مئی 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

گلوبل ڈرامے کے مظلوم کردار !۔۔۔رانا محبوب اختر

صدیوں اچھوت رہنے والے مظلوم indigenous لوگوں کے المیے اور کورونا کے مخمصے کو ملا کر پڑھیں تو اشو لال کی نظم مسحور کرتی ہے

( نسیم سید اور اشو لال کی نظمیں )

ایک ڈاکیہ پابلو نرودا کے شعر اپنی محبوبہ کو سناتا تھا۔ نرودا نے اسے کوسنا دیتے ہوئے چور کہہ دیا! جس پر ماریو نامی ڈاکیے نے جواب دیا کہ:”شاعری ، شاعر کی ملکیت نہیں ہوتی بلکہ اس کی ملکیت ہوتی ہے جو اسے استعمال کرتا ہے”۔یہ خوب صورت بات، نرودا پر لکھے گئے ناول "پوسٹ مین "کو حسین تر بناتی ہے۔کرکیگارڈ شاعروں کو اداس مخلوق کہتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ شاعروں کے ہونٹوں کی ساخت کچھ ایسے ہوتی ہے کہ آہیں اور چیخیں ان کے ہونٹوں سے گزریں تو موسیقی کی صورت اختیار کر لیتی ہیں!لوگ ان سے کہتے ہیں کہ بیشک تمھارے دکھ تمھیں کھا جائیں مگر تمھارے ہونٹوں سے چیخ نہ نکلے ورنہ ہمیں ڈر لگے لگا۔شاعر ذات اور کائنات کے دکھوں کو کسی مست مے کی تلخی سے سرور دیتا ہے اور ناقابلِ برداشت کو قابلِ برداشت اور گوارا بنا دیتا ہے۔دکھ رقم ہو جاتے ہیں اور کھردرے دکھوں کی تکلیف کم ہو جاتی ہے۔ میر صاحب نے کہا:
ہم کو شاعر نہ کہو میر کہ صاحب ہم نے
درد و غم کتنے کئے جمع تو دیوان کیا
اور غالب نے فر مایا:
یہ مسائلِ تصوف یہ ترا بیان غالب
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
دیکھئے یہ بادہ خوارتو ولی ہیں!
کورونائی عہد قیامت کا دکھ ہے۔دنیا بدل رہی ہے۔ہر گھر فوکو کے panopticon کی طرح قفس ہے یا دنیا کوئی بڑا ہسپتال ہے۔ سب پیار سے ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں، چھوتے نہیں! موت لاشعور سے شعور میں داخل ہو گئی ہے۔پرائیویسی سے لے کر ماحولیات تک کے موضوعات نئی اہمیت اور urgencyاختیار کر گئے ہیں۔دوستیاں تو خیر دشمنوں کو بھی نصیب نہیں پر چھوٹی چھوٹی رنجشوں کا لطف بڑھتا جا ہے۔ایسے میں نئے دور کی حقیقت آشکار ہو رہی ہے۔کینیڈا میں مقیم نسیم سید ایک ایسی شاعر ہیں جو نئی نو آبادیت کی جدلیات سے واقف ہیں اور انسان کے دکھوں کو گوتم بدھ کی آنکھ سے دیکھتی ہیں ، مکتی کی آرزو کرتی ہیں ۔ان کی کتاب” یورپین نو آبادیات کے ایبوریجنل ادب پر اثرات”، میرے دل کے قریب ہے۔ ڈاکٹر شہناز شورو ان کی کتاب کو نئے دور کا صحیفہ کہتی ہیں۔” اس کتاب میں کینیڈا ( جو اب فخریہ انگلش سپیکنگ ورلڈ میں شامل ہے) کے حقیقی مقامی باشندوں جنھیں انیوایٹس، ایبوریجنل اور اب فرسٹ نیشن کہا جاتا ہے( جو نو آبادیاتی دور کے بد ترین جبر کا شکار رہے) کی تاریخ کے تلخ ترین دور کو رقم کیا گیا ہے”۔ مغرب کے مہذب آدمی نے دنیا بھر میں مقامی آدمی کو قتل کر کے جس طرح لوٹ مار کو فروغ دیا، پورے امریکی بر اعظم میں قبضہ گیری کے کلچر کو رواج دیا اور مقامی آرٹ ،ادب،مذہب اور تہذیب کو مٹا کر نسل پرستی اور linguicideیا زبان کشی کی ، وہ انسان کو ظالم اور جاہل ثابت کرنے کو کافی ہے۔پھر غریب ملکوں میں منڈی کی معیشت کو فروغ دے کر غربت، بیماری اور دہشت گردی کو فروغ دیا اور قدرتی وسائل کے استحصال سے ماحولیاتی آلودگی پیدا کر کے ہوا اور پانی کو گندا کیا کہ سانس لینا مشکل ہو گیا! اور یہ سب ترقی کے نام پر کیا گیا :
میری ساری زندگی کو بے ثمر اس نے کیا
عمر میری تھی مگر اس کو بسر اس نے کیا
آج کی وجودی صورتِ حال پر نسیم سید کی ایک نئی نظم” ہیجڑے کا سوال ” ، گھر میں بند آدمی کے آزار کو بیان کرتی ہے۔ ہیجڑوں کا کرب، گھر میی قید لمس سے محروم پوسٹ ماڈرن آدمی کے کرب کو اجاگر کرتا ہے:
ایک ہیجڑے کا سوال!!
ہمیں تو خیر عادت ہےہمیں تو اس قرنطینہ میں جس کا ذائقہ تم نے ابھی چکھا ہےساری عمر رہنا ہےہمارے واسطے تم سب کی
مشترکہ یہی تاکید ہے نا؟ہماری روح
رشتوں کو ترستی روح،
اپنوں کو ترستا بچپنا
اور بیکراں تنہائی کے صحرا میں لاوارث بڑھاپااپنے اندر ایڑیاں کیسے رگڑ تا کیسے مرتا ہے ؟کبھی سوچا ہے تم نے ” وہ رب العالمیں ہے ” مسجدوں سے سارا دن چنگھاڑتے ہو تم تو کیا تخلیق پہ قادر تھے ہم اپنی؟عمل کچھ اور ہے، اعلان کچھتم سے بڑا کوء منافق ہوگا دنیا میں ؟
/ہمیں تو ایسا لگتا ہے
خدا نے تم سے پوچھا ہےقرنطینہ کی وحشت ناک تنہاء میں جینا
کیسا لگتا ہے؟محبت سے بھرے اک لمس کے پہلو سے جڑ کے بیٹھنے کی آرزو کو یوں ترسنا
کیسا لگتا ہے ؟کرونا وائرس ہو جیسے تم، سب کا تم سے خوف کھانا
کیسا لگتا ہے؟ہمیں تو ایسا لگتا ہے تمہیں تا کید_ غیبی سے
فضائوں کی صفائی ہو رہی ہےاگر توفیق ہو تو
اپنے اندر کی منافق تربیت کی گندگی بھی صاف کرڈآلو قرنطینہ کی وحشت ناک تنہائی
اک ایسی رو شناء ہے
اگر چاہو تو اندر کا مٹا کے سبانوکھی رو شناء سے دوبارہ خود کو لکھ ڈالو
جنگ، تصادم اور مسابقت کے ساتھ شامل خوف سرمایہ دارانہ نظام کو موت کا سایہ بنا دیا ہے۔ہمارے ایک شاعر اخترلایمان نے 1943 میں نو آبادیاتی پیراڈائم پہ ایک ناٹک لکھا تھا۔ "سب رنگ” کیسارے کردار جارج آرول کے” 1984″ کی طرح جانور ہیں اور اس طنز بھرے ناٹک کا مقام ایشیاء ہے۔ جس میں آدمی صرف یورپ سے آیا ہوا بندہ ہے ۔ سیاسی رہنمائی سانپ کے پاس ہے۔شہزادہ کی اتنی پٹائی ہوئی ہے کہ وہ گدھا بن گیا ہے۔خچر حکمران ہے ۔ بیل محنت پہ لگا ہوا ہے۔ کتا خطاب یافتہ ہو گیا ہے۔ گدھ سرمایہ دار بن گیا ہے۔چڑیا کی عقل ناقص ہے۔ مگر پھر بھی ایک دستِ نمو خدا کی صورت زندگی کی انگلی پکڑ کر آگے بڑھتا ہے۔جانوروں کی حکمرانی ہے اور المیہ یہ ہے کہ آدمی یورپی انسان کی جون میں ہے۔ مگر elan vital جو کائنات کے رب کا کرشمہ ہے، زندگی کی رہنما ہے۔جنگ ِعظیم دوئم کے بعد سامراج کا بستر گول ہوا تو بھگ دو سو ملک آزاد ہیں۔مگر ان پر نئے نوآبادیاتی سامراج کا بالواسطہ قبضہ ہے یہ remote control capitalism ہے۔جس میں جنگ کے جواز سے وار انڈسٹری کو دوام ہے اور انسان کی صحت اور تعلیم حکمرانوں کی ترجیح نہیں ہے۔جنگ کے مخصوص میدانوں میں محدود موت سے جبر اور استحصال کے نظام کو خطرہ نہیں تھا۔کورونا نے میدان جنگ، سپاہی اور اسلحہ بدل کر سارا منظر بدل دیا ہے اور موت نئی دہلی سے نیویارک اور ووہان سے میلان تک کشتوں کے پشتے لگا رہی ہے۔ایسے میں قبضہ گیروں، پہاڑ کھانے والے تھیکیدار ، دریا پینے والے سامراج، ٹمبر مافیا اور دہشت گردوں کے سر پرستوں کے مقابلے میں اچھوت یا untouchable کورونا کی جنگ سے دور بیٹھے تماشا دیکھتے ہیں۔فرسٹ نیشنز تاریخ میں پہلی بار تماشا نہیں محوِتماشا ہیں!کہ وہ اس جنگ کا کردار نہیں ہیں۔وہ خاموشی سے گلوبل ڈرامے کے بدلتے مناظر دیکھتے ہیں۔مرکزی پاکستان کے سرائیکی وسیب کا ایک بڑا شاعر، ڈاکٹر اشو لال، پوسٹ ماڈرن ecopoetry کا امام ہے۔ وہ سندھ دریا کی طرف منہ کر کے پیشاب نہیں کرتا اور فطرت اور مقامی ماحول سے محبت اس کی پہچان بن گئی ہے۔ وہ اپنی شاعری میں سندھ دریا سے ہم کلام رہتا ہے:
دریا او دریا ڈس میڈا جانی
کتھاں تیڈے پکھڑوں کتھاں تیڈے پانی
( دریا اے دریا، میرے جانی دریا بتا
تیرے پرندے اور تیرے پانی کیا ہوئے!!!)
صدیوں اچھوت رہنے والے مظلوم indigenous لوگوں کے المیے اور کورونا کے مخمصے کو ملا کر پڑھیں تو اشو لال کی نظم مسحور کرتی ہے:
” اساں اچھوت چنگے ہیں”

"پنج ہزار تے نو سو سال توں
ساڈی جو وی درگت بنڑی ہے چس آ گء ہے
اساں خش ہیں
روہ کوں جے کوئی ڈھون چاہندے
ڈھو گھن ونجے
چخے تھیوے
روہ جے اچھوت ہوندا
بچ پوندا
دریا جے کوء پیون چاہندے
پی گھنے
چخے تھیوے
دریا جے اچھوت ہوندا بچ پوندا
جنگل جے کوء کپن چاہندے کپ گھنے
چخے تھیوے
جنگل جے اچھوت ہوندا بچ پوندا
اساں خش ہیں
ساڈے تے کوء ترس نہ کھاوے
چخے تھیوے
اساں اچھوت چنگے ہیں”

%d bloggers like this: