مئی 10, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

COVID-19 وائرس کا ارتقا،ماخذ اور پھیلاؤ۔۔۔ عابد حسین قریشی

۔ اسے جنیات میں مستند ماڈل سمجھا جاتا ہے۔ لیکن وائرسز کو ٹریک کرنے کیلیے پہلی دفعہ استعمال میں لایا گیا ہے۔

اس وائرس کےدنیا بھرمیں جینوم سیکونس ہورہےاور روزانہ کی بنیادوں پر GISAID پر اپلوڈ کیے جارہے۔ جہاں جینوم کو لیکر مختلف تجزیات کیے جارہے ہیں۔ وہیں کچھ سائنسدانوں نے اس سیکونس ڈیٹا کو استعمال کرتےہوئے وائرس کے ارتقائی سفراسکے شروع ہونے کے ماخذ اور پھیلاؤ کے تعلق کا اینالسس کیا ہے جینوم کے سیکونس سے جو ارتقائی درخت (Phylogenetic Tree) بنایا گیا ہے۔ اس سے بڑی دلچسب باتیں سامنے آئیں ہیں۔ وائرس کی میوٹیشنز کئ تعلق کی بنیاد پر تین طرح کی منسلک ویری اینٹس ہیں۔ A, B, C

Image

۔ A ٹائپ چمگادڑ کے وائرس سے قریب تر ہے، اگرچہ یہ ووہان کے مریضوں میں موجود تھیں لیکن وہان کے اکثریت مریضوں میں یہ عام نہیں تھی بلکہ چائنا کے دوسرے شہروں، امریکہ اور آسٹریلیا کے شہریوں جو ووہان سے گئیے ان میں عام تھی۔ ۔ B ٹائپ ووہان اور مشرقی ایشیا کے ممالک میں عام دیکھی گئی۔

Image

۔ C ٹائپ یورپ اور امریکہ میں۔ تینوں ٹائیپس ایکدوسرےسےمنسلک ہیں A کی میوٹیشن سے B آئی اور اس سے C۔ اسمیں ایک دلچسپ بات یہ بھی سامنے آئی B ٹائپ چائنا اور ایسٹ ایشیا میں اسکا میوٹیشن ریٹ سست ترین ہے باقیوں کےمقابلے۔ اسکی وجہ غالباً وائرس کی امیون سسٹم اورانوائرمینٹ سے موافقت ہوگئی

Image

وائرس کے جینیاتی ارتقائی سفر کو مریضوں کی ہسٹری سے بھی توثیق کیا گیا۔ اٹلی میں پہلے کیس کا تعلق جرمنی، اور پھر اٹلی سے برازیل، اٹلی سے میکسیکو۔ چائنہ- امریکہ، چائنا جاپان وغیرہ

اینالسس کرنے والے سائنسدانوں کے بقول یہ جنیات کا وہی کمپیوٹیشنل اور میتھمیٹیکل ماڈل ہے جس سے انسانوں کی پری ہسٹری کے لوگوں کے ارتقا اور انکی نقل وحمل، اور زبانوں کے تعلق کیلیے استعمال کیا گیا۔ اسے جنیات میں مستند ماڈل سمجھا جاتا ہے۔ لیکن وائرسز کو ٹریک کرنے کیلیے پہلی دفعہ استعمال میں لایا گیا ہے۔ انہیں کے بقول اس سے ناصرف غیر مصدقہ مریضوں کی ہسٹری کو کھوج لگانے میں مدد ملےگی بلکہ یہ وائرس کے اگلے بنتےگڑھ کا اندازہ بھی لگا سکتاہے۔ یہ آڑٹیکل جب چھپا تب اسمیں 130 وائرل جینوم کا ڈیٹا تھا اب تک 1001 جینوم کو انالسس کر کے ویبسائٹ پر اپ ڈیٹ کردیا گیا ہے

اس انالسس میں وائرس کی میوٹیشن اور بیماری کے بڑھنے کم ہونے اموات، موسم سردی گرمی، حکومتوں کے ایکشن وغیرہ سے تعلق نہیں دیکھا گیا۔ اسکے لیے اس اینالسس میں شامل ہونے والے جینوم کا ڈیٹا اور مریضوں کی ہسٹری، بیماری کی نوعیت، ٹیسٹ نتائج ممالک کے موسم کاڈیٹااوربہت کچھ درکار ہوگااسکے بعد ہی تعلق دیکھا جا سکتا ہے ۔

COVID-19 دنیا کو جہاں ایمرجنگ اور ری ایمرجنگ وائریسز سے شدید خطرات لاحق ہیں ۔ وہیں اینٹی بائیوٹیک ریزسٹنس سر چڑھتا خطرہ ہے۔ جس طرج انکا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے ہمارے پاس بہت سے بیکٹریل انفیکشنز کی صورت میں ٹریٹمنٹ آپشنز محدود ہوتے جارہے ہیں۔ اور سائنٹیفک فائینڈنگز پیش گوئیکر چکی ہیں اگر یہی حالات رہے تو 2050 تک ہمارے پاس کوئی اینٹی بائیوٹیک ورکنگ میں نہین ہونگی۔ اور 10 ملین اموات ان ناقابل علاج بیکٹیریل انفیکشنزسے ہر سال ہونگے۔ اور اکانومی کا نقصان کہیں زیادہ ہوگا۔ وبائی امراض سے متعلق ہر ملک کو ایک جامع پلان کی ضرورت ہے۔


عابد حسین قریشی نے مائیکروبیالوجی اور مالیکیولر جنیٹکس میں ڈاکٹریٹ کررکھی ہے ۔

%d bloggers like this: