نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سردار عاطف مزاری کو بیٹے نے کیوں قتل کیا؟

(قمر اقبال جتوئی)ایک فقرہ سنتے تھے کہ اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
سنتے تو بڑے عرصے سے آ رہے تھے مگر آج اس کا حقیقی پہلو دیکھا گیا کہ مزاری خاندان میں اس گھر کو آگ لگ گئی اس گھر کے چراغ سے
بلوچ سردار نے اپنی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے گھر آئے مہمانوں کو بچانے کیلئے گولی اپنے سینے پر کھا لی‘ مہمانوں پر زندگی قربان کر دی


ایک بلوچ سردار نے ایک بلوچکی سردار ہونے کا صحیح ثبوت دیا اور اپنے مہمان پر قربان ہو گیا۔ جو حقائق اب تک سامنے آئے ہیں اس کے مطابق پیر سیف الرحمن درخواستی خان پور والے جو کہ اللہ کو پیارے ہو گئے ہیں ان کے دو بیٹے رحمت الرحمان اور جواد الرحمان اس وقت سردار عاطف خان مزاری کے ڈیرے پر موجود تھے اور کھانا کھا رہے تھے کہ اسی اثناء میں ان کا بیٹا باسط مزاری کمرے کے اندر آیا اور کسی کے ساتھ دعا سلام نہ کیا باپ کو اس بات کا رنج ہوا تو اس نے اپنے بیٹے سے بلوچکی میں کہا کہ ”ووئے توں مہماناں کو ملسی کائناں“ تو بیٹے نے طوحاً، کرہاً، جبراً کیونکہ وہ ذہنی مریض تھا اور اس کا کئی عرصہ سے علاج بھی ہو رہا تھا عاطف خان مزاری جب ڈاکٹرز سے نا امید ہوئے تو وہ پیروں، فقیروں کے پاس بھی گئے اس معاملے میں عاطف خان مزاری کے معتمد ساتھی اچھی خان جتوئی بھی متعدد بار ان کے ہمراہ ہوتے تھے۔

وہ جب آیا تو اس نے کہا کہ ”ووئے توں مہمانیں کوں ملسی کائناں“ تو اس نے اگلی دو انگلیوں سے مہمانوں سے ہاتھ ملایا جو کہ والد کو ناگوار گزار تو اس نے اپنے بیٹے سے بلوچکی میں کہا کہ ”ووئے چندرہ مہمانیں کوں ایویں ملیندے“ اس بات پر اس کے بیٹے نے مہمانوں کے سامنے اپنی بے عزتی محسوس کی وہ اندر گیا اسی اثناء میں مہمانوں نے کھانا کھا لیا اور چائے آ گئی۔

لعاطف خان مزاری کا بیٹا باسط خان مزاری اپنے والد کی ”کلاشنکوف“اٹھا لایا۔ عینی شاہد رحمت الرحمن نے بتایا کہ میں چائے میں ابھی میٹھا ملا ہی رہا تھااور میرا سر نیچے چائے کی طرف تھا کہ سردار عاطف خان مزاری کی آواز سنائی دی کہ ”کھڑ کھڑ“ میں نے جب اوپر دیکھا تو اس کے بیٹے نے کلاشنکوف میری طرف تان رکھی تھی۔ اسی اثناء میں عاطف خان مزاری نے مجھے دھکا دیا کہ نشانے کی زد سے ہٹ جاؤں۔

اسی اثناء میں اس نے کلاشنکوف کا بولٹ کھینچا تو عاطف خان مزاری نے ایک لمحے کی تاخیر کئے بغیر کھانے کی ٹیبل کے اوپر پاؤں رکھ کر جمپ لگایا اور بیٹے کے سامنے آ گیا اور اس سے گن چھیننے کی کوشش کی اسی اثناء میں اس کے بیٹے نے گولی چلا دی عاطف خان مزاری کے دائیں ہاتھ کی درمیانی انگلی اس کی زد میں آئی اور اڑ گئی۔

اس کی شدت سے ایک لمحے کیلئے سردار عاطف خان مزاری کا سر نیچے اپنے ہاتھ کی طرف ہوا اور اسی لمحے میں اس کے بیٹے نے دوسری گولی چلانے کے لئے ٹرائیگر پر زور دے دیا سردار عاطف خان مزاری اپنے مہمان کی طرف سیدھے ہوئے تو گولی چل گئی اور وہ سیدھی ان کے دل کے مقام پر لگی جو دوسری طرف پار ہو گئی جس کے سبب سردار عاطف خان مزاری نیچے گر گئے اور ان کے منہ سے بلند آواز میں ”اللہ“ نکلا۔ ہم دونوں نے بھاگ کر اسے اٹھانے کی کوشش کی تو ہم سے وہ اٹھایا نہیں جا رہا تھا۔

اسی اثناء میں اس کے بیٹے کو احساس ہوا تو اس نے اپنے ملازم پیرا کو آواز دی۔ ہم نے فوراً جواد الرحمن کی گاڑی نکالی اور عاطف خان مزاری کو اس میں ڈال کر راجن پور ہسپتال روانہ ہونے لگے۔ سردار عاطف خان مزاری کا وہ بیٹا بھی ہمارے ساتھ آ گیا اور گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گیا کلاشنکوف اس کے ہاتھ میں تھی۔ ملازم نے جلدی سے اس کی کلاشنکوف چھین کر باہر پھینک دی اور دوسرے ملازمین کو آواز دے کر کلاشنکوف اٹھانے کے لئے کہا۔

سردار عاطف خان مزاری کا دوسرا بیٹا بھی پہنچ گیا اور گاڑی میں بیٹھ کر ہسپتال روانہ ہوا۔ جب ہم ہسپتال پہنچے تو پتہ چلا کہ وہ جانبر نہیں ہو سکے۔ اتنی دیر میں باسط خان نے ہم سے گاڑی کی چابی مانگی جسے ہم نے نہیں دی تو اس نے اپنے بھائی سے گاڑی کی چابی لے لی۔ اسی اثناء میں پولیس بھی وہاں پہنچ چکی تھی۔ پولیس نے اسے پکڑنے کی کوشش کی تو اس نے گاڑی پولیس موبائل میں مار کر راستہ بنایا اور گاڑی نکال لی اور سیدھا کشمور روڈ کی طرف گاڑی بھگا دی۔ گاڑی جب سندھ داخل ہوئی تو اسے بند کرا دیا گیا۔ ذرائع کے مطابق جہاں گاڑی بند ہوئی وہیں سے وہ پیر بھرچونڈی شریف والوں کے پاس چلا گیا۔

عاطف خان مزاری کا قاتل بیٹا باسط مزاری

رات دو سے ڈھائی بجے تک یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکی تھی اور ان کو بھی پتہ چل چکا تھا ذرائع کے مطابق انہوں نے اسے قابو کیا اور مقامی پولیس کے ایس ڈی پی او روجھان ثناء اللہ مستوئی کو واقع کی اطلاع دی اور بتایا کہ عاطف خان مزاری کا بیٹا ان کے پاس ہے پولیس اسے وہاں سے لے آئی ہے اور آف دی ریکارڈ پولیس کی کسٹڈی میں ہے۔ مگر ایف آئی آر کے مطابق وہ ابھی تک فرار ہے۔

یہاں پر آپ یہ دیکھیں کہ گھر کو تو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔ مگر ایک بڑے سردار نے اپنے مہمانوں پر آنچ نہیں آنے دی۔ اپنی جان قربان کر دی۔ بہت سارے لوگ سردار عاطف خان مزاری کو ناپسند کرتے ہوں گے کسی بھی وجہ سے۔

یہ ہر کسی کا حق ہے مگر میری رائے میں سردار تو بہت سے ہیں مگر عاطف خان مزاری ایک ایسا سردار تھا جسے لوگ سردار مانتے ہیں وہ خطرناک سے خطرناک جرائم پیشہ لوگوں کے پاس اکیلا چلا جاتا تھا اور ان کے پاس بیٹھتا تھا اس بات کے لوگ گواہ ہیں۔ جرائم پیشہ لوگوں نے کسی کو اغواء کیا ہوتا یا پولیس کو پکڑ لیا ہوتا تو وہ انہیں کہتا کہ ”میں تہاڈے کنے ٹُر تے آ گئیاں، پولیس آلیں کو واپس ڈیو یا جیڑھے وی اغواء کیتن وے انہاں کوں واپس ڈیو“ خطرناک سے خطرناک جرائم پیشہ عناصر بھی اسے مایوس نہیں کرتے تھے سردار عاطف خان مزاری لوگوں کی بھلائی کے لئے کام کرتا تھا وہ ایک سادہ دل انسان تھا وہ بالکل حقیقت میں زمین پر بیٹھ جاتا تھا۔

اس میں کوئی زعم سرداری والا نہیں تھا ایک اور بات آپ کو بتاتا چلوں کہ اس کی سابقہ زندگی کیسی تھی یہ سب جانتے ہیں مگر جب سے عاطف خان مزاری نے عمرہ کی سعادت حاصل کی تھی تو وہ اپنے تمام گناہوں سے تائب ہو گیا تھا میں خود اس بات کا عینی شاہد ہوں کہ وہ بیس دوستوں کے درمیان بیٹھا تھا وہ واحد شخص تھا جس کے سامنے کوئی ”جام“ نہیں تھا وہ بغیر پیئے بیٹھا تھا اور اس نے جو اپنی توبہ کی تھی اس پر قائم تھا۔ لوگ جس طرح مرضی آئے اس کے کردار کو میلا کریں انکا اپنا نظریہ اور رائے ہے میرے نظریے اور رائے کے مطابق وہ دوستوں کا دوست، یاروں کا یار اور غریبوں کا ہمدرد تھا۔ وہ کسانوں، ہاریوں اور غریبوں کے ساتھ زمین پر بیٹھ جاتا اور ان کیساتھ ہنسی مذاق کرتا۔

اس کے مد مقابل الیکشن لڑنے والے بھی مزاری خاندان کے ہی افراد ہوتے ہیں اگر چارپائی بھی میلی ہو تو وہ لوگ اس پر نہیں بیٹھتے مگر سردار عاطف خان مزاری اپنے عوام سے محبت رکھتے تھے ان کے دکھ سکھ میں شریک ہوتے اس میں کوئی سرداری والا زعم نہیں تھا یہ ضلع راجن پور کے لوگوں کیلئے ایک بہت بڑا نقصان ہے۔سرائیکی وسیب کا ایک بہت بڑا بندہ مارا گیا۔

About The Author