مئی 19, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کورونا وائرس: یکساں پالیسی کیلئے وفاق کو ایک ہفتے کی مہلت

چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ صوبائی حکومتیں پیسے مانگ رہی ہیں، اگر وفاق کے پاس فنڈز ہیں تو اسے دینے چاہئیں۔

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے کوروناوائرس سے نمٹنے کے لئے یکساں پالیسی کیلئے وفاق کو ایک ہفتے کی مہلت دے دی ہے۔

سپریم کورٹ میں کرونا وائرس ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران جسٹس بندیال عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ اگر یکساں پالیسی نہ بنی تو عدالت عبوری حکم دے سکتی ہے۔

وفاق اور صوبائی حکومتوں کی آپس میں ہم آہنگی نہیں ہے، ہم آہنگی کے فقدان کی وجہ وفاق میں بیٹھے لوگوں کی ذاتی عناد ہے، حکومت ہر کام منصوبہ بندی کے ساتھ کرتی ہے، لیکن اس معاملے کوئی منصوبہ بندی نظر نہیں آ رہی۔

معزز جج نے کہا کہ کورونا کی روک تھام سے متعلق اقدامات میں بڑے پیمانے پر بدعنوانی ہو رہی ہے۔ ہمارا گزشتہ حکم شفافیت سے متعلق تھا اس کو نظر انداز کیا گیا۔

جسٹس بندیال نے ریمارکس دیے کہ ایک اچھی اور وژینری لیڈر شپ کا فقدان ہے، وفاق میں بیٹھے لوگوں کا رویہ متکبرانہ نظر آ رہا ہے۔ اس روئیے سے وفاق کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ کیا وفاق میں بیٹھے لوگوں کو ایسی زبان استعمال کرنی چاہیے۔ انا اور ضد سے حکومتی معاملات نہیں چلتے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کے پاس اگر کوئی پالیس ہے تو دکھائیں۔ بین الصوبائی سروس شروع ہونی چاہیے۔ کراچی سے اسلام آباد لوگ 25 ہزار کرایہ دے کر پہنچ رہے ہیں۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ صوبائی حکومتیں پیسے مانگ رہی ہیں، اگر وفاق کے پاس فنڈز ہیں تو اسے دینے چاہئیں۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ چھوٹی تجارتی سرگرمیوں کو بھی کھولنے پر غور کیا جائے گا۔ قومی سلامتی کے 9 مئی کے اجلاس میں حتمی فیصلے ہوں گے۔ ریلوے کو کھولنے کے شیڈول پر بھی غور ہورہا ہے۔

وفاقی حکومت چاہتی ہے معاملات افہام و تفہیم سے حل ہوں۔ چاہتے ہیں معاملہ اس حد تک نہ جائے کہ عدالت کو مداخلت کرنی پڑے۔ آج کل ٹی وی دیکھیں تو لگتا ہے ملک میں سیاسی جنگ چل رہی ہے۔ سیاسی معاملات بہتر ہوگا عدالت سیاستدانوں کو ہی حل کرنے دے۔ وفاق کے اختیارات پر بات کرنے کیلئے پارلیمنٹ بہترین فورم ہے۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا عدالت کسی سیاسی معاملے میں نہیں پڑی گی۔ جسٹس قاضی امین نے کہا کہ کیا شہریوں کی اموات پر سوال پوچھنا ہماری آئنی ذمہ داری نہیں؟ باہر کون کیا کہتا ہے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ صدر مملکت اور وزیراعظم کے ارادے نیک ہوں گے لیکن کچھ ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ ڈاکٹر اسرار احمد کی باتیں آج سچ ثابت ہو رہے ہیں۔ ہمارے ملک کا ایک حصہ ہم سے چلا گیا کچھ حصوں میں آگ لگی ہے۔ اگر ہم زکوٰۃ، صدقات اور فطرانہ کھا جائیں گے تو پھر کیا ہو گا؟

سپریم کورٹ کے بینچ نے کہا کہ صوبوں کو ایسے کاروبار روکنے کا کوئی اختیار نہیں جو مرکز کو ٹیکس دیتے ہیں۔ ایسا کرنے کے لیے مرکز کی اجازت ضروری تھی۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کیا پنجاب نے مرکز سے ایسی کوئی اجازت لی؟ اگر اجازت نہیں لی گئی تو صوبوں کے ایسے تمام اقدامات غیر آئینی ہیں۔صوبائی حکومتیں صرف وہ کام رکوا سکتی ہیں جو ان کے دائرہ اختیار میں آتے ہوں۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا صوبائی حکومت کا اختیار اسی حد تک ہے جو آئین دیتا ہے، کاروبار ی سرگرمیوں پر وفاقی حکومت ٹیکس لیتی ہے، صوبے اس پر پابندی کیسے لگا سکتے ہیں؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وفاقی معاملات کے حوالے سے شیڈول 4 کو دیکھ لیں۔ امپورٹ، ایکسپورٹ ،لمیٹڈ کمپنیز،ہائی ویزاور ٹیکس کے معاملات وفاقی ہیں۔ صوبائی حکومت وفاق کے معاملات پر اثر انداز نہیں ہو سکتی۔

%d bloggers like this: