عباس سیال
سادہ اور رنگین خوشنماچنگیریں، پچھیاں (ڈھلیا، پٹاری)، تڈیاں (چٹائیاں)، ہاتھ سے جھلنے والے دستی پنکھے، بِنڈھیاں (ٹوکریاں)،ٹوکرے، ٹاہلی کی مضبوط لکڑی سے بنے رنگین پائے، چوکیاں اوروانڑ(بان) سے بُنے کھڈڑے(چارپائیاں) وغیرہ۔۔یہ سب دستکاریاں نہ صرف سرائیکی وسیب کا تعارف تھیں بلکہ مد قدیم سے ثقافتی علامت کے طور پر ہماری نمائندگی کرتی چلی آ رہی تھیں۔
کھجور کے پُوتروں (پتوں) سے بنی چنگیر کو سرائیکی اور سندھی زبانوں میں چھبّی کہا جاتا ہے۔ چھبی اپنی ساخت اور بناوٹ کے لحاظ سے پہچانی جاتی ہے،مثلاً روٹی رکھنے اور پیش کرنے کیلئے چھوٹی سائز کی گول چنگیر کو چھبی اور بڑے سائز کو چھبہ کہا جاتا ہے۔ہاری منی وی؟ گُھو ں دا چھبہ چاتا وی؟
چھبیاں کئی قسم کے قدرتی مواد سے بنائی جاتی ہیں۔ خجی یعنی (کھجور) کے گاچوں سے، بانس کی چھال سے،مِصری (کوکونٹ) کے پتوں سے، گٹُو کے رنگین دھاگوں سے، رنگین کلیوں سے، دامان میں پیدا ہونے والے خودرو پودے سر(سرکنڈوں) کے گھاس نما تیلوں سے اور اس کے علاوہ کھجور کے پتوں اور گندم کی ”ناڑ“ یعنی ”نلی“ کو مختلف رنگوں میں رنگ کر بھی چھبیاں بنائی جاتی ہیں۔
کھجور کی چھبی بنانے کیلئے سب سے پہلے کھجور کے درخت سے گاجے حاصل کئے جاتے ہیں۔ زیادہ تر گاچے ڈیرہ اسماعیل خان کے مضافات (ڈھکی اورڈھلے کے علاقوں) سے حاصل کئے جاتے ہیں۔چہتر بہار کے موسم میں کھجور کا غوشہ(خوشہ) نکلنے سے پہلے گاچے(پاندھ) نکلتے ہیں اور پھر اس کے بعد ان گاچوں سے خوشہ نکلتا ہے۔ کھجور کے مالکان خوشوں کو طاقت دینے کیلئے گاچے کاٹ کر منوں کے حساب سے چھبیاں بنانے والوں کے ہاتھوں بیچ دیتے ہیں، جنہیں چھاؤں میں سکھانے کے بعد رنگا جاتا ہے اورپھر ان گاچوں سے چھبیاں بنائی جاتی ہیں۔کھجور کی فصل جب پک کر تیار ہو جاتی ہے توایک بندہ رسی کی مدد سے کھجور کے درخت پر چڑھتا ہے اور بڑی مہارت سے کچی پکی کھجوریں (ڈوکے اور پِنڈ) اتار لیتا ہے۔(ہمارے شہر ڈیرہ کے محلہ عیسب زئی کا رہائشی گاماں مرحوم اس کام کا ماہر تھا۔ کھجور کے مالکان پھل پکتے ہی گامے کی خدمات حاصل کیا کرتے تھے۔ گاماں چابکدستی سے اپنی کمر کے گرد رسہ لپیٹ کر درخت کے اوپر چڑھتااورفصل اتارنے کے بعد کھجورکے درخت کی صفائی، کٹائی کرکے اس سے پتے اور جھانبے (شاخیں) اتار لیا کرتا تھا، کھجور کی ان شاخوں سے چاقو کی مدد سے پتلی کامبیں بنا کر اس سے پتنگیں بنائی جاتی تھیں جبکہ پتوں سے سادہ اور رنگین تڈیاں (چٹائیاں) بُنی جاتی تھیں، جنہیں چارپائی کے اوپر بچھایا جاتا تھا اور یہی چٹائیاں ہمیں گرمی کی شدت سے بچاتی تھیں)۔
کھجور کے پتوں سے مصلے، چٹائیاں اور ہاٹ پاٹ شکل کی پچھیاں آج بھی ڈیرہ کے دیہاتوں میں بنائی جاتی ہیں۔تازہ روٹیوں کو قندوری میں لپیٹ کر ان پچھیوں کے اندر رکھا جاتا ہے تاکہ وہ تا دیر گرم رہیں۔ آج بھی دہلی کے سرائیکی ہندوؤں نے ڈیرہ کی بنی مضبوط چھبیاں اور پچھیاں سنبھال رکھی ہیں،جن کے اندر ہندو عورتیں زیورات رکھتی ہیں۔ دہلی میں مجھے مکیش اسیجہ کی اماں جی نے پہاڑپور کی بنی پچھی دکھائی تھی جسے مکیش کی نانی تقسیم کے دوران ڈیرہ سے دہلی لے کر آئی تھیں اور شادی کے وقت ڈیر ہ کے سنار کے ہاتھوں سے ڈھلے سونے کے زیورات سمیت وہ پچھی مکیش کی ماں کو جہیز میں دی تھی۔
دریائے سندھ کے کنارے جھونپڑیوں میں آباد دراوڑی النسل کیہل قبائل کے مرد و خواتین دستکاری کے کام میں ماہر سمجھے جاتے ہیں۔کیہل لوگ ایک خودرو جھاڑی(لئی) سے ٹوکرے، ٹوکریاں، چھبے، چھجلے بناتے ہیں، اس کے علاوہ کھگل (فراش) کے درخت کی سوٹیوں (ٹہنیوں) سے ٹوکرے اور ٹوکریاں بھی بناتے ہیں۔ہمارے بچپن میں ان کی عورتیں رنگین کاغذ اور کانہے کی مدد سے بھمبھیریاں اور ڈگڈیاں بھی بناتی تھیں جبکہ چکنی مٹی کے پھیتے(پہیے) بنا کر گاڈی(گاڑی) بنا کر گلی کوچوں میں بیچی جاتی تھی، جسے ڈیڈر کہا جاتا تھا۔
اُن دنوں کچی پائند خان میں میکنڑں شمالی (میکن) میں کنیروں کی ایک بستی ہوا کرتی تھی، جہاں کے رہائشی کوندر کی مدد سے چارپائی کا وانڑ بناتے تھے۔”کوندر“ ایک خودرو جھاڑی نما پودا ہوتا ہے،جو دریا کے ٹھہرے پانیو ں اور تالابوں میں پیدا ہوتا ہے۔کوندر کودرانتی (داتری) کی مدد سے کاٹ کر دھوپ میں سکھا یا جاتا ہے اور پھر سوکھنے کے بعد پانی سے دوبارہ گیلا کرکے تیز دھار چاقو سے لمبی لویریں بنائی جاتی ہیں جنہیں آپس میں کس کر بل دینے سے وہ ایک رسے کی شکل اختیار کر لیتا ہے جسے سرائیکی میں وانڑ(بان) کہا جاتا ہے اور ان وانڑ کے پِنوں کو بازار میں جا کر بیچا جاتا ہے۔میکن شمالی کے کنیرے کُوندر سے بنے وانڑ کے پِنوں کو کاندھوں پر اٹھائے ساتھ میں داتری رکھے شہر کے گلی کوچوں میں صدائیں دیتے پھرتے تھے (پیڑی منجھے وُنڑو۔۔ پیڑی منجھے)،یہ لوگ پرانی چارپائی کا خراب بان کاٹ کر نئے بان سے چارپائیاں بُن کر دیتے تھے۔اسی طرح کنیراں والے گیٹ کے اندر ایک دو گھروں میں کوندر کی لویروں سے بِنڈھیاں اور مصلے بھی بُنے جاتے تھے اورکھجور کے خوشوں سے کا مبیں تیار کرکے رنگین پنوں اور لیوی کی مدد سے فر فری گُڈیاں اور لغڑ (پتنگیں) بنائے جاتے تھے۔ اُن ہنرمند کنیروں کی نسل کب کی قصہ پارینہ بن چکی۔
اسے ہماری بدقسمتی کہیے کہ آج ہم کھجور، سرکنڈوں او ر کوندر سے بنی چھبیوں، پچھیوں کو پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔بان سے بُنی لکڑی کی چارپائیوں کی بجائے پلاسٹک سے بنی فولادی چارپائیاں، کھجور کے پتوں سے بُنی چنگیروں کی بجائے پلاسٹک کی چنگیریں،پلاسٹک کے ہاٹ پاٹ، سوتی کپڑے اور کھدر کے قدرتی لباس کی بجائے پٹرولیم اور دیگر کیمیکلز سے بنے نائیلون کے پہناوے۔۔ہم بخوبی واقف ہیں کہ نائیلون کا کپڑا کئی قسم کی جلدی خارش کا سبب بنتا ہے جبکہ ماحول دشمن، مضر صحت ذہریلی کاربن سے بنے پلاسٹک بیگز اور پلاسٹک کی دیگر اشیاء کینسر جیسے موذی مرض کا باعث بن رہی ہیں لیکن ہم ہیں کہ واپس فطرت کی طرف پلٹنا ہی نہیں چاہتے اور جسے ہم نام نہاد ترقی کا نام دیتے نہیں تھکتے وہی اصل میں ہماری معاشرتی تنزلی ہے۔دوسری طرف مغرب ہر قسم کے الٹے سیدھے تجربات کرنے کے بعد واپس فطرت کی طرف لوٹ رہا ہے، اب وہاں پر پلاسٹک کی بجائے قدرتی اشیاء کے استعمال کا رجحان دوبارہ پنپ رہا ہے،جبکہ دوسری جانب ہم جیسے نام نہاد دانشور اور لکھاری ہیں کہ جو قدرتی اشیاء سے بنی چھبیاں، تڈیاں، پچھیاں اور مصلے استعمال میں لانے کی بجائے اسے ڈرائنگ رومز کی دیواروں پر بطور نمائش لٹکا چھوڑا ہے۔جہاں چکنی مٹی کے گھڑے،پیالے اورکٹویاں ہم نے شفاف شوکیسوں میں قید کر رکھی ہیں وہیں قریبی شوکیس میں دکھاوے کی خاطر سرائیکی کتابوں کا کلیکشن بھی موجود ہے۔سوال پوچھنے پر کہ کیا ہمیں کوئی کتاب پڑھنے کو مل سکتی ہے؟ جواب ملتا ہے، افسوس ہم آپ کو کتاب ضرور دیتے مگر بدقسمتی سے شوکیس کی چابی کہیں کھو گئی ہے۔۔
بہوں وڈے الا کول میڈی توبھاں۔۔ ہم جیسے پڑھے لکھے منافقوں نے اپنی نئی نسل سے کبھی بھولے میں بھی اپنی مادری زبان میں کوئی جملہ بولا ہو۔۔ہمارے علاقے کی ثقافتی نشانیاں اب صرف دکھاوے کی حد تک محدود ہیں اور ہم اپنے گھروں میں آنے والے مہمانوں کو شوکیسوں میں رکھی نوادرات دکھا کر انتہائی فخرسے کہتے پھرتے ہیں:”دیکھوہمارا کلچر فطرت سے کتنا قریب تھا اور ہمارا اس وقت کا سماج کتنا زور آور تھا۔آپ پلاسٹک کے مُوڑھے پر تشریف رکھئے اور ہماری نوادرات کا معائنہ کیجئے، ہم اوون سے گرم پیزا بنا کر پیپسی سمیت آپ کی خدمت میں ابھی پیش کرتے ہیں۔ڈنر میں ہم آپ کو پلاسٹک کے بنے چاولوں کی بریانی کھلائیں گے اور اگر آپ کل کے ناشتے تک رکنا چاہیں تو چائنہ کے پلاسٹک کے بنے انڈے تو ضرور کھا کر جائیے گا۔اوربتائیے کینسر کے خلاف جنگ میں آپ کی کیموتھراپی کیسی چل رہی ہے؟۔۔۔
معاشرتی، لسانی، سماجی،تہذیبی اور ثقافتی لحاظ سے ہم اندر سے کتنے مفلس، باہر سے کتنے مخلص ہیں؟ہمارے بھیتر کے اندر جو کچھ بھی ہے ہم اس سے بخوبی واقف ہیں، شاید اسی لئے شیشے کے سامنے کھڑا ہونے سے کتراتے ہیں۔۔ عبداللہ یزدانی نے ہم جیسے ترقی یافتہ اندھوں کیلئے کیا خوب کہا تھا (آپڑے ڈِھڈ توں کپڑا چا، لوک آدھن تیڈی دُنی کونیں)۔
اے وی پڑھو
سنہ 1925 میں ایک ملتانی عراق جا کر عشرہ محرم کا احوال دیتا ہے||حسنین جمال
چوکیل بانڈہ: فطرت کے دلفریب رنگوں کی جادونگری||اکمل خان
ڈیرہ کی گمشدہ نیلی کوٹھی !!||رمیض حبیب