مئی 4, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ڈاکٹروں کے لئے ایک دعا ۔۔۔ رانا محبوب اختر

میرے ایک دوست،رحیم بخش تھے اور کیا دلبر انسان تھے! وہ ہر بات پہ قہقہے لگاتے اور کبھی ہنستے ہنستے رو دیتے تھے۔

دنیا ایک بڑا ہسپتال ہے۔کورونا کے مریضوں کا میگا ہسپتال جس میں سب موت کے منتظر ہیں!انسان اپنی تاریخ کے عجیب دور سے گزر رہا ہے۔ ایمرجنسی نافذ ہے۔ ڈاکٹرز، اس عظیم bio-war کے بے تیغ سپاہی ہیں۔ بندوقیں ہیں، گولیاں نہیں ہیں ! ڈاکٹر علی شریعتی، انسان کو جدلیاتی مخلوق کہتے ہیں ، جس کے اندر احسنِ تقویم اور اسفل السافلین کا معرکہ بپا رہتا ہے۔شیطان نے کہا تھا کہ آدمی زمین میں فساد پھیلائے گا، خالق نے کہا جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔سفید کوٹ میں ملبوس ڈاکٹرز خالق کی بات کا بھرم رکھنے آتے ہیں۔اور وہ جنھوں نے دستانے، ماسک اور مسیحاوں کے لئے حفاظتی لباس ، PPE اور دوا کی گولیاں بنانے کی بجائے بم اور بارود بنائے، زمین میں فساد پھیلایا، وہ ہیں جو انسان کو سجدہ کرنے سے انکاری ہوئے تھے۔ غالب یاد آئے :
بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
ڈاکٹر اور مریض کا رشتہ زندگی کے تقدس کے تصور پر استوار ہے۔ اور ہم زندگی کی desacralization کے زمانے میں زندہ ہیں۔ صدیوں تلک علاج معالجہ جادو ٹونے ( theurgy) اور فلسفے سے زیادہ کچھ نہ تھا۔ عطائی ، پنڈت، پیر فقیر اور جوگی، جادو گر، تعویز گنڈے اور جنتر منتر سے علاج کرتے تھے! self-limiting بیماریوں سے صحت یاب ہونے والے اس دھندے کی دوامی کا جواز تھے! عیسی علیہ السلام مسیحا تھے ، وہ کوڑھیوں کو شفا اور مردوں کو زندہ کرتے۔ یہ ان کا معجزہ تھا۔ ڈاکٹروں کو علم اور سائنس نے معجزے عطاء کئے۔وہ پیامبر نہ تھے پھر بھی مسیحا کہلائے!ان کی مسیحائی علم سے آتی ہے۔ڈاکٹروں کے قیاس پر ہم سیاسی رہنماوں کو بھی مسیحا کہتے رہے۔خدا کے بندوں کی خدمت سیاست ہے ، مسیحائی ہے ! مگر امریکہ سے انڈیا تک سیاسی پردھان موت کے کاروبار میں جت گئے۔زندگی اور فطرت کا توازن ان کی ترجیح نہ تھے !ہم پوسٹ ٹرتھ پوسٹ ، ماڈرن عہد اور پوسٹ ہیپی نیپس زمانے میں زندہ ہیں۔کوئی سچ حتمی نہیں رہا اور یہ بھی کہ انسان ایک بڑی منڈی میں کسٹمر اور گاہک ہے اور انسان کے جسم پر قبضے کی جنگ علم طاقتور اور ریاست کا ہتھیار بن گیا ہے ۔میرا جسم میری مرضی مارکیٹ کے قانون کے خلاف ہے ، گھاٹے کا سودا ہے۔ مشال فوکو ریاست اور فرد کے حوالے سے طاقت کے رشتوں کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ریاست علم کے استعمال سے انسانی جسم پر قبضہ کر لے گی اور فرد کی آزادی اک خواب بن جائے گی!
میڈیکل سائنس فرد سے سماج تک پھیل گئی ہے اور دنیا کو clinical gaze سے دیکھا جائے گا۔پھر یہ ہوا اور ہم biopolitics کے زمانے میں زندہ ہیں۔ہمارے عہد میں فرد کے جسم پر اس کی مرضی کی بجائے ، سماج اور ریاست کی مرضی چلتی ہے! انسان ایک بڑے ہسپتال یا کسی asylum میں بند ہو ہے اور سماج ایک بڑا قید خانہ لگتا یے۔ فوکو ایک panopticon کی مثال دیتا ہے، ایک ایسا قید خانہ جس میں قیدیوں کے سیل ایک دائرے میں بنے ہیں۔دائرے کے درمیان ایک بڑا واچ ٹاور ہے جس میں ایک گارڈ بیٹھا جو سب قیدیوں پر نظر رکھتا ہے مگر قیدی گارڈ کو دیکھ نہیں سکتے۔اب آپ big data کی ایک ایسی دنیا کا تصور کریں جہاں ٹیکنالوجی اور مائیکرو چپ کے ذریعے فرد کوکنٹرول کیا جائے گا!گارڈ کی آنکھ ، ڈاکٹر کی آنکھ سے بدل دی جائے گی۔اس لئے ڈاکٹروں کو پیٹنے والی پولیس کو احتیاط کرے !مستقبل میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی طاقت انسان کی آزادی کے لئے نئے مسیحاوں کو جنم دے گی اور پرانے مسیحا ریاستی پولیس بن جائیں گے؟؟
فوکو انسانی تاریخ کو غلبے کی جدو جہد کہتے ہیں ! مارکس کے نزدیک تمام تاریخ دو طبقوں کی جدوجہد کا قصہ ہے، سرمایہ دار یا بورژوا اور مزدور! درمیانے طبقے کو مارکس مزدوروں میں شامل کرتا ہے جن کا سب سے زیادہ استحصال کیا جاتا ہے۔مارکس کے الفاظ میں "بورژوا نے ہر پیشے سے وابستہ احترام، اس پیشے سے چھین لیا ہے۔ انھوں نے ڈاکٹر، وکیل،پادری، شاعر اور سائنسدان کو اپنا تنخواہ دار مزدور بنا دیا ہے”۔اس لئے ڈاکٹروں کو PPE نہیں ملیں گے۔ پولیس کو گاڑیاں ملیں گی کہ ڈاکٹر ریاستی کنٹرول کے نئے اتحادی ہیں اور پولیس صدیوں پرانا آزمودہ ادارہ ہے!لیکن انسانی جسم پر قبضے کی جنگ میں بگ فارما اور ڈاکٹر طاقت کی نئی جدلیات کا حصہ ہو سکتے ہیں! اور اس تناظر میں ڈاکٹروں، وکیلوں اور ملا کی لڑائی سرمایہ دارانہ نظام کی بقا کا تقاضا ہے کہ ان طبقوں کے اتحاد سے نظام خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ڈاکٹروں اور وکیلوں کا یدھ دوبارہ ہو سکتا ہے جب کہ ہندوستانی پنڈت اور پاکستانی ملا تو خیر مسلسل حالتِ جنگ میں ہیں!
صدر ٹرمپ نے جرمنی کی ایک کمپنی سے کورونا کی دوا پر اجارہ داری کے لئے مذاکرات کئے ہیں! ظالم اور جاہل کورونا اب تک غریب اور امیر میں فرق نہیں کر تا اور بورس جانسن، جان محمد اور جیون مل پر بلا تفریق حملہ کرتا ہے لیکن اگر امریکہ کو vaccine پر monopoly حاصل ہو گئی تو جانسن کا جسم محفوظ اور ملکھے ، ملا اور مودی کے غریب اور لاغر جسم خطرے میں ہوں گے! ٹیکنالوجی سے ایک نئی قسم کی غلامی جنم لے سکتی ہے! آزادی، مساوات اور اخوت کے تصور کو انقلابِ فرانس سے نئی زندگی ملی۔ تب کچھ ریڈیکل یہ نعرہ لگاتے تھے: ” No more alms, no more hospitals” ، سماج میں اگر غربت اور بیماری نہ ہو تو خیرات اور ہسپتال کی تقدیس کم ہو جاتی ہے!کہ خیرات پر چلنے والے لنگر اور ہسپتال، غربت اور بیماری کا علاج نہیں، ڈسپرین سے سماج کا درد کم کرتے ہیں! یہ وہ وقت تھا جب ورڈز ورتھ کے الفاظ میں جوان ہونا جنت میں ہونا تھا! مگر اب ہم جس دنیا کی طرف بڑھ رہے ہیں وہ مختلف ہوگی۔ germ wars ، آزادی و غلامی کی نئی شکلیں اور موت کی موت جیسے نئے مباحث کا آغاز ہوگا!
عجب ہے کہ ڈیٹروئٹ سے ڈیرہ غازی خان تک لوگ ایک ہی طرح کی حماقت سے مر رہے ہیں۔ڈیرہ غازی خان میں دس ڈاکٹروں اور چار پیرامیڈکس کا کورونا ٹیسٹ پازیٹیو آیا ہے۔اور ملتان، کوٹ ادو اور ڈیرہ غازیخاں کے ہسپتالوں میں کورونا مریض بھیجے جارہے ہیں۔افلاطونی منطق سمجھ سے باہر ہے! اٹلی میں 70 سے زیادہ ڈاکٹر کارِمسیحائی میں کام آئے ہیں کہ کوئی آدمی اور مسیحا محفوظ نہیں!ایسے میں زندگی کو لمبا سانس لینے کی ضرورت ہے۔آدمی کے واحد مسکن کو سکون درکار ہے۔پرندے اور جانور، آدمی سے معافی کا مطالبہ کرتے ہیں اور گھروں میں بند آدمی کو دیکھنے شہروں میں آنے لگے ہیں۔ مکہ، ہردوار، یروشلم اور ویٹی کن خالی ہیں۔زمین "اشرف لاڈلے” سے نئے معاہدے کا مطالبہ کرتی ہے۔ایسا معاہدہ جو ماحول کا توازن بحال کرے اور زندگی کو اپنے دستِ نمو سے ہرا بھر کر دے!
ہمارا دوست، ابرار احمد ڈاکٹر اور شاعر ہے۔اس کی مسیحائی دو آتشہ ہے کہ وہ زخم جو ڈاکٹروں کے بس کے نہیں، شاعری ان کا اندمال ہے ! ظفر اقبال کہتے ہیں کہ "اس کی نظم اپنے سارے حسن کے ساتھ آپ پر حملہ آور ہوتی ہے اور آپ بچ کر کہیں نہیں جا سکتے”۔ "موہوم کی مہک ” کی نظموں کی کئی جہتیں ہیں جو آپ پر حسن کی طرح دھیرے دھیرے کھلتی ہیں۔ اور انسان محبت کی گداز خوشبو سے بھر جاتا ہے۔آج کے تناظر میں "ہم کیا کریں گے ایوان” کے کچھ حصے دیکھئے:
دن تو گزر گئے
منظر تو بدل گئے
بادلوں سے بارش تو نکل گئی
ہم کن پانیوں میں سفر کریں گے
ہم ان کشتیوں کا کیا کریں گے
جنھیں سمندر نے، ریت پر دھکیل دیا
معبدوں میں ہماری آواز کی گونج
کسی کو نہیں بھائے گی؟
کیا ہمارے گناہوں کی معافی نہیں ہے ایوان؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا ہم کسی مشترکہ زمین پر
کسی بالکونی میں بیٹھ کر
دنیا کو رتھ میں جتا ہوا دیکھ کر
ایک بار پھر مسکرا سکیں گے؟ تیز ہوا میں
چھتریوں کے نیچے
کاتیہ اور تانیہ کو دیکھ کر
ہاتھ ہلا سکیں گے
اپنے پسندیدہ مشروب پی کر
کیا ہم پھر ہنس سکیں گے
رو سکیں گے
میرے ایک دوست،رحیم بخش تھے اور کیا دلبر انسان تھے! وہ ہر بات پہ قہقہے لگاتے اور کبھی ہنستے ہنستے رو دیتے تھے۔ میں ان سے کہتا، یہ کیا تماشا ہے! وہ جواب دیتے، "مجھے کچھ سمجھ نہیں آتا” !کچھ توقف کے بعد وہ بولتے کہ سائیں جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ انھیں سب سمجھ میں آتا ہے ، ان کو کچھ سمجھ نہیں آتا لیکن وہ نہیں سمجھتے !بس اسی بات پہ ہنستا ہوں اور اسی پہ رونا آتا ہے! میرے یار رحیم بخش رخصت ہوتے تو ہمیشہ ایک دعا دیتے ۔وہ انمول دعا کرونا کے خلاف لڑنے والے ایک ایک ڈاکٹر، لیڈی ڈاکٹر اور نرس کے نام :”شالا صحت دی بادشاہی ہووی "۔

%d bloggers like this: