تحریر و تصاویر عفیفہ زہرا
چترال شہر سے کوئی دو گھنٹے کی مسافت پر کافرستان واقع ھے۔
کیلاش مذھب میں خدا کا تصور تو ھے مگر کسی پیغمبر یا کتاب کا کوئی تصور نہیں. ان کے مذہب میں خوشی ھی سب کچھ ھے۔
وہ کہتے ہیں جیسے کسی کی پیدائش خوشی کا موقع ھے اسی طرح اس کا مرنا بھی خوشی کا موقع ھے۔
چنانچہ جب کوئی مرتا ھے
تو ھزاروں کی تعداد میں مردوزن جمع هوتے هیں- میت کو ایک دن کے لئے کمیونٹی ھال میں رکھ دیا جاتا ھے،
مہمانوں کے لئے ستر سے اسی بکرے اور آٹھ سے دس بیل ذبح کئے جاتے ھیں اور شراب کا انتظام کیا جاتا ھے۔ تیار ھونے والا کھانا خالص دیسی ھوتا ھے.
آخری رسومات کی تقریبات کا جشن منایا جاتا ھے۔ ان کا عقیده هے کہ
مرنے والے کو اس دنیا سے خوشی خوشی روانہ کیا جانا چاهیۓ۔ جشن میں شراب، کباب، ڈانس اور هوائی فائرنگ ھوتی ھے۔
مرنے والے کی ٹوپی میں کرنسی نوٹ، سگریٹ رکھی جاتی هے- پرانے وقتوں میں وہ مردے کو تابوت میں ڈال کر قبرستان میں رکھ آتے تھے،
آج کل اسے دفنانے کا رواج ھے۔ کیلاش میں ھونے والی فوت گی خاندان کو اوسطاَ اٹھارہ لاکھ میں پڑتی ھے
جبکہ یہ کم سے کم سات لاکھ اور زیادہ سے زیادہ پینتیس لاکھ تک بھی چلی جاتی ھے۔
فوتگی کی طرح ان کے ھاں شادی اور پیدائش بھی حیران کن ھے- لڑکے کو لڑکی بھگا کر اپنے گھر لے جانی ھوتی ھے۔
لڑکے کے والدین لڑکی کے والدین اور گاؤں کے بڑوں کو اس کی خبر کرتے ہیں جو لڑکے کے ھاں آکر لڑکی سے تصدیق حاصل کرتے ہیں کہ
اس کے ساتھ کوئی زبردستی نہیں کی گئی بلکہ وہ اپنی مرضی سے بھاگی ھے۔ یوں رشتہ ھو جاتا ھے۔ اس کے بعد دعوت کا اھتمام ھوتا ھے
جس میں لڑکی والے بطور خاص شرکت کرتے ھیں۔ شادی کے چوتھے دن لڑکی کا ماموں آتا ھے جسے لڑکے والے ایک بیل اور ایک بندوق بطور تحفہ دیتے ھیں،
اسی طرح دونوں خاندانوں کے مابین تحائف کے تبادلوں کا یہ سلسلہ کافی دن تک چلتا ھے۔
حیران کن بات یہ ھے کہ پیار ھونے پر شادی شدہ خاتون کو بھی بھگایا جا سکتا ھے۔
اگر وہ خاتون اپنی رضامندی سے بھاگی ھو تو اس کے سابقہ شوھر کو اعتراض کا کوئی حق نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ پ
ہلا بچہ پیدا ھونے پر زبردست قسم کی دعوت کی جاتی ھے جس میں بکرے اور بیل ذبح ھوتے ھیں۔ یہ دعوت ھوتی لڑکی والوں کے ھاں ھے
مگر اخراجات لڑکے والوں کو کرنے ھوتے ھیں۔ اس کے علاوہ لڑکے والوں کو لڑکی کے ھر رشتےدار کو دو ہزار روپے فی کس بھی دینے ھوتے ھیں۔
اگر پہلے بچے کے بعد اگلا بچہ بھی اسی جنس کا ھوا تو یہ سب کچھ اس موقع پر بھی ھوگا یہاں تک کہ اگر مسلسل صرف لڑکے یا صرف لڑکیاں ھوتی رھیں تو یہ رسم برقرار رھے گی،
اس سے جان تب ھی چھوٹ سکتی ھے جب مخالف جنس کا بچہ پیدا ھو۔
اگر کیلاش لڑکے یا لڑکی کو کسی مسلمان سے پیار ھو جائے تو شادی کی واحد صورت یہی ھے کہ اس کو اسلام قبول کرنا ھوگا
اس علاقے میں کام کر رھی ھیں چنانچہ ان این جی اوز کی جانب سے ھر کیلاش فرد کے لئے ایک بنک اکاؤنٹ کھولا گیا ھے
جس میں ھر ماہ پابندی کے ساتھ بیرون ملک سے رقم ڈالی جاتی ھے جس کے عوض فقط یہی مطالبہ کیا جاتا ھے کہ
مسلمان بننے سے پرھیز کیا جائے اور اگر کیلاش مذہب سے بیزار ھوں تو عیسائی بن جائیں لیکن مسلمان بننے سے گریز کریں۔
ان وادیوں میں پیدا ھونے والا بچہ رھتا تو کافرستان میں ھی ھے لیکن اسے پیدائش کے ساتھ ھی کوئی یورپین گود لے لیتا ھے
اور وہ اس کے لئے ھر ماہ رقم بھیجتا رھتا ھے۔ ایسا کیوں کیا جاتا ھے ؟ اسے سمجھنا مشکل نہیں-
اے وی پڑھو
سنہ 1925 میں ایک ملتانی عراق جا کر عشرہ محرم کا احوال دیتا ہے||حسنین جمال
گلگلت بلتستان کے وزیراعلیٰ خالد خورشیدجعلی ڈگری کیس میں نااہل
چوکیل بانڈہ: فطرت کے دلفریب رنگوں کی جادونگری||اکمل خان