مئی 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ہندو شاہی سلطنت اور قلعہ کافر کوٹ

جب سبکتگین غزنی کا بادشاہ بنا تو اُس وقت پنجاب پر راجہ جے پال کی حکمرانی تھی۔جس کی ریاست کی سرحدیں بٹھنڈہ سے لے کر دریائے سندھ کو عبور کرتی ہوئی پشاور تک تھیں۔

عباس سیال


ماہرین آثار قدیمہ بل اوٹ کے کھنڈرات کا تعلق نہ صرف ہندو شاہی خاندان سے جوڑتے ہیں بلکہ قلعے کے اندر بنائے گئے پہلے مندر کو ساتویں صدی عیسوی میں ہندو شاہی سلطنت کے عروج جبکہ آخری مندر کی تعمیر دسویں صدی عیسوی بتائی جاتی ہے۔ہندو شاہی سلطنت کی تاریخ بھی دلچسپی سے خالی نہیں۔

ہندو شاہی /جنجوعہ شاہی سلطنت: چوتھی صدی کے آغاز سے نویں صدی عیسوی کے وسط تک موجودہ افغانستان پر کابل شاہی سلطنت قائم تھی،جن کا صدر مقام کابل تھا۔ نویں صدی کے وسط میں کابل شاہی کے وزیر”للی / للیہ“ جنجوعہ ذات کے جٹ نے ہندو شاہی سلطنت کی بنیادیں رکھیں۔اُس وقت کے افغانی ہندو جو نسلاً جٹ تھے وہ ملتانی لہجے کی سرائیکی زبان بولتے تھے۔ مشرقی افغانستان، صوبہ خیبر پختونخواہ، پنجاب اوربلوچستان کے حصوں پر مشتمل تھی اور جس کے شمال میں ریاست کشمیر،مشرق میں ریاست راجپوتانہ،جنوب میں ملتان اور مغرب میں عباسی خلفاء کی حکومت تھی، ان کے دارالحکومت کا صدر مقام کبُہہ(کابل) تھا۔870ء کے دوران ہندو شاہیوں کو وہاں سے نکال دیا گیا،چنانچہ انہوں نے پشاور کے قریب دریائے سندھ کے کنارے اُدابھاندا (ہُند) کے مقام پر نیا دارالخلافہ بنایا۔یہ وہی مقام ہے جہاں سے سکندر اعظم نے اٹک کے راستے دریائے سندھ کو عبور کیا تھا۔للی کے بعداس کا بیٹا جیا پالا المعروف جے پال حکمران بنا۔ہندو شاہی خاندانوں میں راجہ جے پال سب سے نمایاں تھا،جس نے غزنوی حکمرانوں (سبکتگین و محمود)کے ساتھ ہندوستان کی حفاظت کی لڑائیاں لڑیں۔

سبکتگین کا دور: دسویں صدی عیسوی میں جب بغداد کے خلفاء کی قوت ماند پڑنے لگی تو وسیع و عریض اسلامی سلطنت کے طول واطراف میں خود مختار ریاستیں جنم لینے لگیں۔اسی عرصے میں ماوراء النہر(وسطی ایشیاء کے دریائے آمو،دریائے سر کا درمیانی علاقہ) جس میں موجودہ افغانستان بھی شامل ہے،وہاں سلطنت ِسامانیہ کا قیام عمل میں لا یا گیا۔سلطنت سامانیہ کے سلطان عبدالمالک کے پاس الپتگین نامی ایک غلام تھا جو ترقی کرتا خراسان کا گورنر بنا۔947ء میں عبدالمالک کی رحلت کے بعد جب منصور بن عبدالمالک بخارا کے تخت پر بیٹھا تو الپتگین نے بغاوت کا اعلان کر دیا۔منصور نے الپتگین کودربار میں حاضری کا حکم دیا،مگروہ تین ہزار کی سپاہ لے کر کوہ سلیمان کے وسطی علاقے غزنی پہنچا اور یہیں پر ہرات، سیستان و بلخ کے علاقوں کو ملا کر ایک آزاد ریاست کی بنیادیں ڈالیں۔ الپتگین پندرہ سال حکومت کرنے کے بعد 963 ء میں فوت ہوا،جس کے بعد اس کا بیٹا ابو اسحق تخت نشین ہو ا،مگر وہ دو برس بعد لاولد فوت ہوا۔جب نظام سلطنت ڈگمگانے لگا توالپتگین کے ایک وفادار غلام سبکتگین کو امرا ء کے مشوروں سے غزنی کی عنان حکومت دے دی گئی۔کچھ تاریخ دان ر قم طراز ہیں کہ سبکتگین درحقیقت ایران کے شاہی خانوادے کا شہزادہ تھا۔جسے کسی بے رحم نے سن بلوغت سے قبل اغوا ء کر کے غلام منڈی میں بیچ ڈالا تھا،جسے بالاآخر الپتگین بادشاہ نے بخارا کے سوداگر ناصر سے خریدا تھا،جو اپنی قابلیت کے باعث فوج کا سپہ سالار بنا، کہتے ہیں کہ الپتگین نے اپنی بیٹی بھی اُس کے نکاح میں دے دی تھی۔

جب سبکتگین غزنی کا بادشاہ بنا تو اُس وقت پنجاب پر راجہ جے پال کی حکمرانی تھی۔جس کی ریاست کی سرحدیں بٹھنڈہ سے لے کر دریائے سندھ کو عبور کرتی ہوئی پشاور تک تھیں۔

سلطنت غزنی اور پنجاب کے راجہ جے پال کی سرحدیں آپس میں ملی ہوئی تھیں اور دونوں ایک دوسرے کے جانی دشمن تھے۔سبکتگین کی نظریں لاہور پر تھیں جبکہ جے پال کی کابل پر۔اسی دوران سبکتگین نے جے پال کے علاقے کی کچھ چوکیوں پر قبضہ کر لیا،جس کے جواب میں جے پال نے ایک بڑا لشکرتیار کیااورپشاور و کابل کے وسط میں لمغان کے مقام پر ڈیرے ڈال دئیے، سبکتگین بھی فوج لے کرآیا۔اس جنگ میں اس کے بیٹے محمود نے دادشجاعت کا مظاہرہ کیا۔ جنگ کے دوران اچانک سرد و تند ہوا کے ساتھ برف باری شروع ہو گئی۔افغانیوں کو اتنی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑا کہ وہ برفانی تھے لیکن میدانی خطے کی فوج نے یہ عذاب پہلے کبھی نہ دیکھاتھا۔نتیجتاًسخت سردی سے ان کے جسم اکڑ گئے اوریوں ہزاروں کی تعداد میں راجہ کے سپاہی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔راجہ نے صلح کا پیام بھیجا،جسے سبکتگین نے تاوان کے بدلے قبول کرلیا۔راجہ سبکتگین کے آدمی لاہور لے گیا تاکہ وہاں جا کر تاوان جنگ ادا کرے،لیکن لاہور پہنچ کر برہمنوں نے اُسے بھڑکایا کہ تاوان دینے میں ذلت،رسوائی اور بدنامی ہوگی۔راجہ نے ان کے باتوں میں آکر تاوان دینے سے انکار کر دیا۔ سبکتگین جے پال کو وعدہ خلافی کی سزا دینے کے لیے غزنی سے نکل پڑا۔دوسری جانب جے پال نے بھی دہلی، کالنجر،قنوج اور اجمیر کے راجاؤں کی فوج کو ساتھ لیا اور جلال آباد کے مقام پر سبکتگین سے جا ٹکرایا۔غزنوی فوج نے دشمن کی سپاہ کو گاجر مولی کی طرح کاٹا۔ راجہ کی فوج کو پھر شکست ہوئی اور وہ دریائے سندھ کے مغربی کنارے تک کا سارا علاقہ گنو ابیٹھا۔سبکتگین بادشاہ بیس سال حکومت کرنے کے بعد 997ء میں انتقال کرگیا، محمود غزنوی نیا حکمران بنا۔ایک بار پھرپشاور کے قریب دونوں فوجوں میں گھمسان کا رن پڑا،جس میں راجہ جے پال کو تیسری بار شکست ہوئی اور اس کی بچی کھچی فوج کوہ ہندو کش کے عقب میں پناہ گزین ہوئی۔ غزنویوں نے اس مقام کو ہندوؤں کا موت گھاٹ بناڈالا۔اسی واقعے کے بعد یہ پہاڑی سلسلہ ”کوہ ہندو کش“ یعنی ہندوؤں کی موت کا پہاڑ کہلایا۔ اس جنگ میں راجہ جے پال گرفتار ہوا،جسے اس کے بیٹے انند پال نے ایک بھاری خراج کے عوض رہا کروا یا۔پے درپے شکستوں نے راجہ جے پال کے اعصاب کو کمزور کر دیا تھا،بالآخر اس نے انندپال کو حکومت سونپی اور خود لاہور کے موری دروازے کے باہر کھڑے ہو کر اپنی چِتا کو آگ لگا دی۔کچھ عرصے بعد محمود غزنوی اپنی افواج لاہور لے کر آیا اور انند پال کو شکت فاش دی۔لاہور سے بھاگ کر انند پال نے کانگرہ (ہماچل)کو اگلا دارالخلافہ بنایا،مگر غزنوی فوجیں مسلسل ان کے تعاقب میں رہیں،یہاں تک کہ انہیں کا نگرہ سے بھی بے دخل کر وا کر دم لیا۔کانگرہ سے نکلنے کے بعد وہ نندانہ کا رخ کر چلے۔نندانہ میں بھی انہوں نے ایک قلعہ تعمیر کیا مگر وہیں پر وہ تاریخ کا حصہ بنا دیئے گئے۔ کانگرہ کی شکست کے ساتھ ہی ہندو شاہی سلطنت کا عملاً خاتمہ ہوگیا۔

تاریخی حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں ہندو شاہی سلطنت وہ پہلی خود مختارریاست تھی کہ جس نے افغانستان کے راستے داخل ہونے والے حملہ آوروں کا نہ صرف سب سے پہلے سامنا کیا تھا بلکہ ہندوستان کے دفاع کی جنگیں بھی لڑی تھیں۔راجہ جے پال،انند پال اور ترلوچن تک ہندوشاہی کی تین نسلوں نے سبکتگین اور محمود غزنوی کوجھیلا۔راجہ جے پال نے سبکتگین کے ساتھ جبکہ انند پال و ترلوچن شاہی نے محمودغزنوی کے ساتھ کانگرہ میں مقابلہ کیا مگر ہر بار شکست ان کا مقدر ٹھہر ی اورہر نئی شکست کے بعد وہ اپنے علاقوں سے محروم ہو کر پیچھے ہٹتے چلے گئے،بالآخرہندوستان پر سترہ حملوں کے بعد محمود غزنوی نے سارے پنجاب کا کنٹرول سنبھال لیا اور اس طرح1014ء میں ہندو شاہی سلطنت اپنے انجام کو پہنچی۔

ہندو شاہی سلطنت کے بارے میں مشہور سیاح ابو ریحان البیرونی ”کتاب الہند“ میں لکھتے ہیں:”ہندو شاہی خاندان اگرچہ مکمل طور پر نیست و نابود ہو چکااور اب ان کی نسلوں کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہا مگر ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ان لوگوں نے اپنے وقتوں میں وہی کام کیا جو انہیں کرنا چاہیے تھا۔یہ لوگ نیت اور کردار کے کھرے تھے“۔

غزنوی حملوں کے خوف نے دریائے سندھ کے مغربی کناروں کو برباد،ویران اور سنسا ن کر دیا تھا۔لہٰذا کافی لمبے عرصے تک یہ علاقے بیابان رہے۔

قلعہ بلوٹ کی مسماری اور ڈیرہ اسماعیل خان میں جٹ و بلوچ قبائل کی آبادکاری تک کا درمیانی عرصہ تقریباً 400 سو سال بنتا ہے مگر اس سارے عرصے میں اس خطے کی تاریخ مکمل طور پر خاموش ہے۔کہا جاتا ہے کہ حملہ آوروں کے خوف سے یہاں کی بیشتر آبادی ہجرت کرکے دریا ئے سندھ کے اُروار (مشرقی جانب) کوچ کر گئی تھی،جس میں سے بیشتر لوگوں نے برصغیر سے نقل مکانی کرکے مشرقی یورپ (رومانیہ) میں جا کرپناہ لی تھی۔مشرقی یورپ کے بیشتر علاقوں خصوصاًرومانیہ میں ان کی نسل آج بھی وہاں خانہ بدوشوں کی زندگی بسر کر رہی ہے،یہ لوگ اپنے آپ کو آج بھی ملتانی اور اپنی زبان کو رومانی کہتے ہیں۔یورپین زبانوں کے ملاپ کے باوجود آج بھی انکی زبان کے الفاظ سرائیکی زبان سے ملتے جلتے ہیں۔

پتہ نہیں حملہ آور دوسروں کی ٹوٹتی آرزوؤں کے کھنڈروں پر اپنی خوشیوں کا تاج محل کیسے تعمیر کر لیتے ہیں؟؟؟۔

کافر کوٹ کے قلعوں کے ساتھ کسی قسم کی کوئی افسانوی داستانیں منسوب نہیں ہیں بلکہ یہ راجہ بل اورتل کے قلعے تھے اور ان کے ناموں کی مناسبت سے ان کا نام بل اوٹ اور تل اوٹ پڑا تھا۔اس بارے میں ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کیگزٹیر1883-84،باب دوم صفحہ 23،پیراگراف اوّل میں لکھا ہے کہ:”دامان میں سب سے زیادہ دلچسپی کا باعث خیسور کی پہاڑی پر تعمیر کردہ بلوٹ و تلوٹ کے قلعے ہیں، جنہیں دریائے سندھ کے کنارے کھڑے ہو کر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ان قلعوں کی سب سے اہم خوبی بیرونی حفاظتی دیوار ہے جو بڑے بڑے پتھروں سے تعمیر کی گئی تھی۔قلعے کے اند رکی عمارتیں ہندو ؤں کے مندروں کی نشاندہی کرتی ہیں۔سارے مندر شہد کے چھتے جیسی رنگت رکھنے والے چونے کے پختہ پتھر ”کنجور“کی آمیزش سے تعمیر کیے گئے تھے،جن پر موسمی تبدیلیوں کا اثر بہت کم پڑتا ہے۔ یہ پتھر کوہِ خیسو رکی پہاڑی پر کہیں بھی نہیں ملتا اسی لیے قیاس ہے کہ انہیں خصوصی طورپر خوشحال گڑھ سے ڈھو کر یہاں تک لایا گیا ہوگا۔اس قسم کا پتھر میانوالی میں نمل پہاڑی کے قریب بھی پایا جاتا ہے۔بل اوٹ اور تل اوٹ کے قلعوں کا احاطہ معقول حد تک مناسب ہے اور یہ دونوں قلعے کسی فوجی چھاؤنی کو ظاہر کرتے ہیں۔یہاں پر اس چیز کے شواہد بھی ملے ہیں کہ قلعے کے اوپر پانی دریائے سندھ کی کچی کے علاقے سے اوپر تک پہنچایا جاتا تھا“۔

جرمن ڈاکٹر ایم اے شمین(انسپکٹر آف سکولز فار این ایف ڈبلیو) اور جنرل کنہگم نے قلعے کے کھنڈ رات کا تجزیہ کر نے کے بعد اپنی کتاب آرکیالوجیکل سروے رپورٹ کے Vol-14،صفحہ نمبر 26,27 میں تفصیل سے رقم کرنے کے بعد اس میں ہندوؤں کے مندروں اور تالابوں کی تصدیق کی ہے۔

لندن کے برٹش میوزیم میں موجودکافر کوٹ سے ملےدوسری اور تیسری صدی عیسوی کے نوادرات

ایک تحقیق کے مطابق فصیل کے اندر تعمیرکردہ مند روں کی تعداد سات کے لگ بھگ تھی، جس میں سے چار بڑے اور تین چھوٹے مندر تھے۔پوجا پاٹ کے لیے بنائے گئے ان مندروں میں سب سے بڑ امندر بائیں ہاتھ پر بنایا گیا تھا۔مندروں کی بیرونی دیواروں پر ماہر کاریگروں کے خوبصورت ڈیزائن تخلیق کیے گئے ہیں،جو نہ صرف مزیّن ہیں بلکہ ان کی آرائش و زیبائش انتہائی پیچیدہ اور باریک ہے۔بیشتر اینٹوں کو کھرچ کر اس پر سورج مکھی کی ساخت کے پھول بھی کندہ کیے گئے ہیں۔

یہاں پرمندروں سے ملحقہ کچھ تالابوں کے آثار بھی ملے ہیں۔ان تالابوں میں بارش کا پانی اکھٹا کیا جاتا تھا،جبکہ پہلو میں بہتے دریائے سندھ سے بھی پانی لا کر ان تالابوں میں ڈالا جاتا تھا۔کافر کوٹ کے تالابوں میں سب سے بڑا ”سورج کُنڈ“ نامی تالاب تھا،جس کے آثار آج بھی نمایاں ہیں۔اس قلعے تک رسائی کیلئے ایک پتھریلی سڑک کے آثار بھی دریافت ہوئے ہیں۔ …

ماخوز: سفرنامہ ”کافر کوٹ سے قلعہ ڈیر اول تک“

%d bloggers like this: