مئی 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

نہری پانی چوری کی حقیقت؟۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

افسوس صد افسوس کی ایسا کچھ دیکھنے کو نہیں مل رہا بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ پہلےسے موجود سسٹم بھی دن بدن خراب ہو رہا ہے

محترم قارئین کرام،، وطن عزیز ایک زرعی ملک ہے. زراعت کے لیے پانی اور نہری نظام کی ضرورت و اہمیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے. بلاشبہ پاکستان کا نہری نظام دنیا کے بہترین نہری نظاموں میں سے ایک نظام ہے. بلاشبہ ہمارا نہری نظام مثالی رہا ہے. وقت کے تقاضوں اور ضروریات کے پیش نظر اس نہری نظام کو بہتر کرنے کی جو ضرورت تھی یا ہے، بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ادھر توجہ ہی نہیں دی گئی. بلکہ اگر دیکھا جائے تو گذشتہ کچھ عرصے سے دنیا کا یہ بہترین نظام رفتہ رفتہ شکست و ریخت اور زوال کی جانب گامزن ہے.

محکمے کے ذمہ داران کی لاپرواہی اور حکمرانوں کی عدم توجہی سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ ترقی یافتہ اور جدید نہری نظام ان کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے.

اگر ایسا ہوتا تو یقینا کم و بیش 90 سال پہلے ملک کی سب سے بڑی فوڈ باسکٹ سرائیکی وسیب میں ترتیب دیئے جانے والے اس نہری نظام کی اوور ہالنگ، ری ڈیزائنگ اور ری ماڈلنگ کا بندوبست کیا جاتا. موجودہ اور مستقبل کی ضروریات کو سامنے رکھ کر اسے از سرے نو ترتیب دیا جاتا.

افسوس صد افسوس کی ایسا کچھ دیکھنے کو نہیں مل رہا بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ پہلےسے موجود سسٹم بھی دن بدن خراب ہو رہا ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ اسے تیزی سے خراب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تو قطعا بے جا نہ ہوگا.ایک زمیندار کی حیثیت سے اور پاکستان کسان اتحاد کے کارکن کی حیثیت سے میں بڑی ذمہ داری کے ساتھ یہ تلخ حقیقت آپ سب سمیت ارباب اختیار کے سامنے رکھ رہا ہوں.

نہری نظام کے زوال اور تباہی میں خود محکمہ آبپاشی سب سے آگے آگے دکھائی دیتا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ یہ ہمارے ملک کی زراعت کے ساتھ کوئی گہری سازس اور دشمنی ہے.ایک ایسا ملک جس کی معیشت کا انحصار زراعت پر ہو اور کامیاب زراعت کےلیے کامیاب نہری نظام کو دانستہ خراب کرنے کی اور کیا وجہ ہو سکتی ہے. کرپشن تو ہر محکمے میں ہے. گذشتہ کئی سالوں سے محکمہ انہار میں بھی کرپشن نے ریکارڈ ترقی کی ہے. میں مزید بات کرنے سے پہلے محکمہ آبپاشی ضلع رحیم یار خان سرکل کے صرف ایک ڈویژن ڈالس ڈویژن سے متعلق ایک کردار کی ایک رپورٹ آپ کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں.
ُُ ُ رحیم یار خان… ایکسیئن ڈالس ڈویژن کی کرپشن کے چرچے،  آل رونڈر طاقت ور کرپٹ مشہور، منصوبہ جات کے فنڈز میں کروڑوں روپے کے گھپلے، ملازمین کی بھرتی میں بوگس کاروائیوں کے ذریعے کمائی، بڑے زمینداروں کو بذریعہ شگاف پانی چوری کروانے کا ماہر، ایس ڈی او اور اوور سیئرز کو بائی پاس کرکے موگہ تڑوا کر کروڑوں روپے وصول کرکے لکڑ ہضم پتھر ہضم کی شہرت رکھنے والا ایکسیئن  اربوں روپے کی زرعی زمین، مکانات اور جائیداد کا نامی و بے نامی مالک، ضلع بہاول پور کی تحصیل یزمان میں اس نے خاصا رقبہ حاصل کر رکھا.

ایک بڑے قبضے گروپ سے بھی اس کی آؤ بھگت بتائی جاتی ہے. نہری پانی کے حصول میں معاونت، انفارمیشن اور ٹیکنیکل سپورٹ کی خدمات اس کے ذمے ہے. اعلی بیورو کریسی کے علاوہ جوڈیشری میں بھی وسیع تعلقات کی بدولت یہ اپنے آفیسران کو بھی آنکھیں دیکھانے کی مہارت رکھتا ہے.موصوف سٹے آرڈرز پر سیٹ پر براجمان ہیں. تفصیل کے مطابق محکمہ آبپاشی حکومت پنجاب رحیم یار خان سرکل کے ڈالس ڈویژن میں تعینات ایکسیئن  اپنی لوٹ مار کی خداداد صلاحیتوں کی بدولت اربوں روپے کی جائیداد و زمین کا مالک بن چکا ہے.

اپنے ڈویژن میں ہونے والے اربوں روپے کے منصوبہ جات میں کروڑوں روپے کی کرپشن کر چکا ہے. اس کے خلاف کئی درخواستیں اور انکوئریاں چل رہی ہیں لیکن اپنے وسیع تعلقات، سیاستدانوں اور بیورو کریسی کے اندر خوب رسائی رکھنے کی وجہ سے ٹس سے مس تک نہیں ہو رہا.بات نہ ماننے اور دباؤ میں نہ آنے والے اپنے آفیسران کو بھی آنکھیں دکھانے میں خاصی مہارت رکھتا. اپنے خلاف لیے جانے والے ایکشن یا تبادلے کے خلاف جوڈیشری کے ذریعے سٹے آرڈرز صاحل کرنے کا ہنر اچھی طرح جانتا ہے.

موصوف اس وقت بھی سٹے آرڈرز پر اپنی سیٹ پر براجمان ہیں . ایکسیئن شاہد جاوید کے بارے میں مشہور ہے کہ موصوف اپنے ماتحت ایس ڈی اوز اور اوور سیئرز کو بائی پاس کرکے زمینداروں سے ڈائریکٹ ڈیلنگ کرکے وصولی کی کوشش کرتا ہے. اس کام کے لیے اس نے اپنے کارندے رکھے ہوئے ہیں. بڑے زمینداروں سے پیسے لیکر نہروں میں بذریعہ شگاف پانی چوری کرنے میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتا.

ریکارڈ گواہ ہے کہ ضلع رحیم یار خان میں سب سے زیادہ شگاف ڈالس ڈویژن میں ہی پڑتے ہیں. ابھی ششماہی نہروں میں پانی آئے ہوئے تین دن ہوئے ہیں کہ بھونگ مائنر، دیگی مائنر، گری مائنر دعوالہ سمیت ڈالس ڈویژن میں کئی جگہوں پر شگاف پڑنے کی اطلاعات آ چکی ہیں.یہ بات بھی بڑی توجہ کی حامل ہے کہ اکثر شگاف گنے کی فصل یا باغات کے علاقوں میں ہی پڑتے ہیں کیوں؟

شگاف دو طرح سے کمائی کا ذریعہ بنتے ہیں ایک پہلے زمیندار سے وصولی کرکے دوسرا سرکاری خرچ پر شگاف کو پر کرنے سے. کچھ شگاف کمزور پشتوں کی وجہ سے بھی پڑ جاتے ہیں. بہرحال شگاف پڑنے کی وجوہات کچھ بھی ہوں لیکن شگاف پڑنے کا نقصان اس کے آگے اور ٹیل تک کے تمام کسان اٹھاتے ہیں .جو اپنے حق کے پانی اور باریوں سے محروم ہو جاتے ہیں. . ہر سال نہروں میں پانی آنے سے قبل موگہ جات کو اوپر نیچے اور سائز کم کر دیا جاتا ہے.بعد ازاں آغاز سیزن پر زمینداروں سے فی موگہ ڈیڑھ لاکھ روپے سے چار لاکھ روپے وصولی کرکے رقم کے مطابق ڈسچارج بڑھا دیا جاتا ہے.

کافی دنوں بعد دوران سیزن خصوصی رعایتی پیکیج بھی لانچ کیا جاتا ہے. موگے نہ تڑوانے والے زمینداروں کے موگہ جات کو اپنے مخصوص بیلداروں کے ذریعے رات کے اندھیرے میں توڑ کر تین چار روز بعد چھاپہ کاروائی کے ذریعے بلیک میل کرکے وصولی کی جاتی ہے. اس کام کے لیے کھور نامی شخص بااعتماد اور تجربہ کار تصور کیا جاتا ہے.سرکاری ملازم نہ ہونے کے باوجود نہ جانے وہ آجکل کس حیثیت سے نہروں پر موجود اور ڈیلنگ کرتا نظر آتا ہے. ناکامی کی صورت میں زمینداروں پر پانی چوری کا مقدمہ درج کروا دیا جاتا ہے اور لاکھوں روپے تاوان کا کیس بنا دیا جاتا ہے.

ایکسیئن  کی دیدہ دلیری ملاحظہ فرمائیں کہ موصوف نے قانون اور محکمانہ ضابطوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے ڈالس ڈویژن میں عارضی بیلداروں کی بھرتی بغیر اشتہار کے اپنے مخصوص لوگوں کے ذریعے کر لی ہے. جن کے انٹرویوز 11اپریل کو مختلف سکیشن میں ہوئے. کچھ بیلدار ڈیوٹیاں دے رہے ہیں گھروں میں بیٹھ کر تنخواہیں لینے والے یا انہیں لگوانے والے ہمیشہ کی طرح تنخواہیں ہی لیں گے. اس مد بھی خاصی کرپشن ہوتی ہے. گھوسٹ ملازمین کی اندرونی کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے. ایکسیئن ڈالس ڈویژن نے کاغذوں فائلوں کا پیٹ بھرنےکے لیے اور قانون کے منہ میں دھول آنکھوں میں مرچیں ڈالنے کے لیے بڑے دھڑلے سے رکھے گئے عارضی بیلداروں کی کاغذی خانہ پری کے لیے 17اپریل کو اخبار میں بھرتیوں کا اشتہار دے رکھا ہے جس کے مطابق 6 مئی کو عارضی بیلداروں کی بھرتی کے لیے انٹرویوز ہوں گے.

یہ کیسا مذاق ہے. یہ کتنی بڑی اندھیر نگری ہے. یہ کتنی بڑی سینہ زوری ہے. ارباب اختیار میں سے کسی کو ابھی تک اس حرکت کا نوٹس لینے کی توفیق نہیں ہوئی. حکومتی اور اداروں کی کارکردگی پر نظر رکھنے والی ایجیسیز لاعلم ہیں یا کوئی پردہ داری کا معاملہ ہے. کوٹھی پر سجائی جانے والی خاص محفلوں کی کہانی اور راز بھی خاصے دلچسپ ہیں.ایکسیئن  کی ایک بڑی خوبی یا چالاکی اور مہارت یہ بھی ہے کہ اس نے صحافیوں کو رام کرنے کے بھی کیٹیگری وائز اچھے اور موثر انتظامات ترتیب دے رکھے ہوتے ہیں. اپنے خلاف آنے والی خبروں کو رکوانے کے لیے ہم نوا دوستوں کی ایک ٹاسک فورس بھی بنا رکھی ہے.ٗ ٗ

محترم قارئین کرام،، آپ اندازہ فرمائیں کیا حالات ہیں. وہ محکمہ جس کا کام نہروں کے ذریعے پانی کی کسانوں میں تقسیم کار، پانی اور سسٹم کی نگرانی کرنا تھا. اس کے ذمہ داران کیا کر رہے ہیں. اس سے نہری نظام کے مستقبل اور روزبروز بڑھتی ہوئی بے لگام کرپشن کا اندازہ آپ خود لگالیں. پانی کے حقداروں کو اپناحق کس طرح جائز طریقے سے لینے کی بجائے ناجائز طریقوں سے لینے پر مجبور کیا جا رہا ہے.ایک کنگلے کی حیثیت سے محکمہ انہار میں بھرتی ہونے والے کس طرح کروڑوں اربوں میں کھیلتے نظر آتے ہیں.

کاش اتنے بڑے الزامات کے سچ اور جھوٹ کا از خود نوٹس لینے اور ازخود نتارا کرنے کے لیے کوئی ادارہ آگے بڑھتا. یوں کرپشن کنٹرول ہوتی اور ایک کامیاب نہری نظام مزید تباہ و برباد ہونے سے بچ جاتا.کوئی تو اس حقیقت کو تسلیم کرکے اصلاح احوال کی طرف پیش قدمی کرے. چالیس فیصد آباد زمینوں کے تناسب کو سامنے رکھ کر بنایا جانے والا نہری نظام ہرگز ہرگز سو فیصد آباد رقبوں کی ضروریات کو پورا نہیں کر سکتا.

اس کے لیے ری ڈیزائنگ و ری ماڈلنگ کی ضرورت ہے. وطن عزیز میں پانی فروختگی کی سب سے بڑی وجہ یہی خرابی ہے. یاد رکھیں پانی چوری کم ہوتا ہے بلکہ پانی فروخت زیادہ ہوتاہے. موگے بغیر پیسے کے تو نہیں ٹوٹتے.پہرے دار حصہ داروں میں سے کچھ کو ان کا اپنا پانی فروخت کرتے ہیں. یہ کیسا نظام ہے کہ پانی کے مالک پانی کے چور بھی کہلاتے ہیں.حکمران نہری نظام کی اوور ہالنگ اور ری ماڈلنگ کرکے ٹھیک کر دیں پانی چوری کا مسئلہ ازخود ختم ہو جائے گا.

%d bloggers like this: