق سے سندھو سرکار کی لہروں میں بہہ جاتا ہے.

نصیبا ایسا ملا کہ غالباً ملک کا واحد شہر بننے جا رہا ہے جس کی گودی میں پانچ نہریں اٹھکھیلیاں کریں گی.

اٹھارہویں صدی کے وسط میں یہاں ڈیرے ڈالنے والے فاضل گجر کو شاید معلوم نہیں تھا اسی کے نام سے چلنے والی نہر سے اپنی پیاس بجھانے والا فاضل پور اگلی ڈھائی تین صدیوں بعد موسی’ خیل کے پٹھان قبائل ، سلیمان کی وادیوں کے مسوری، پتافی بلوچ کشمور و جیکب آباد کے سندھی پورے پنجاب کے پنجابی اور پھر بٹوارے میں لُٹنے والے سُکھ سویرے کے متلاشی یہیں آ بسیں گے.

نجانے وہ کونسی بخت بھری گھڑی تھی کہ آج پرانے چوک کے قریب اس جنگل میں اپنی بھینسوں کے ساتھ آ بسنے والا فاضل گجر اس شہر کی بنیاد رکھ گیا تھا… جسے بھوک ستائے جو کہیں سُکھ نہ پائے وہ فاضل پور کا ہو رہے.

بابا برنجو سے لیکر رسول بخش پلیجو، شیر باز مزاری سے لیکر معراج محمد خان تک سبھی کی میزبانی کا شرف حاصل کرنے والا جمیل خان اور گل محمد نقی کا یہ شہر بولتا ہے بلکہ سر اٹھا کر بولتا ہے.

گئے دنوں کا ذکر کرتے ہوئے احمد بخش خان مستوئی بتاتے ہیں کہ وزیراعظم رہنے والے چوہدری محمد علی، امام بارگاہ اور نہر کے درمیان خالی میدان میں تقریر کرتے ہوئے کہنے لگے لوگو آنے والے الیکشن میں ایمان دار لوگوں کو ووٹ دینا… سٹیج پر بیٹھنے والوں کی طرف اشارہ کرتے فاضل پور جایا حاجی گاڑ کھڑا ہوا… چوہدری صاحب

یہاں تو ہمیں کوئی ایماندار نظر نہیں آتا کہیں اور لے آئیں.

فاضل پور کی فضاؤں میں محسن نقوی کی شاعری عزیز شاہد کی دلبری عطاء اللہ شاہ بخاری کے خطاب آج بھی گونج رہے ہیں

اور یہ تو کل کی بات لگتی ہے موہنجوداڑو کی دھرتی سے قافلہ چلا…..

راہ میں ترنگے لئے پیر و جواں ہاتھ ہلاتے سلام کرتے ملتے رہے… ڈرائیور

(وقت نے اسی ڈرائیور کو صدر بنتے اور مالک پر وار کرتے بھی دیکھا)

حکم کو ملا گاڑی فاضل پور کے چوک پر اخباروں کی دکان کے سامنے روکنا…. ہجوم بڑھنے لگا سواری آہستہ ہونے لگی….. پھر عوام نے دیکھا سفید دوپٹا اوڑھے سندھ رانی باہر آئی… اور بولی…. میں فاضل پور میں اپنے شہید بابا کا جنازہ پڑھانے والے مولانا کو سلام پیش کرنے آئی ہوں ….. سب کی نظریں اپنی کتب فروشی کی دکان کے آگے کھڑے مولوی خدا بخش کی طرف اٹھیں جس کی آنکھوں کے آنسو موتی بن رہے تھے.

مولوی خدا بخش نعیمی فاضل پور کے اولین قاضی گھرانے کا فرد… علم دوستی، کتاب شناسی اور پیپلز پارٹی کی بنیادیں رکھنے والا…پیر و استاد گھرانے کے اس فرد کی دکان نے نظریاتی اور علمی مباحث کے ایک مرکز کا درجہ حاصل کر لیا تھا اور ساتھ میں جماعت اسلامی کے ڈاکٹر محمد اشرف نے بھی مولانا مودودی کی کتب سے دوستوں کو روشناس کرانے اور بلدیاتی سیاست میں حصہ لیتے دیکھا یہ دونوں دوست بھی تھے دکانیں بھی ساتھ ساتھ اور گھر بھی قریب قریب… لیکن نظریاتی راہیں اپنی اپنی… رواداری اور رکھ رکھاؤ کا یہ عالم کہ ڈاکٹر اشرف کی دکان پر مولانا مودودی کا لٹریچر پڑھا جاتا تو مولانا خدا بخش کے ہاں پرویز و مارکس، بھٹو اور بزنجو کے تزکرے لیکن ہنسنا بھی ساتھ رونا بھی ساتھ. احترام سے یاد آیا مٹھا پیر نے کہا کہ یار اپنے ابرار خان کے پاس ایک کتاب ہے وہ دیکھیں ابرار خان…. مقامی سیاست کے اس ہونہار نوجوان نے فوراً کتاب بجھوائی.

بوقت تقسیم فاضل پور میں تھانیداری کرنے والے اور بعد فوج اور فوج سے افغانستان میں رہنے سفارتکاری تک پہنچنے والے ایس فدا یونس کی یادداشتوں میں فاضل پور یونین کونسل کے میاں عبدالرحیم کی تقسیم کے فسادات میں قتل عام سے بچانے میں اہم کردار کا ذکر کیا ہے بلکہ ہندوؤں گھرانوں کے سربراہان کی وہ تحریر بھی شامل ہے جس میں فاضل پور یونین کونسل کے اس فرزند کی خدمات کو سراہا گیا.

فرزند سے یاد آیا مزودر بیٹا اٹھ کھڑا ہوا اور ایسا تن کے کھڑا ہوا کہ سارے دیکھتے رہ گئے اور زمین ہے نا جاگیر سردار ہے نا وڈیرہ اور پھر بھی عوامی قوت سے رئیس بلدیہ بن گیا… کبھی ریڑھی والوں کے ہاں بیٹھتا تو کبھی چائے خانوں پر،

کبھی جھگی والوں کے پاس پہنچ جاتا تو کبھی خوانچہ فروشوں کے ساتھ ہنستا…

پھر کٹھور دلوں میں بغض بڑھنے لگے، محلات میں سازشیں پلنے لگیں اور کانِ نمک کے دہانے کھول دئیے گئے اور اس ہونہار فرزندِ فاضل پور کو نمک کے پہاڑوں میں پھینک دیا گیا….. لیکن جلد ایک فرشتہ آیا اسے بچا کر لے گیا اور اب سیف اللہ مستوئی آسمانوں سے اپنے شہر پہ ہونے والے ستم پہ آنسو ہی بہا سکتا ہے.

نزیر مگی کی "اونٹنی” بھی فاضل پور میں ہی رکی اور اس شہر نے اسے بغاوت کا نمائندہ شاعر بنا دیا.

مست توکلی کے سرائیکی مترجم صوفی تاج گوپانگ کی ساری جدوجہد فاضل پور کے دم سے ہے

حسن جتنا کافر ہو نظرِ بد کی تلواریں بھی اتنی لگتی ہیں…. میزبانوں کا شہر، قہقہوں اور جولانیوں کے اس نگر کو کیا معلوم کہ آنے والے کے دل میں کیا ہے یہ سب کے لئے دیدہ دل فرش راہ کئے ہوئے…

کچھ باہر والے آئے اور پھر فاضل پور کی فضاؤں میں بارود کا زہر بھر دیا گولیاں چلیں کرفیو لگے…. لیکن جہاں آگ لگانے والے ہوتے وہیں بجھانے والے بھی کم نہیں ہوتے… ناسور کاٹ دیئے گئے دشمن نکال دیئے گئے اور پھر رقصاں و شاداں ہے یہ نگر.

پبلک سروس کمیشن کا انٹرویو لینے والوں … نے پوچھا اپنے شہر کی کوئی خاص بات بتاؤ… ہمارا دوست حیران فاضل پور تو عام سا شہر ہے… جواب دیا سر مجھے تو کچھ خاص نہیں لگا. انٹرویو لینے والی ٹیم کا سربراہ بولا…

ڈاکٹر صاحب

یقیناً آپ کی پیدائش فاضل پور کی نہیں.

جی سر میں چوٹی شہر میں پیدا ہوا میرے والد صاحب فاضل پور میں تیس سال پہلے آئے اور ایسے آئے اب ہم فاضل پور کے ہو رہے.

فاضل پور نے مجھے اپنی فرزندی میں لے لیا اور میری بہن کو اسی شہر نے بہو بنا لیا.

تو سنو نوجوان تمہارے شہر کا گوشت پورے پاکستان میں سب سے اچھا ہے ہم لہور میں بیٹھ کر بھی فاضل پور سے بکرے کا گوشت منگواتے ہیں.

ماڈل ٹاؤن کی نئی وضع کی رہائش پر پرانے تہزیبی رکھ رکھاؤ سے ملنے والے فخر زمان کہنے لگے

پہلے مجھے میرے فاضل پور کے بارے میں بتائیں… میرا فاضل پور… ؟

ہم نے …. حیرت سے پوچھا کیا مطلب….

ارے بابا میرا بچپن تو آپ کے شہر میں گزرا ہے میرے والد صاحب میجر زمان 1958 میں 3500 ایکڑ پر بننے والے آپ کے شہر کے ڈیری فارم کے انچارج تھے بلکہ گورے کی قائم کردہ دھندی سٹیٹ کی دیکھ بھال بھی انہی کے ذمے تھی…. پھر پرانی یادوں کو دہراتے کہنے لگے ہم شمالی دروازے سے شہر کے اندر داخل ہوتے… محلہ سادات سے گزرتے شاہی مسجد سے ہوتے پررونق بازار میں آ جاتے. میاں حیسن اعوان اور خوجہ برادری کی کریانہ شاپ سے سودا سلف خریدتے.

کپڑے ہم رسول بخش کورائی کی دکان سے لیتے…. اگر نقی صاحب سے ملنا ہوتا تو مغربی دروازے سے دریشکوں کے گھر سے ہوتے ہوئے جاتے.

اور کبھی کبھی تھانیدار کی دعوت پر ہم مشرقی دروازے سے آتے تو سامنے قاضی ابوالحسن صاحب کی سب سے قدیم مسجد میں نماز پڑھتے…

اور پر پیچ گلیوں اور پرانے مکانوں کا سلسلہ ہمیں جنوبی دروازے سے گول سڑک پر لے آتا.. "

جہاں سیاسی جلسے ہوتے کُشتی کے اکھاڑے اور علمی مباحث… اب اس جگہ اب ستر کے چناؤ میں ضلع ڈیرہ غازی خان کی شمالی سیٹ پر تمن بزادر کے چیف دوست محمد بزادر اور گورنر پنجاب رہنے ذوالفقار کھوسہ کے والد کے قاتل عطا محمد کھوسہ کے تمن کھوسہ کی حمایت سے فاروق "فرعون” کے والد محمد خان لغاری کو ہرا کر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہونے والے ڈاکٹر نزیر کی نام کی مسجد بنا دی گئی ہے کیونکہ ڈاکٹر نزیر کی جوانی یہیں گزری اور رشتے داریاں فاضل پور کے ساتھ 1925 میں قائم ہونے والی بستی نظام آباد میں آج بھی ان کے عزیز رہتے ہیں. دھندی سٹیٹ اور نوردھندی نہر کی خوشحالیوں کی یاد میں یہ بستی اب گئے دنوں کو یاد کر کے اداس اداس سی رہتی ہے. دھندی نہر کے سوتے جو خشک کر دیئے ہیں پانیوں کو روک جو دیا گیا ہے.

ریاستی اور حکومتی قہر و ظلم کے آگے ڈٹ جانے والے پاگل نہیں ہوتے کہ مرتے رہے کٹتے رہے لیکن آگے بڑھتے رہے اس لئے کہ غنیم اتنے گہرے زخم لگاتا ہے کہ نسلوں تک اس کے اثرات رہتے ہیں اور یہ سلسلہ رکا نہیں جاری ہے.

یوں ہی ہمیشہ الجھتی رہی ہے ظلم سے خلق

نہ ان کی رسم نئی ہے نہ اپنی ریت نئی

یوں ہی ہمیشہ کھلائے ہیں ہم نے آگ میں پھول

نہ ان کی ہار نئی ہے نہ اپنی جیت نئی.

فاضل پور کو اپنا مسکن بنانے والے میجر اسحاق کے ساتھی کیپٹن شیر گل نے آخری سانس تک یہاں کے کسانوں کے حقوق کے لئے کام کیا

مِسن گھرانے کے پہلوانوں کے اکھاڑے پر اجارہ داری کی کہانیاں سناتے چاچا نتھو نائی نے فاضل پور میں کبڈی، کشتی اور والی بال کے آل پاکستان ٹورنامنٹ کے تسلسل کو یاد کرتے ہوئے کہا… اب آبادی بھی بڑھ گئی ہے خوراک کی بھی فروانی ہے لیکن کھیل نہیں رہے ساتھ بیٹھا اعجاز غازی بولا…. میچ تو اب بھی ہوتے ہیں ٹورنامنٹ بھی باقاعدگی سے ہوتے ہیں… لیکن جوئے کے.

چاروں طرف آم کے باغات سے گِھرے فاضل پور کے

فیض محمد خوجہ جنہیں عوام دوستی اور زمانہ شناسی سے لوگ فیضو مُہاندرا کہتے تھے فاضل پور میں پہلی ٹورنگ سینما کی طرح ڈالی تو شہر کی پہلی مٹھائی کی دکان اور پہلا چائے خانہ کھولنے والے ملک قادربخش بھٹہ شہر کی پہلی سائیکل بھی خرید لائے تو سائیکلوں کی مرمت کرتے کرتے ملک فدا حسین بھٹہ پہلا ٹرانف موٹر سائیکل اور پہلا ریڈیو سیٹ بھی لے لائے شہر میں،

اور ستر کی شروعات میں ملک نزر محمد بھٹہ کا شہر میں آنے والا پہلا ٹی وی دیکھنے سر شام عوام چلے آتے.

مولوی خدا بخش نعمیی اور گل محمد نقی کے ساتھ مل کر پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھنے والے فاضل پور کے پہلے صحافی ملک خادم بھٹہ بتانے لگے کہ ستر کے الیکشن میں جن کے خلاف تقریریں کیں جلوس نکالے، الیکشن کے بعد وہی پیپلز پارٹی کے وزیر بن بیٹھے اور ہم خود کو کوستے اور روتے رہ گئے انقلاب کے رومانس نے جو توانائی عطا کی تھی وہ مایوسی و اداسی میں بدلتے دیکھ کر بس اب تو سانس لینے کو زندگی سمجھ بیٹھے ہیں.

یہ شہر بڑی تیزی سے پھیلنے والا مہنگی زمین اور بہت زیادہ کرائے پہ چلنے والی دکانوں کے سبب مشہور ہے البتہ روزمرہ اشیاء ارزاں ہونے کے ساتھ ساتھ چوبیس گھنٹے کھلے رہنے والے ہوٹل اس کے جاگنے کا سبب ہیں.

جس طرح ہندوستان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جو بھی آیا اسی کا ہو رہا فاضل پور کا بھی یہی حال ہے.

سوائے چشتیاں کے رانا فیض اور سرگودھا کے شفیع گوندل کے جن کے نام سے دو محلے ان کی یاد دلاتے ہیں باقی آنے والے یہیں بس گئے.

بظاہر بڑی میونسپلٹی بنوانے کا "اعزاز” لینے والوں ناخداؤں نے دھندی سٹیٹ کے دیہاتوں کو شہری حدود کے دائرے میں لا کر مالکانہ حقوق سے مستقل محروم کر دیا ہے.

اب زمانے پھر لانے پڑیں گے جب بھاشانی، پلیجو، اسحاق سے کیپٹن شیر گل… سب انہی مزارعین کے حقوق کے لئے جدوجہد کی.

لکیر دلی والوں نے کھنچی

.. گھر فاضل پور والوں کے چھٹے.

"واہ ری ونڈ”

لیاقت علی خان کی رعیت کرنال چھوڑنے والے صادق شیروانی کہہ رہے تھے جاگیر چھوڑی تو وزارت عظمیٰ بھی پائی ہمارے حصے میں وہی مزدوری اور تنگ گلیاں تاریک کوچے آئے. اُن کا گاندھی بابائے قوم بنا اور میرے شہر کا گاندھی آج پٹوار خانے کے آگے بھیک مانگتا ہے.

ملک صاحب ساری کہانی طبقاتی ہے

بنگلہ کورائی سے اٹھنے والی سرائیکی لوک سانجھ کی تحریک مہرے والا پہنچی تو عاشق بزدار اسی کا ہو رہا…

فاضل پور کے جوان پیچھے کہاں رہتے.

سوجھل دھرتی واس تنظیم کے پلیٹ فارم پر سارے سرائیکی قوم پرستوں کو اکٹھا کیا وعدے، قسمیں، اتحاد.

جس طرح

"دس سالہ معاملہ” کرنے والے نے ملتان کے ہاشمی سے کہا تھا ذرا پارٹی سنبھالنا میں وزارت و صدارت لائے ابھی آیا… ہاشمی زنداں میں سڑتا رہا اور جانے والا محلات میں پلتا رہا.

اسی طرح سوجھل بچوں کو کہا ذرا ہمیں ووٹ اکٹھے کر دینا پھر صوبہ بھی تمہارا حقوق بھی تمہارے.

لیکن طبقاتی تقسیم کو سمجھے بغیر تو کعبہ میں ہونے والے معاہدے ہوا دیکھے ہیں وقت نے… لیکن فاضل پور کے جواں مایوس ہونے والے ہرگز نہیں.

کیونکہ نقی صاحب کی جب یاد آتی ہے تو مایوسی پھر امید میں بدلتی ہے

جس نے ووٹ کے لئے ہونے والے جلسے میں امیدواروں کے سامنے کہا تھا سردار صاحب ہم کیا کہیں آپ سے.

آپ میں سے ایک سنتا نہیں دوسرا سمجھتا نہیں.

امجد عباسی کہنے لگے 1979 میں جس جلوس کا حصہ بنے تھے آج بھی اسی جلوس میں ہیں منزل تو ابھی دور ہے سفر ابھی طویل ہے.

اولین خواتین معلمات کا ذکر کریں تو 47 سے سید اشرف علی، اسد اللہ خان اور طاہر حسین رضوی جیسے معروف اساتزہ کی ماؤں کے نام سامنے آتے ہیں.

آخر میں فاضل پور پر اپنا سب کچھ نچھاور صرف دو افراد کا ذکر…

ملک رحم علی کلیا اور پی ٹی آئی عبدالحق ان ہزاروں لوگوں میں سے ہیں جو باہر سے یہاں آئے اور اسی مٹی کے ہو رہے. مظفر گڑھ سے لہور فزیکل ایجوکیشن کا امتحان پاس کرنے کے بعد گورے کی فوج سے ہوتے فاضل پور میں پی ٹی آئی تعینات ہونے والے خواجہ فرید کے گہرے دوست مولانا غلام رسول کے فرزند عبدالحق صاحب جو ڈرامہ، سکاؤٹنگ، تعلیمی نظم و نسق اور تعلیم سے عشق میں ان جیسا مجنوں فاضل پور نے پھر نہیں دیکھا…. رات گئے سونے کے لئے گھر جاتے علی الصبح پھر آ جاتے اور جب آخری سانس لیا تو مدفن بھی سکول کو بنایا.

ماسٹر اللہ داد مستوئی کی رہنمائی میں میراں پور کے خشک میدانوں سے آنے والا ملک رحم علی کلیا… تقسیم سے دو سال پہلے جام پور سے اول آئے …. کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لہور میں داخلے کا حق دار تو ٹھہرا لیکن استاد کے مشورے اور اپنی واری جانے والی طبیعت کے سبب زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں داخلہ لیا اس لئے کہ وظیفے کی رقم سے خود بھی پڑھوں گا اور اپنے بھائی بہنوئی کو بھی ساتھ ملاؤں گا… پھر وقت نے دیکھا… یہی نوجوان زرعی گریجویشن کے بعد حکومت فلپائن کی دعوت پر چاول کی تحقیق کے لئے گیا تو انعام پایا.. پھر مرکز فاضل پور بنایا. ایک بھائی ٹیچر بنوایا تو ایک کو زراعت میں لگوایا بہنوئی جی ٹی ایس میں سٹینو بنا تو قبیلے کا جو فرد جس کا مستحق تھا اس کا حق دلایا… دھندی کا تحصیلدار بنا تو مزارعین کے لئے لڑتا رہا آج ان کی اولادیں فاضل پور کے دم سے شاداں و نازاں ہیں

درداں دے ماریے پیر پیادے چھے سال قبل بلوچ زادوں کا قافلہ چلا…. سفر شام کا تو نہ تھا…. کٹھن شام جیسا تھا… زینب… تو نہ تھی.. غم زینب سے کم نہ تھا.. بیمار زین العابدین تو نہ تھا… درد زین العابدین سے کم نہ تھا… بہن اپنی بھائی کی تلاش میں بیٹا باپ کی کھوج میں تو والد جوان بیٹے کا لاشہ مانگنے نکل پڑے… بولان سے مہران پہنچے قائد کے در سے بھی خالی ہاتھ…. ہوتے ہوئے پھر برف دلوں کے نگر مارگلہ پہاڑوں کا رخ کیا شدید ٹھنڈی ہواؤں میں سفر تھا…. شمال کا… علی حیدر اپنے ننھے ہاتھوں سے دوپہیوں والی ٹرالی پہ اپنوں کی تصویریں اٹھاتے تھک گیا تو دیوانے ایدھی نے چار پہیوں والی ریڑھی دیتے ہوئے کہا بیٹا بوڑھا نہ ہوتا تو ساتھ دیتا… شہرِ قائد سے چلے ساڑھے سات سو کلومیٹر بعد جونہی فاضل پور کی حدود میں پہنچے… زمیندار گھرانے کے درویش منش خلیل خان دریشک نے استقبال کیا جام پور سے اسد اور رؤف کھنچے چلے آئے سکولوں سے بچے بھی آئے فاضل پور کے جوانوں نے قافلے کو گلے لگایا مستورات کو چادرِ امان میں لے لیا.. میزبانی کرتے خلیل خان نے اپنی وسیع کوٹھی حوالے کر دی.. اور اپنے ملازمین سے کہا آج تک تم نے سرداروں، وزیروں، وڈیروں کی میزبانی کی ہے آج قافلہ کربلا کی ایسی خدمت کرو کہ تمہارے ہمارے گناہ دُھل جائیں…

فاضل پور نے جان نچاور کردی….. ڈاکٹر خلیل کہنے لگا آج عطا محمد دریشک کی اولاد نے امیر شہر ہونے کا حق ادا کر دیا ہے.

دعاؤں آہوں آنسوؤں سے اس قافلے کو ایک سو بیس کلو میٹر شمال مشرق میں غازی گھاٹ سے سندھو سائیں پار کرایا… علی حیدر کا ماتھا چوما،

زرینہ نے آنچل لہرایا مامے نے گلے لگایا اور یوں فاضل پور نے اپنا فرض نبھایا.

About The Author