مئی 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پنجاب میں پیپلزپارٹی اور شہباز شریف۔۔۔ قانون فہم

شہباز شریف نے اپنے پاؤں مضبوط کرنے اور آصف علی زرداری کے صبر کو جانچنے کے بعد قاف لیگ کے 28 ارکان اسمبلی کو ڈیفیکٹ کروایا

شہباز شریف نے پنجاب میں پی پی پی کے ارکان اسمبلی کی زندگی 2008 سے 2013 تک اجیرن کردی تھی۔ وہ زرداری کو شکایت کرتے تھے تو وہ کہتا تھا کہ صبر کرو ۔ سیاستدان عمومی طور پر دھڑے بندی کی سیاست کرتے ہیں ہیں۔ اگر اپنا ہی دھڑا انہیں کمزور کرنے لگے تو وہ پارٹی چھوڑ دیتے ہیں۔
سب لوگ بے نظیر بھٹو یا آصف علی زرداری کی طرح کا صبر کا مادہ لے کر پیدا نہیں ہوتے۔
2008 میں 22 آزاد ارکان اسمبلی آصف علی زرداری نے باقاعدہ حکم دے کر مسلم لیگ نون میں شامل کروائے تھے۔
مسلم لیگ نون کے 116 ایم پی اے تھے۔پی پی پی کے 106 ۔ اور
ق لیگ کے 87 ۔
پنجاب میں شہباز شریف کو اکثریت کے حصول کے لیے پی پی پی نے 106 اراکین غیر مشروط فراہم کیے تھے ۔ابتدا میں مسلم لیگ ن نے پی پی پی کو چھ صوبائی وزارتیں دی تھیں ۔ چھ صوبائی وزراء جب بھی آصف علی زرداری سے ملاقات کرتے تو وہ گلہ کرتے تھے کہ شہباز شریف انہیں کام نہیں کرنے دیتا۔
آصف علی زرداری نے پی پی پی کے وزرا سے کہا کہ وہ ذرا دیکھیں کہ کیا شہبازشریف اپنے وزراء کے ساتھ بھی اسی طرح کا معاملہ کرتا ہے یا صرف آپ کے ساتھ۔ جب یہ پایا گیا کہ سب کے ساتھ ایسا ہی ہے تو پی پی پی کے وزراء کو خاموش ہونا پڑا۔
شہباز شریف نے اپنے پاؤں مضبوط کرنے اور آصف علی زرداری کے صبر کو جانچنے کے بعد قاف لیگ کے 28 ارکان اسمبلی کو ڈیفیکٹ کروایا اور نون لیگ میں شامل کرلیا۔ اور پی پی پی کے وزراء کو برطرف کر دیا ۔اس کے بعد پی پی پی کے ارکان اسمبلی کو تھانوں میں ذلیل کروانا شروع کر دیا۔ جس طرح وفاق میں قاف لیگ سے اتحاد کیا تھا۔ آصف علی زرداری چاہتا تو مسلم لیگ نون کو الٹ دیتا۔
مگر وسیع تر جمہوریت کی خاطر آصف علی زرداری نے کڑوے گھونٹ پی کر وقت کو شریف خاندان کو سبق سکھانے کا موقع دیا۔
جس وقت شہباز شریف اور ایسٹیبلشمنٹ ق لیگ اور پی پی پی کے ارکان اسمبلی کا ہاکا لگا رہے تھے ۔ اس وقت کچھ ق لیگ کے ارکان نے پی پی پی میں شمولیت کا فیصلہ کیا تھا۔ چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی نے آصف علی زرداری سے شکایت کی تو آصف علی زرداری نے پالیسی بنا دی کہ ق لیگ کا کوئی رکن اسمبلی پی پی پی میں شامل نہیں کیا جائے گا۔
اس کے بعد جن لوگوں نے اڑنا تھا وہ اڑ گئے اور مسلم لیگ نواز میں چلے گئے۔ اس لیے اگر آج بھی کوئی کہتا ہے کہ چوہدری برادران مسلم لیگ نواز کے ساتھ تعاون کر سکتے ہیں تو وہ غلط کہتا ہے۔
اس وقت ایک ہی صورت باقی بچی ہے کہ مسلم لیگ نون ق لیگ میں ضم ہو جائے یہ سوچ ہی غلط ہوگی کہ چوہدری برادران میاں نواز شریف یا شہباز شریف کے ماتحت کام کرنے کا فیصلہ کریں۔
اگر چوہدری برادران کو کوئی مجبوری آئی اور انہیں انتخاب کرنا پڑا تو ان کا پہلا انتخاب آصف علی زرداری اسفندیارولی اور فضل الرحمن کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا۔

%d bloggers like this: