نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اونٹ کی زبان اور لومڑی کا انتظار۔۔۔ رؤف کلاسرا

سیاستدانوں کی ایک خوبی ہوتی ہے کہ یہ موقع کی تلاش میں رہتے ہیں اور اس سے بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ صبر کرنا جانتے ہیں۔

ہوسکتا ہے دنیا اس وقت کورونا وائرس کے نتیجے میں ہونے والی تباہیوں‘ انسانی جانوں کے نقصان یا پھر کروڑوں لوگوں کے بیروزگار ہونے اور عالمی معیشت پر مرتب ہونے والے اثرات سے پریشان ہو‘ یا پھر لندن سے نیویارک تک میئر پریشان ہوں کہ دوبارہ نارمل زندگی کی طرف کیسے لوٹا جا سکتا ہے‘ بچوں کی تعلیم کا نیا سسٹم کیا ہوگا؟ کالجز یا یونیورسٹیز کیسے کھلیں گے‘ ہوائی سفر دوبارہ کیسے شروع کیا جاسکتا ہے؟ محفوظ طریقے سے بازار کیسے کھولے جا سکتے ہیں؟ بیروزگاروں کو دوبارہ روزگار پر کیسے لگائیں گے؟ کھربوں ڈالرز کے نقصانات کیسے پورے ہوں گے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس وائرس کی ویکسین کب تیار ہوگی؟لیکن پاکستانی حکمرانوں اور سیاسی اشرافیہ کی ترجیحات ملاحظہ فرمائیں کہ یہ لوگ اس بحران سے بھی ذاتی اور سیاسی مفادات اٹھانے کے چکر میں ہیں۔ حکومت انکاری ہے‘ لیکن اندر کی بات یہی ہے کہ حکومت اپوزیشن پارٹیوں سے رابطے میں ہے کہ اٹھارہویں ترمیم ختم کی جائے اور بتائیں وہ اس کی کیا قیمت لیں گے؟

کسی سمجھدار کا قول ہے کہ بحران جہاں بہت سے لوگوں کے لیے ایک بڑی مصیبت بن کر آتا ہے‘ وہیں بعض سمجھدار لوگوں کے لیے ایک بہترین موقع بھی بن جاتا ہے کہ وہ ذاتی مفادات اٹھا لیں یا اس بحران سے نمٹ کر اپنا قد بڑا کر لیں۔ ابھی دیکھ لیں کہ کورونا پورے ملک کے لیے بہت بڑی دہشت ہے لیکن حکمران جماعت اندر کھاتے اپوزیشن والوں کے ساتھ یہ طے کرنے میں لگی ہوئی ہے کہ اٹھارہویں ترمیم پر ان کا تعاون چاہیے اور اس کے بدلے وہ کیا چاہتے ہیں؟ شیخ رشید اور شہباز شریف کے ٹی وی انٹرویوز آپ سن لیں تو اندازہ ہو جائے گا کہ اس عالمی بحران کے نتیجے میں جہاں پورا جہاں پریشان ہے وہاں ہماری ترجیحات کیا ہیں؟

حکومت کے ایک اہم وزیر کا نام لیا جا رہا ہے کہ وہ شریفوں اور زرداریوں سے رابطے کر رہے ہیں۔ اس وقت اس سیاسی اشرافیہ کی ترجیح کورونا وائرس نہیں‘ بلکہ ترمیم ہے جو اِن کے خیال میں چھ ماہ مزید انتظار نہیں کر سکتی۔ کورونا انتظار کر سکتا ہے‘ لیکن ترمیم ابھی ہونا ضروری ہے۔سب سے بڑا لطیفہ یہ ہے کہ وزیر اعظم صاحب نے طنز فرمایا ہے کہ پاکستانی اشرافیہ نے بڑا ظلم کیا اور لاک ڈائون کر دیاکہ غریبوں کی وجہ سے وہ وائرس کا شکار نہ ہو جائیں۔ حیران ہوں کہ وہ کون سی اشرافیہ ہے جس نے وزیر اعظم کے حکم کے برعکس ملک پر لاک ڈائون مسلط کر دیا؟ یہ بات کوئی اپوزیشن لیڈر کرے تو سمجھ میں آتا ہے‘ لیکن جب وزیراعظم خود سے اوپر کسی اشرافیہ کا وجود مانتا ہو جو اِن کے احکامات کی پروا نہیں کرتی تو پھر آپ کو حیرانی نہیں ہونی چاہیے کہ حالات کہاں جا پہنچے ہیں۔ ویسے اگر وزیراعظم کی مرضی کے بغیر لاک ڈائون کر دیا جاتا ہے تو ان کو پھر کیا کرنا چاہیے؟ اگر عمران خان صاحب اپوزیشن میں ہوتے تو یقین کریں وہ فوراً ایسے وزیراعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ کرتے‘ لیکن کیا کریں وہ اس وقت یہ مطالبہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں‘ کیونکہ وہ خود وزیر اعظم ہیں۔

سیاستدانوں کی ایک خوبی ہوتی ہے کہ یہ موقع کی تلاش میں رہتے ہیں اور اس سے بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ صبر کرنا جانتے ہیں۔ اس دفعہ تو شریف اور زرداری زیادہ خوش نصیب نکلے ہیں کہ انہیں زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا اور چھ ماہ کے اندر اندر انہیں ایک اور بڑا موقع مل گیا ہے اپنے خلاف مقدمات ختم کروانے کا۔ زرداری صاحب ووٹ دے دیں تو جعلی اکائونٹس کے چالیس ارب روپے معاف۔ شریف ووٹ دے دیں تو دنیا کے پانچ براعظموں میں پھیلی تمام جائیدادیں ان کی ہوئیں۔ وہی بات کہ رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی۔

کیا فرق پڑتا ہے‘ پھر دائو لگے گا تو پھر یہی ترامیم کرا لیں گے۔ پہلے مقدمات تو ختم کرائیں۔ جو اربوں کے سکینڈلز ہیں انہیں سیٹل کریں۔ کل کو یہ سب کچھ رات کے اندھیرے میں سیٹل کرنے کے بعد میڈیا کو آ کر بتائیں گے کہ دیکھا ہمارے خلاف کچھ ثابت نہیں ہوا۔ پوری قوم بھی انہی سیاستدانوں کی ہم نوا ہو جائے گی کہ دیکھا میڈیا جھوٹ بولتا ہے۔ یہ کوئی نہیں دیکھے گا کہ کتنی خفیہ ملاقاتوں اور لین دین کے بعد یہ سب کچھ طے ہوا ہے۔ سب کچھ عوام کی جیب سے لوٹا اور وہی عوام ان کی بے گناہی کے نعرے لگائیں گے اور الٹا میڈیا پر پل پڑیں گے۔اب آپ کو اندازہ ہو جانا چاہیے کہ ان حکمرانوں یا سیاستدانوں پر قائم کرپشن کے مقدمات میں انہیں سزا کیوں نہیں ہوتی اور مقدمات لٹکتے کیوں رہتے ہیں۔ یہ مقدمات بارگین چپ کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ جو ذرا پر پرزے نکالنے کی کوشش کرتا ہے‘ مقدمہ تیار۔ اگر ان کی مرضی کا رقص کرنے پر تیار ہو جائے تو فوراً ڈیل تیار۔

اور وہی لوگ اندر کھاتے ڈیل کرنے کے بعد وکٹری نشان بنا کر بڑے فخر سے اگلے روز ٹی وی چینلز پر منہ چڑا رہے ہوتے ہیں کہ کیا کر لیا؟ کیا ثابت ہوا؟ انہیں پتہ ہے ‘جنہوں نے ثابت کرنا تھا وہی تو ڈیل کر کے جیل سے نکال کر باہر لائے ہیں۔

اگر سیاستدانوں نے حکمرانی کی ذمہ داری کو دل سے سمجھا ہوتا اور اس کے بوجھ کی نوعیت کو جانا ہوتا تو آج ان کے بازو مروڑ کر ان سے اپنی مرضی کی ترامیم نہ کرائی جا رہی ہوتیں۔ یہ اٹھارہویں ترمیم کے فوائد صوبوں میں نچلے لیول پر لے جا کر عام لوگوں کی زندگیاں بدلتے تو آج وہی عوام اس ترمیم کی محافظ بن جاتے‘ لیکن اس ترمیم کو مال بنانے اور ذاتی بادشاہت کے لیے استعمال کیا گیا‘ اسی لیے جب اٹھارہویں ترمیم پر پرانا لین دین شروع ہو رہا ہے تو ایک بھی بندے کو دلچسپی نہیں اور نہ ہی پتہ ہے کہ یہ اٹھارہویں ترمیم کس بلا کا نام ہے اور اس پر یہ ڈرامہ کیوں رچایا جا رہا ہے ‘کیونکہ لوگوں تک اس ترمیم کے اثرات ان دس برسوں میں نہیں پہنچے۔

بہرحال ہر کسی کو اس کھیل میں کچھ نہ کچھ درکار ہے اور سب اپنے ذاتی مفادات کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں۔ جو کل تک اٹھارہویں ترمیم کے حق میں تھے آج وہ اقتدار میں پہنچ کر اس ترمیم کو ختم کرنے کے لیے خفیہ ڈیل پر کام کر رہے ہیں کیونکہ حکمران جماعت سے اوپر جو اشرافیہ بیٹھی ہے‘ جو بقول عمران خان صاحب ان کی مرضی کے بغیر لاک ڈائون لگا دیتی ہے‘ وہ یہی چاہتی ہے‘ کیونکہ اسے لگتا ہے اس ترمیم سے فیڈریشن کمزور ہوئی ہے یا یوں کہہ لیں کہ اس طاقتور اشرافیہ کا اپنا کنٹرول کمزور ہوا ہے۔ وہ دس سال بعد اپنا کنٹرول واپس چاہتے ہیں‘ چاہے پیار سے کچھ دے دلا کر یا باوز مروڑ کر۔

اقتدار کے اونٹ میں سے ہر ایک کو پائو بھر گوشت چاہیے۔ اب پورا اونٹ ذبح ہو یا آدھا‘ انہیں اس سے فرق نہیں پڑتا۔ سیاسی پارٹیاں بھی لومڑی کی طرح اونٹ کی لٹکتی لمبی زبان کے نیچے گرنے کا انتظار کر رہی ہیں تاکہ وہ اسے چبا سکیں۔ اب آپ کہیں گے‘ اونٹ کی زبان تو نہیں گرے گی۔ میرا خیال ہے آپ شاید روایتی اونٹ اور لومڑی کی کہانی پڑھے بیٹھے ہیں۔ پاکستان میں اس اونٹ کی زبان واقعی گرتی ہے اور لومڑیاں اس زبان پر لپک پڑتی ہیں۔ پاکستان میں جہاں جمہوریت سے لے کر حکمرانی‘ حکمران‘ سیاستدان اور اشرافیہ سب کچھ نرالا ہے۔ یہاں کے اونٹ‘ ان کی لٹکتی زبانیں اور لومڑیاں بھی نرالی ہیں۔ جو کام قصہ کہانیوں میں صدیوں سے نہیں ہوتا وہ پاکستان میں ہوتا ہے اور اصل میں ہی ہوتا ہے۔ آپ دیکھتے جائیں۔ لین دین کا کھیل شروع ہو چکا‘ اپنی اپنی قسمت کی بات ہے کہ چھ ماہ کے اندر ان سیاسی لومڑیوں کو ایک دفعہ پھر ایک ترمیمی اونٹ مل گیا ہے اور اس کی زبان بھی ایک دفعہ پھر لٹکی ہوئی ہے۔

About The Author