مئی 6, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

امید کا دامن ۔۔۔ گلزار احمد

دوسری ضرب لگا کر فرمایا شام اور المغرب میرے لیے سرنگوں ہو گیے۔تیسری ضرب لگا کر فرمایا خطہ مشرق ایران فتح ہو گیا۔

مسلمانوں کی زندگی کا شعار رہا ہے کہ وہ مشکل ترین حالات میں بھی امید کا دامن تھامے رکھتے ہیں اور اللہ کی رحمت و نصرت سے کبھی نا امید نہیں ہوتے۔یہ تعلیمات مسلمانوں کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زبانی کے ساتھ عملی طور پر کر کے دکھا دیں۔ آئیے تھوڑا غزوہ خندق کے واقعہ پر غور کرتے ہیں۔یہ وہ جنگ تھی جس میں اسلام دشمن طاقتوں نے مسلمانوں کے خلاف ایک متحدہ محاز بنا رکھا تھا۔

ان کا خیال تھا ہم اس طریقے سے مسلمانوں اور اسلام کو ہمیشہ کے لیے صفحہ ہستی سے مٹا ڈالیں گے۔ تمام عرب قبائل اور یہودی طاقتوں نے مجتمع ہو کر مدینے پر حملے کی تیاری مکمل کر لی تھی ۔اب مدینے کے حالات پر غور کریں۔مخالفین کا ٹڈی دل لشکر حملہ کرنے کو تیار کھڑا ہے ۔

خندق کی کھدائی کا مرحلہ بھی باقی ہے۔رفقاء کی قلت ۔ بے سروسامانی کی انتہا ۔فاقہ کشی کا عالم۔منافقین آپکےؐ کے سامنے ہمت شکن عذر پیش کر رہے ہیں۔

مدینہ کے اندر یہودی موجود اور سازشوں میں شامل ہیں۔ انسانی حوصلوں کو دبا دینے والی اس پیچیدہ صورت حال میں اللہ کا رسولؐ اپنے اصحاب کے ساتھ خندق کھودنے میں منہمک نظر آتا ہے اور مایوسی و نا امیدی کا دور دور تک نام و نشان نہیں۔

رسولؐ خدا کی عزیمت و ہمت ۔ نشاط و شگفتگی اور بلند ہمتی و بلند حوصلگی صحابہ کرام ؓ کے لیے مہمیز کا کام کر رہی ہے۔ خندق کی کھدائی کے درمیان کچھ سخت چٹانیں صحابہ کرام سے نہیں ٹوٹ پاتیں۔ رسول خداؐ کدال سے ضرب لگاتے ہیں ۔پہلی ضرب لگا کر فرمایا یمن میرے لیے فتح ہو گیا۔

دوسری ضرب لگا کر فرمایا شام اور المغرب میرے لیے سرنگوں ہو گیے۔تیسری ضرب لگا کر فرمایا خطہ مشرق ایران فتح ہو گیا۔ غور کیجیے انتہائی ناسازگار حالات میں اللہ کے رسول عظیم ملکوں اور شھروں کی فتح کی بشارت اپنے اصحاب ؓ کو سنا رہے ہیں جن ناگفتہ بہ حالات میں بظاہر اپنا دفاع بھی مشکل نظر آتا ہے وہاں رسول ؐ کی نظر دور رس اور نگاہ رجائیت ایران اور شام کو فتح ہوتے ہوے دیکھ رہی ہے۔

رجائیت کا یہی وہ پہلو تھا جو مکہ سے لے کر مدینہ تک اصحاب رسولؓ کو نیا حوصلہ ولولہ اور نئی امنگ دیتا رہا۔
اس سے پہلے جب مکہ سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کی جانب ہجرت کرنے والے تھے تو آپ خانہ کعبہ کو ایک بار دیکھنا چاہتے تھے۔ کعبے سے الوداع کا بھی عجیب منظر ہوتا یہ وہ لوگ جانتے ہیں جو خانہ کعبہ جا کر پھر واپس آنے کے لیے رخت سفر باندھتے ہیں۔

رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کلید بردار کعبہ عثمان بن طلحہ کو کعبے کا دروازہ کھولنے کا کہتے ہیں مگر وہ انکار کر دیتا ہے۔ اس وقت آپ کے دل پر کیا گزری ہو گی اللہ پاک بہتر جانتا ہے مکی دور میں حالات کتنے سخت اور ناسازگار تھے مگر ان تاریک حالات میں بھی آپ نے شمع امید کو ان الفاظ کے ساتھ فروزاں کیا اور فرمایا ۔۔

ایک دن آنے والا ہے جب یہ کنجی ہمارے ہاتھ میں ہو گی اور ہم جسے چاہیں گے اس کے حوالے کریں گے۔اور پھر دنیا نے دیکھا کہ مکہ فتح ہوا اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں کنجی تھی ۔بہت جید صحابہ کرام ؓ کنجی لینے کا تقاضہ کر رہے تھے مگر یہاں درگزر کی ایک عظیم مثال قایم کرتے ہوے کعبے کی کنجی واپس اسی عثمان بن طلحہ کو دے دی۔

صلی اللہ علیہ وسلم۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی رجائیت اور امید کا یہ پہلو پوری امت کے لیے مشعل راہ ہے۔آج پاکستان اور پوری انسانیت مشکل ترین حالات میں گھری نظر آتی ہے لیکن اس میں بھی ان شاء اللہ خیر کا کوئی پہلو سامنے آے گا ۔

ہمیں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسم کی تعلیمات کی روشنی میں صبر۔امید۔اتحاد۔قربانی۔برداشت اور ڈسپلن کا مظاہرہ کرتے ہوے ان مشکلات سے باہر نکلنا ہے اور اللہ کی مدد ان لوگوں کے ساتھ ہوتی ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں۔

%d bloggers like this: