مئی 1, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ڈیرہ کی ریل کی کہانی ۔۔۔گلزار احمد

ٹانک سے آگے منزئی قلعے تک پہنچ جاتی ۔پھر ٹانک سے ڈیرہ ڈھائی فٹ کی پٹڑی بچھائی گئی اور اس کا مقصد بھی فوجیوں کی تیز نقل و حمل تھی۔ ا

جب ہم چھوٹے تھے تو ڈیرہ اسماعیل خان کے قریب دریاے کے کنارے ایک چھوٹی ریل کی پٹڑی موجود تھی۔ کہا جاتا تھا یہ پٹڑی پیزو تک بنائی گئی تھی اور اس پر ریلوے ویگن کے ذریعے پتھر لا کر حفاظتی بند بنایا گیا۔ پٹری کے ساتھ سندھ کنارہ بہت صاف نظر آتا ھے اور درختوں کے تنوں کو چونا لگا کر سجایا گیا ۔مگر اس پٹڑی کے متعلق صحیح معلومات نہیں مل سکیں کہ کہاں تک تھی اور کیوں تھی۔اب معلوم ہوا ہے کہ ڈیرہ میں ریلوے ورکشاپ بالو رام کے تھلے کے قریب تھی۔ غالبا” خیال یہی ہے کہ موجودہ مفتی محمود آئی ہسپتال کے پیچھے جنوبی مغربی سائڈ پر تھی جہاں پھر گودام ۔کچھ سرکاری کوارٹر اور دفاتر بن گیے ہیں اور یہ پٹڑی دریا کے ساتھ یہاں پہنچتی تھی۔


یہ انگریزوں نے 1916 اور 1923 کے درمیان بنائی تھی اور اس کا مقصد فوجیوں اور اسلحے کی نقل وحمل تھی۔ کالاباغ سے دریائے سندھ پر پل بنا کر پہلے لکی مروت کو جنکشن بنایا گیا۔ یہاں سے ایک لائین گمبیلا سے بنوں اور دوسری لائین لکی مروت سے پیزو ۔درکی۔ گل امام اور ٹانک پہنچ جاتی ۔

ٹانک سے آگے منزئی قلعے تک پہنچ جاتی ۔پھر ٹانک سے ڈیرہ ڈھائی فٹ کی پٹڑی بچھائی گئی اور اس کا مقصد بھی فوجیوں کی تیز نقل و حمل تھی۔ البتہ عام پبلک کے لیے بھی استعمال کی اجازت تھی۔ٹانک میں واپڈا کالونی کے پاس ریلوے ورکشاپ تھی اور مشن ہسپتال ٹانک کی جگہ ماڑی انڈس کا دفتر تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے زمانے ٹانک سے گرہ بلوچ فوجی بارکیں۔توپ خانہ ہسپتال۔ایک فوجی میس جنرل وارگن کے نام پر تھا۔ایک بازار بھی یہاں موجود تھا۔ڈیرہ سے خرگی تک تمام سڑک پر فوج ہی فوج تھی۔جنگ کے خاتمے پر فوج واپس ہندوستان گئی تو ڈیرہ ٹانک ریلوے لائین کچھ عرصہ چلی پھر اکھیڑ کر سامان ماڑی انڈس کے ذریعے انڈیا بھیج دیا گیا۔
دکھ کی بات یہ ہے کہ ٹانک اور بنوں والی پٹڑی 1995ء میں ہمارے سیاستدانوں نے اکھاڑ کے بھٹیوں میں جھونک دی ورنہ اس قسم کی پرانی ریل انڈیا میں سیاحت کے فروغ کے لیے اب بھی چلتی ہیں اور قومی ورثہ بھی بنایا گیا ہے۔


کمپلیمنٹس ۔۔ اس پوسٹ کا ریفرنس اور تصاویر ٹانک کے دوست ڈاکٹر کاشف عدنان کی گروپ وال۔ محفل ٹانک۔ سے اور غلام حسین دامانی کی کتاب سرزمین گل سے لی گی ہیں۔

%d bloggers like this: