اپریل 27, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

قلم کے دھنی (گزشتہ سے پیوستہ)۔۔۔ احمد علی کورار

گزشتہ مضمون میں چند معروف صاحبان قلم کا تذکرہ کیاگیا تھا۔اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے آج چند ایک ارباب قلم کا ذکر کرتے ہیں۔

گزشتہ مضمون میں چند معروف صاحبان قلم کا تذکرہ کیاگیا تھا۔اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے آج چند ایک ارباب قلم کا ذکر کرتے ہیں۔

امر جلیل پائے کے کالم نویس ہیں ان کا شمار بھی چند معروف گنے چنے صاحبان  قلم میں ہوتا ہے جن کی تحریریں  قارئین کو دلدہ بنا دیتے ہیں  ان کا انداز تحریر و طرز اسلوب بلا کا ہے پڑھتے وقت ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امر جلیل صاحب سامنے بیٹھے خود گویا ہوں۔

کالم کو  بھی اس طرز سے لکھتے ہیں گویا افسانہ ہو۔ ان کے کالمز میں افسانوی چھاپ برملا نظر آتی ہے فقروں کی بے مثل بناوٹ  کاٹ دار لفظوں کا انتخاب مزاح کا تڑکا تحریروں کو جاندار بنا دیتا ہیں۔

ان کا موضوع ہمیشہ عام آدمی رہا ہے وہ معاشرے کے مزاج حالات و واقعات  کی قلم کشی کرتے ہیں ۔ امر جلیل صاحب کا طرز اسلوب جاندار ہے شاندار لکھتے ہیں ان کے کالمز روزنامہ جنگ میں شائع ہوتے ہیں۔

خواتین کے کالمز بہت کم پڑھنے کو ملتے ہیں لیکن جن کے پڑھنے کو ملتے ہیں کمال ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی کا بے مثال طرز اسلوب  ہے بہت ساری چیزیں ایک ہی تحریر میں سمائی ہوتی ہیں لکھنے کا انداز اتنا خوبصورت ہے قاری پڑھتا ہی چلا جاتا ہے پتہ ہی نہیں چلتا کہ کالم اختتام کو پہنچتا ہے۔سماجی موضوعات پہ لکھنے کا شغف رکھتی ہیں ۔ خاص طور پر ان کے موضوعات کا محور و مرکز عورت ہوتا ہے وہ عورت جو معاشرے کی بر بریت کا شکار ہو وہ عورت جو رسم و رواج کی بلی چڑھائی گئی ہو وہ عورت جو کم۔عمری میں بیاہی گئی ہو وہ عورت جو ساس کے ہاتھوں جلائی گئی ہو۔ بسا اوقات زندگی کے ذاتی تجربات کو اس طرز سے بیان کرتی ہیں ایسا لگتا ہے کہ ہم اپنی ہی آب بیتیاں پڑھ رہے ہوں۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی کے مضامین ڈیجیٹل سائیٹ "ہم سب ” میں شائع ہوتے ہیں۔

عرفان جاوید نوجوان ادیب ہیں میں ذاتی طور پر ان کی طرز تحریر کا بڑا مداح ہوں فقروں کے تال میل کا جوہر اس  سے بہتر کون جانتا ہے۔ادب پہ گہری نظر رکھتے ہیں ان کے بے شمار سلسلے ہفتہ وار جنگ سنڈے میگزین کی زینت بن چکے ہیں ۔

ان کے طرز اسلوب میں ایسا جادو چھایا ہوا ہے کہ اسے پڑھتے ہوئے آپ دنیا جہاں سے بے خبر ہو جاتے ہیں نظر مضمون پہ ٹکی رہتی ہیں ہلنے کا نام نہیں لیتی۔دماغ میں فقروں کا تال میل چلتا ہے سکون سا محسوس ہوتا ہے ان کے اتنے ضخیم سلسلے پڑھنے کے بعد دل نہیں بھرتا۔ مزید پڑھنے کی خواہش باقی رہ جاتی ہے۔

آج کا نوجوان جو لکھنے سے شغف رکھتا ہو اسے عرفان جاوید کو پڑھنا چاہیے جاندار لکھاری ہیں لکھنے کے فن کے دھنی ہیں۔

صا حبان قلم کی فہرست طویل ہے وقت متناہی ہے تحریر کے محدود احاطے میں  چند معروف صاحبان قلم کا ذکر کیا گیا۔

لکھنے کا ہنر اتنا سہل نہیں  ایک جہد مسلسل کی ضرورت ہوتی ہے صاحبان قلم  ریاضت کرتے  ہیں وقت کھپانا پڑتا ہے علم کے دریا میں  ناو کی رفتار کو تیز کرنا پڑتا ہے تب جا کے منزل ملتی ہے مسلسل  غورو فکر کے نتیجے میں تب جا کے گیان ملتا ہے۔

پھر  ایسے لوگوں پہ قلم ناز کرتا ہے وہی لوگ "قلم کے دھنی "کہلاتے ہیں۔

%d bloggers like this: