مئی 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

دلی دل والوں کی (قسط16)۔۔۔ عباس سیال

شام کے سائے ڈھل چکے ، سورج غروب ہونے والا ہے، بہادر شاہ ہمایوں کے مقبرے سے بمعہ اہل و عیال باہر تشریف لارہے ہیں

مقبرہ ہمایوں: ہمایوں کا مقبرہ دیکھنے کی غرض سے ہم جونہی داخلی گیٹ کی جانب بڑھے ، قریبی کار پارکنگ میں بیٹھا ایک سپیرہ کوبرا سانپ کو پٹاری میں رکھے بین بجانے میں منہمک تھا۔ کوبرا سانپ پٹاری کے اندر اکڑی گردن اوپر اٹھائے وقفے وقفے سے اپنی زبان باہرنکالتا اور جھومنے لگ جاتا ۔ایک ساﺅتھ انڈین سیاح نے سپیرے سے پوچھا۔ دن بھر میں کتنا کما لیتے ہو؟سپیرے نے بین بند کی، سیاح کی جانب مسکرا کر دیکھا اور بولا۔ بابو جی یہ تو روج کا کام ہے، جالم پیٹ جو ساتھ لگاہے، بس بچوں کی روجی روٹی بن جاتی ہے۔واقعی بین اور سانپ ہی اُس کی کل کائنات تھی ۔سپیرے کو اُسی حالت میں چھوڑ کر ہم گیٹ کے اندر داخل ہو گئے ۔انکل وِجے کمار نے جھٹ سے دو مقامی ٹکٹیں خریدیں اور ایک شاندار باغ سے گزرتے ہوئے ہم ہمایوں کے مقبرے کے احاطے میں داخل ہو گئے ۔ ہمایوں کے مقبرے کو دور سے دیکھنے پر کسی شاندار مسجد کا گمان ہوتا ہے ۔ہم فواروں سے گزر کر ایک وسیع و عریض اونچے دوہرے چبوترے پر چڑھ گئے۔ ہندوستان بھرمیں مغلیہ فن تعمیر کا پہلا نادر نمونہ اور محرابی شکل کا ایک شاندار مقبرہ ہمارے سامنے تھا۔کہا جاتا ہے کہ اسی مقبرے کی طرز پر مغلوں نے باقی ماندہ عمارتیں بھی تعمیر کروائی تھیں یہاں تک کہ تاج محل کے خالق شاہجہان نے بھی مقبرہ ہمایوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے تاج محل کا ڈیزائن مرتب کیا تھا۔

بلندو بالا چبوترے پر کھڑا میں مقبرہ ہمایوں اور تاج محل میں پائی جانے والی مماثلت کا تقابلی جائزہ لینے لگا۔دونوں عمارتیں اونچے چبوتروں پر بنائی گئیں ، جن کے اطراف باغات، سامنے پانی کا تالاب اور عقبی جانب جمنا بہہ رہی ہے۔ ہمایوں کی ملکہ حمیدہ بانو نے اپنے شوہر کی یاد میں شاندار مقبرہ تعمیرکروایا ، خود بھی وہیں سوئی ،دوسری جانب شاہجہان نے ممتاز محل کے عشق میں ایک عجوبہ کھڑا کیا اور خود بھی وہیںسویا ۔میرے خیال میں دونوں عمارتوں میں فرق صرف میناروں کا ہے، شاہجہان نے تاج کے گرد شاندار مینار بنوائے جبکہ حمیدہ بانو کے ذہن میں شایداُس وقت میناروں کا آئیڈیا نہیں آیا ہو گا ،تبھی مقبرہ ہمایوں کے اردگرد کوئی مینار نہیں۔

چبوترے سے ہم مقبرے کے اندر داخل ہو گئے۔ اندر کا منظر انتہائی خوبصورت ، جگہ جگہ بنی محرابیں جن میں فریم کی صورت میں کندہ قرآنی آیات اور وسط میںسنگ مرمر سے تعمیر کردہ قبر کے نیچے ابدی نیند سوئے ہمایوں۔ظہیرالدین بابر کا بیٹا ہمایوں، جو اکبر بادشاہ کا باپ تھا اور جسے بچانے کیلئے اس کے باپ بابر نے اپنی جان کی قربانی دی تھی۔میں نے جیسے ہی دعا کی غرض سے ہاتھ اٹھائے،مقبرے کے اندر بنی جالیوں سے آتی ٹھنڈی ہوا نے حواس پر کچھ ایسی غنودگی طاری کی کہ مجھے پلک جھپکتے آگرہ کے شاہی دربار میں شہنشاہ بابر کے حضور کھڑا کر دیا۔ بابر اپنے تخت پر براجمان ہیں، اسی اثناءمیں دلی سے ایک قاصد افسوس ناک خبر لاتا ہے۔بادشاہ سلامت ! دلی میں سلطنت تیموریہ کے چشم و چراغ( شہزادہ ہما یوں) کی طبیعت ناساز ہے، بخار ہے کہ اترنے کا نام نہیں لے رہا۔یہ سنتے ہی بابر ماہم بیگم کو فوراً دلی روانہ کر دیتے ہیں۔ ماںعلیل شہزادے کو آگرہ لے آتی ہے ۔شہزادہ بخار کی شدت سے بے ہوش ہے ۔شاہی طبیب علاج معالجے کی کوششیں شروع کردیتے ہیں ۔نسخے پر نسخہ آزمایا جا رہا ہے،مگرکوئی دوا کار گر ثابت نہیں ہو رہی ۔ اطباء، حکماءتھک ہار کر جواب دے چکے ۔بادشاہ سلامت ! ہم نے تمام نسخے آزما لیے۔بخار اترنے کا نام نہیں لے رہا،اب وقت ِدعا آ پہنچاہے۔خاندان تیموریہ کے چشم و چراغ کو بچانے کی خاطر شہنشاہ بابر درباری مصروفیات ترک کرکے ہمایوں کے سرہانے بیٹھ جاتے ہیں۔ مایوس شہنشاہ کسی غیبی مدد کے طلبگار ہیں،اسی دوران کہیں سے کوئی اللہ کا ولی آنکلتا ہے اور کہتا ہے :ہمایوں کی جان چاہتے ہو تو اپنی کوئی عزیز ترین چیز قربان کردو ۔گہری سوچ میں مبتلا شہنشاہ خود سے ہمکلام ہے:”بابر تیرے پاس سب سے قیمتی چیز تمہاری اپنی جان ہے“۔ یہ سوچتے ہی نفلی روزے کی حالت میں بیٹھا بادشاہ کھڑے ہو کر بیمار شہزادے کے اردگرد چکر لگانا شروع کر دیتا ہے۔ لبوں پر صرف ایک دعا ہے ۔ ”اے زندگی اور موت بخشنے والے اگر جان کا بدلہ جان ہو سکتا ہے تو میں منت مانتا ہوں کہ میری جان لے کر ہمایوں کی زندگی بخش دے“ ۔دعا مستجاب ہوتی ہے ، شہنشاہ چکر لگا تے گر پڑتا ہے، بسترِ علالت پر سوئے شہزادے کی آنکھ کھل جاتی ہے۔بادشاہ بستر پر لگ جاتا اور شہزادہ ہمایوںدنوں دنوں میں تندرست ہونے لگتا ہے۔وہ بابر کہ جس کی مسیں پوری طرح نہ بھیگی تھیں کہ وہ فرغانہ کابادشاہ بنا، جس نے ہندوستان کا رخ کیا اور اپنے سے دس گنا بڑے لشکر کو شکست دی۔وہ بابرجو بپھرے جمنا کو تیر کر پار کیا کرتا تھا، جو اپنے بازوﺅں میں دو سپاہیوں کو جکڑ کر قلعے کی دیوار پر دوڑلگاتا تھا۔ ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کی بنیادیں رکھنے والا ظہیر الدین محمد بابر اپنے ولی عہدِ سلطنت کی زندگی بچانے کی خاطر اپنی موت مانگتا ہے۔ منت قبول ہوتی ہے اور زندگی کی سینتالیس بہاریں دیکھنے والا شہنشاہ جوانی میں ہی کوچ کرجاتاہے۔

ہمایوں اور ملکہ حمیدہ بانو کی قبروںپر دعائیں مانگنے کے بعد ہم باہر نکل رہے تھے کہ ایک گائیڈ چند گورے سیاحوں کی ٹولی کے ہمراہ اندر داخل ہوا۔میں حسبِ عادت سیاحوں کی ٹولی کا حصہ بن گیا۔گائیڈ نے سیاحوں کو مقبرے سے باہر چبوترے پر بنی جا بجا مغلیہ قبروں کے بارے میں بھی بتایا کہ یہ سب مغل خاندان کے متعد د بادشاہ ، شہزادے ، شہزادیاں اور درباریوں کی قبریں ہیںاور دور سے نظر آنے والا مقبرہ شیر شاہ سوری کے جرنیل عیسیٰ خان نیازی کا ہے۔گائیڈ نے چبوترے پر کھڑے ہو کر انگریز سیاحوں کو بتایا کہ مقبرہ ہمایوں کے وسطی کمرے میں آخری مغل تاجداربہادر شاہ ظفر نے پناہ لی تھی۔

یہ انگریزوں کے خلاف 1857 ءمیں لڑی گئی جنگ آزادی کا واقعہ ہے۔دیسی فوجیں ہندوستان کے طول و عرض سے سمٹ کر دِلی پہنچنے لگی تھیں اور مغلیہ فوج کے جرنیل بخت خان نے بادشاہ کو پیغام بھجوایا تھا کہ وہ لال قلعہ سے نکل کر ہمایوں کے مقبرے میں پہنچیں جہاں پر وہ اپنی سپاہ لے کر اُن سے ملتے ہیں اور انگریز کے خلاف زندگی موت کی آخری جنگ لڑنے کیلئے اکھٹے ہوتے ہیں۔اسی دوران انگریز فوج دلی پر چڑھ دوڑتی ہے، جب شہر کے بچنے کی کوئی امید باقی نہیں رہتی تو بہادرشاہ ظفر انگریز فوج سے نظریں بچاتے اپنے مصاحبین اور اہل و عیال سمیت ہمایوں کے مقبرے میں پہنچ جاتے ہیں۔

غدارانِ ملت رجب علی اور مرزا الٰہی بخش ایک دوسرے سے مسلسل رابطے میں ہیں۔رجب علی ہڈسن کو بہادر شاہ کا پتہ بتادیتا ہے اور ساتھ ہی مرزا کو اطلاعی پیغام بھجواتا ہے کہ شہنشاہ کو مقبرے کے اندر روکے رکھیو تاآنکہ ہڈسن پہنچ جائے۔ جنرل بخت بادشاہ سے مقبرے کے اندر ملاقات کرتا ہے اور اُسے بتاتا ہے کہ انگریزوں نے دِلی کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے اور لال قلعہ دلی پر بھی اُن کا قبضہ ہو چکا ہے، بہتر ہوگا کہ آپ میرے ساتھ چلیے ،ہم کسی اور مقام کو اپنا گڑھ بنا کر انگریزوں کے خلاف فیصلہ کن جنگ لڑیں گے ۔بادشاہ اس کے ساتھ چلنے کیلئے رضامند ہوجاتے ہیںمگر انگریزکا نمک خوار، بادشاہ کا سمدھی مرزا الٰہی بخش شہنشاہ کو مشورہ دیتا ہے کہ بخت خان کے ساتھ مل کر انگریزوں سے لڑنے کا کوئی فائدہ نہیں۔جنرل بخت آپ کی آڑ میںخود بادشاہ بننا چاہتاہے،لہٰذا بلاوجہ خون خرابے سے بہتر ہے کہ آپ اپنے خاندان کی جان بخشی کروا لیجئے کیونکہ کمپنی سرکار کا آپ سے کوئی لینا دینا نہیں۔انگریز آپ کی پنشن جاری رکھے گا اور آپ کی جو نذر بند کر دی گئی ہے اُسے بھی کھول دیاجائے گا ۔جنرل بخت بادشاہ کو آخری بارسمجھاتا ہے کہ انگریز اور اُس کے نمک خواروں کا اعتبار مت کیجئے،مگربادشاہ الٰہی بخش کی باتوں میں آجاتا ہے اور جنرل بخت کے ساتھ چلنے سے انکار کر دیتا ہے۔ جنرل بخت بادشاہ کی بزدلی سے مایوس ہوکر اُسے آخری سلام کرتا ہے اور اپنے ساتھ لائی بارہ ہزار فوج کو لے کر اودھ کی جانب نکل پڑتا ہے۔ہڈسن مقبرے کے مغربی دروازے پر اپنے فوج دستے کے ساتھ شہنشاہ کا محاصرہ کئے کھڑا ہے۔ ایک سپاہی کو مقبرے کے اندر بھیجا جاتا ہے کہ وہ بادشاہ سلامت کو باہر لے آئیں۔بہادر شاہ پیغام سنتے ہی برابر کھڑے الٰہی بخش کی جانب گھورتے ہوئے ناگواری سے پو چھتے ہیں۔یہ کیا ماجرا ہے؟ ہمیں گرفتار کرنے کا حکم ؟ تم تو کہتے تھے ایسا نہیں ہوگا؟ تم نے مجھے بخت خان کے ساتھ جانے سے بھی روکے رکھا۔ تم نے کہا تھا کہ انگریز کو مجھ سے کوئی سروکار نہیں وہ تو صرف باغیوں کا دشمن ہے، مجھ سے کوئی لڑائی نہیں، مگر یہ سب کیا ہے؟ ہمایوں کے مقبرے کے اندر بوڑھے بادشاہ کی بازگشت سنائی دیتی ہے” کوئی ہے جو بخت خان کو ہمارے حضور بلالا ئے“۔جواب ملتا ہے۔عالی جاہ اب کوئی فائدہ نہیں، بخت کب کادور نکل گیا ،اب حضور کے پاس گرفتاری دینے کے سو ا دوسرا راستہ نہیں بچا ۔ ہڈسن کے ساتھ شرائط طے پاتی ہیں جن کے عوض بادشاہ اور ا س کے لواحقین کی جان بخشی، پنشن کا جاری رہنا اور نذر کا کُھلنا شامل ہیں ۔ ہڈسن ایک منصوبے کے تحت بادشاہ کے مطالبات مان لیتا ہے۔

شام کے سائے ڈھل چکے ، سورج غروب ہونے والا ہے، بہادر شاہ ہمایوں کے مقبرے سے بمعہ اہل و عیال باہر تشریف لارہے ہیں، میں بھی بوڑھے شہنشاہ کے ہمراہ مقبرہ ہمایوں سے باہر نکل کر چبوترے پر کھڑا ہو جاتا ہوں ۔ میرے سامنے تین سورج ایک ساتھ اکھٹے ڈوب رہے ہیں۔ایک جمنا پار اٹھتی لپٹوں کی آغوش میں جنرل بخت ، دوسرا اُفق کے پار ڈوبتا نارنجی آگ کاگولہ اور تیسرا خاموشی سے سر جھکائے مقبرہ ہمایوں کی سیڑھیاں اُترتا تیموریہ خاندان کی تقدیر کا سورج۔

مقبرے کے بلند چبوترے پر کھڑا میں دیکھ رہا ہوں کہ بادشاہ کو ہوادار میں، شہزادوں کو بگھیوں میں سوار کروایا جا رہا ہے۔ نواب نور محل سمیت بادشاہ کی لاڈلی بیٹی کلثوم زمانی بیگم علیحدہ بگی میںبیٹھ چکی ہیں اور انگریز فوج ہڈسن کی کمان میں تمام شاہی گرفتار شدگان کو لال قلعہ کی جانب لے کر چل پڑی ہے ۔الٰہی بخش اوررجب علی پر نظر پڑتے ہی میں جلدی سے چبوترے کی سیڑھیاں اتر کر دونوں کے قریب جا پہنچتا ہوں ، جہاں الٰہی بخش رجب علی سے پوچھ رہا ہے ۔ کمپنی بہادر کا آگے کیا ارادہ ہے ؟ رجب علی چہرے پر شیطانی مسکراہٹ بکھیرے جواب دیتا ہے ۔ہڈسن کے عزائم سے لگ رہا ہے کہدِلی کے خونی گیٹ کے قریب پہنچتے ہی شہزادوں کو بگھیوں سے اتار لیا جائے گا، شہنشاہ کو قلعے میں قید کر لیا جائے گا اور شہزادوں کو پھانسی پر لٹکا کر ان کی کٹی گردنیں چاندی کے تھالوں میں سجا کر بادشاہ کے حضور پیش کی جائیں گی۔کمپنی بہادر کا فیصلہ اٹل ہے مگر تم گھبراﺅ نہیں، ہڈسن تمہارے لئے خاص گزارشات اپنی ملکہ کو بھجوائے گاتا کہ ہندوستانی باغیوں سے چھینی گئی جائیدادیں اور جاگیریں ہمارے خا ندانوں کو تفویض کر دی جائیں ۔ شاہی قافلے کے لال قلعہ پہنچنے سے قبل مغلیہ سلطنت کے بخت کا سورج جنرل بخت سمیت دلی میں کب کا ڈوب چکا تھا اور ہم بھی تھکے ہارے قدموں کے ساتھ مقبرہ ہمایوں سے باہر نکل آئے تھے ۔

یہ بھی پڑھیے: دلی دل والوں کی (قسط15)۔۔۔ عباس سیال

جاری ہے ۔۔۔۔


مصنف کا تعارف

نام:  غلام عباس سیال

 تاریخ پیدائش:  دس جنوری 1973
 مقام پیدائش:  ڈیرہ اسماعیل خان
 تعلیم:  ماسٹر کمپیوٹر سائنسز، گومل یونیو رسٹی، ڈیرہ اسماعیل خان 1997
ٍ  ماسٹر انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ منیجمنیٹ، سڈنی یونیورسٹی، آسٹریلیا2009
 ڈپلومہ اِن جرنلزم، آسٹریلین کالج آف جرنلزم2013
 عرصہ 2005ء سے تاحال آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں مقیم۔
کتابیں
 ۱۔ خوشبو کا سفر    (سفرنامہ حجا ز)  دوبئی سے حجاز مقدس کا بائی روڈ سفر۔  اشاعت کا سال 2007۔
پبلشر: ق پبلشرز، اسلام آباد۔
۲۔  ڈیرہ مُکھ سرائیکستان (موضوع:  سرائیکی صوبے کے حوالے سے ڈیرہ اسماعیل خان شہر کی سیاسی، سماجی اور ثقافتی اہمیت)۔ اشاعت کا سال 2008،   پبلشر: جھوک پبلشرز، ملتان۔
 ۳۔  گُلی کملی کے دیس میں (موضوع: صوبہ سرحد کے پرامن شہر ڈیرہ اسماعیل خان شہر میں اَسی، نوے کی دھائی کا آنکھوں دیکھا حال)،سن اشاعت  2010: پبلشر: ق پبلشر، اسلام آباد
۴۔  کافر کوٹ سے قلعہ ڈیراول تک  (سفرنامہ)  ڈیرہ اسماعیل خان کے تاریخی مقام کافر کوٹ سے بھکر، لیہ، مظفر گڑھ، ملتان، بہاولپور اور چولستان کے قلعہ ڈیراول تک کا سفر۔  سن اشاعت  2011۔ پبلشر:  جھوک پبلشرز، ملتان
۵۔  ذائقے فرنٹئیر کے (تقسیم ہند سے قبل صوبہ سرحد کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان کے کھانوں پر ہندی میں لکھی کتاب کا اردو ترجمہ) ۔  یہ کتاب مارکنگ پبلشرز، کراچی  سے بیک وقت ہندی، اردو میں شائع ہوئی تھی۔ دائیں طرف اردو، بائیں طرف ہندی تھی اور دراصل اس کتاب کی مصنفہ پُشپا بگائی تھیں، جن کا بچپن ڈیرہ اسماعیل خان میں گزرا تھا اور وہ تقسیم کے بعد دہلی ہجرت کر گئی تھیں۔ انہوں نے ہندی زبان میں ڈیرہ اسماعیل خان کے لذیذ کھانوں پر کتاب لکھی تھی اور ان کی موت کے بعد اس کے بیٹے اتل بگائی  جو  بنکاک میں  مقیم ہیں اور یو این او میں  جاب کرتے ہیں۔  انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ اپنی والدہ کی کتاب کو اردو، ہندی دونوں زبانوں میں چھپوانا چاہتے ہیں۔ ہندی نسخہ انہوں نے مجھے بھیجا تھا۔ سڈنی میں ایک بزرگ  ہندو  شری لچھمن ٹُھکرال نے ہندی سے اردو ترجمعہ کرنے میں پوری مدد کی تھی اور پھر  اتل بگائی نے کتاب کو  کراچی سے چھپوایا تھا۔کتاب کو چین کے انٹرنیشنل بُک فئیر میں  امن کے مشترکہ ایوارڈ (پاکستان و ہندوستان)  سے نوازا گیا تھا۔ سال اشاعت 2013،  ناشر:  مارکنگز پبلشنگ کراچی
۶۔  جو ہم پہ گزری۔   (موضوع:  پاکستان ٹیلی ویژن کی نامور فنکارہ عظمیٰ گیلانی کی زندگی اور ان کے کیرئیر پر لکھی کتاب، جسے اباسین آرٹ کونسل پشاورکے 2013-2014  کے ادبی ایوارڈ(تحقیق و تالیف کے جسٹس کیانی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا)۔سن اشاعت: جنوری 2014۔ پبلشر: ق پبلکیشنز، اسلام آباد
۷۔  برٹش عہد 1893 ء  میں کمشنر ڈیرہ اسماعیل خان مسٹر ٹکر کے لکھے ہوئے گزیٹئیر ڈیرہ اسماعیل خان کا اردو ترجمعہ۔
اشاعت  2015  ۔   ناشر:  ق پبلکیشنز، اسلام آباد
۸۔  انگریز محقق  ٹی ڈبلیو ایچ ٹولبوٹ کی لکھی کتاب  دا  ڈسٹرکٹ  آف ڈیرہ اسماعیل خان  ٹرانس انڈس 1871،   کا اردو ترجمعہ۔  اشاعت  2016۔   پبلشر: سپتا سندھو  پبلکیشنز، ڈیرہ اسماعیل خان
۹۔  دِلی دل والوں کی (سفرنامہ دِلی)   سڈنی سے نئی دہلی تک کا سفر۔  اشاعت  اگست2018۔
پبلشر:  ق  پبلکیشنز، اسلام آباد

%d bloggers like this: