دسمبر 19, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ارکان صوبائی اسمبلی کا اسمبلیوں کے اجلاس بلانے کا مطالبہ، فافن سروے

ارکان اسمبلی کی جانب سے دی جانے والی زیادہ تر تجاویز کا موضوع وبا کے معاشی اثرات سے نمٹنا اورٹیسٹ کی سہولیات میں بہتر ی لانا تھا۔

اسلام آباد :راکین صوبائی اسمبلی نے کرونا وائرس کی عالمگیر وبا کی وجہ سے پاکستان کو درپیش معاشرتی و معاشی مسائل سے نمٹنے کے لیے کی جانے والی حکومتی کاوشوں کو مزید بہتر اور سنجیدہ بنانے پر زور دیا ہے۔ فری اینڈ فئیر الیکشن نیٹ ورک (فافن) کی جانب سے کیے گئے ٹیلیفونک سروے میں شریک 219 اراکین صوبائی اسمبلی میں سے 59 فیصد کا کہنا تھا کہ وفاقی و صوبائی حکومتوں کو معیشت اور صحتِ عامہ کے حالیہ بحران سے نمٹنے کے لیے مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔ ان 59 فیصد میں سے 21 فیصد ارکان اسمبلی کا تعلق چاروں صوبوں کی حکمران جماعتوں جبکہ 38 فیصد کا تعلق اپوزیشن جماعتوں سے تھا۔ 17 اپریل سے 24 اپریل کے دوران کیے جانے والے اس سروے میں چار صوبائی اسمبلیوں کے 749 ممبران میں سے 219 (29 فیصد) ارکان کی رائے شامل ہے۔
صوبہ پنجاب کے تقریباً دو تہائی( 65 فیصد )اراکین اسمبلی ، بلوچستان کے 55 فیصد ، خیبر پختون خواکے 42 فیصد ، اور سندھ کے 41 فیصد ارکان نے اپنی متعلقہ صوبائی حکومتوں کی جانب سے کیے گئے اقدامات کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔ سروے میں شامل 37 فیصداراکین صوبائی اسمبلی نے وفاقی حکومت کے اب تک کیے جانے والے اقدامات کو کافی اور مؤثر قرار دیا ۔ تقریبا چار فیصدارکان نے وفاقی یا صوبائی حکومتوں کی کارکردگی پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
ارکان اسمبلی کی جانب سے دی جانے والی زیادہ تر تجاویز کا موضوع وبا کے معاشی اثرات سے نمٹنا اورٹیسٹ کی سہولیات میں بہتر ی لانا تھا۔ سروے میں شامل تقریباً ایک تہائی ارکان اسمبلی (73) نے حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن کی پالیسی پر اپنی رائے کا اظہار کیا۔ ان میں سے 62 فیصد (45) نے وبا کے خاتمے تک لاک ڈاؤن پر سختی سے عمل درآمد کی حمایت کی جبکہ 38 فیصد (28) ارکان نے لاک ڈاؤن کی پابندیاں ختم کرنے کی سفارش کی۔
سروے میں شریک ارکان اسمبلی میں سے تقریبا نصف کا کہنا تھا کہ ان کا کرونا وبا سے نمٹنے کے سلسلے میں اب تک اپنے ضلع کی انتظامیہ کے ساتھ کسی طرح کا رابطہ نہیں ہوا ہے۔
ارکان اسمبلی کے انتظامیہ اور حکومت کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات پر اعتماد میں اضافے کے لیے صوبائی اسمبلیوں کے اجلاس بلانا مفید ہوسکتا ہے۔ اس سلسلے میں وفاقی پارلیمان اور پنجاب اسمبلی کے اجلاس پہلے ہی طلب کیے جاچکے ہیں جبکہ بلوچستان ، خیبر پختونخوا اور سندھ میں بھی صوبائی حکومتوں کو صوبائی اسمبلیوں کے اجلاس بلانے پر غور کرنا چاہئیے۔ اس ضمن میں ارکان اسمبلی کی اکثریت نے بھی صوبائی اسمبلیوں کے اجلاس بلانے کے مطالبے کی حمایت کی ہے۔ سروے میں شامل خیبر پختونخوا اسمبلی کے 64 فیصد ارکان ، بلوچستان 60 فیصد ، پنجاب کے 59 فیصد اورسندھ کے 32 فیصد ارکان کا کہنا تھا کہ صوبائی اسمبلیوں کے فوری اجلاس بلائے جانے چاہئیں۔ اسمبلی اجلاس بلانے کے حامی ارکان میں سے 36 فیصد کا تعلق حزب اختلاف کی جماعتوں سے جبکہ 18 فیصد کا تعلق صوبائی حکمران جماعتوں سے تھا۔ تا ہم 31 فیصد ارکان نے یہ کہتے ہوئے اجلاس بلانے کی مخالفت کی کہ اس سے ارکان کی صحت کو خطرہ ہوسکتا ہے ۔ اسمبلی اجلاس کی مخالفت کرنے والے کئی اراکین کا یہ بھی کہنا تھا اجلاسوں کے دوران ہونے والی بے نتیجہ بحث کا کوئی فائدہ نہیں۔
اراکین اسمبلی کی صحت کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے پنجاب اسمبلی کے جاری اجلاس میں کئی اقدامات کئے گئے ہیں جس میں اراکین کی کم حاضری اور اور سیکرٹریٹ میں عام شہریوں کے داخلے پر پابندی شامل ہے۔ اراکین اسمبلی کے درمیان محفوظ فاصلے کو یقینی بنانے کے لئے اسمبلی ہال کی عوامی اور پریس گیلریوں کا استعمال کیا جارہا ہے۔ اجلاس کی کارروائی کو اسمبلی ویب سائٹ پر براہ راست نشر بھی کیا جارہا ہے۔ تاہم ، تکنیکی وجوہات کی بنا پر یہ نشریات بڑے پیمانے پر نہیں دیکھی جارہیں۔ فافن کی رائے میں اسمبلی سیکرٹریٹ چاہئیے کہ وہ ایوان کی کارروائی اور فیصلوں کو ذرائع ابلاغ اور عوام الناس تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا بشمول یوٹیوب چینل کا استعمال کریں۔
اس سروے میں شامل ارکان اسمبلی میں سے 101 کا تعلق پنجاب ، 53 کا سندھ اسمبلی ، 45 کا خیبر پختونخوا اور 20 کا بلوچستان سے تھا۔ سروے کے لئے 15 پارلیمانی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی سے رابطہ کیا گیا۔ سروے کے شرکا میں حکومتی اور حزب اختلاف کی جماعتوں کو برابر نمائندگی حاصل رہی۔ مزیدبرآں، انٹرویو دینے والوں میں تقریبا ایک چوتھائی (27 فیصد) خواتین ممبران شامل تھیں۔

About The Author