مئی 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

دلی دل والوں کی (قسط15)۔۔۔ عباس سیال

اکیڈمی میں میوزیم ا ور آڈیٹو ریم کے علاوہ اُردو ادب کے قدردانوں کیلئے ایک شاندار لائبریری بھی اکیڈمی کا حصہ ہے

ہوئی مدت کہ غالب مر گیا پر یاد آتا ہے: محبوب الہٰی کے دربار سے باہر نکلتے ہی سیدھے ہاتھ کوئی سو قدم کی دوری پر اُردو، فارسی کے عظیم شاعر اور نثر نگار مرزا نوشہ( اسد اللہ خان غالب ) کا مزار دکھائی دیتا ہے ۔گلی میں آگے آگے چلتے ہوئے تنیجا انکل اچانک مڑ کر مجھ سے مخاطب ہوئے ۔مزارِ غالب پر چلنا ہے؟ ضرورکیوں نہیں۔” آ تیکوں وت غالب دا مزار ڈِکھاواں“ ۔ بھلاہو گا کوئی ایسا بھی کہ غالب کو نہ جانے؟ ۔

ہم دا ہنی جانب ایک چہار دیواری کے آہنی دروازے کے ذریعے اندر داخل ہو گئے مزارِ غالب کے احاطے میں سرخ اینٹوں سے بنے فرش پر قدم رکھتے ہی میرے ذہن کے کسی گوشے میں غالب کا یہ شعر گردش کر رہا تھا ۔

ہوئے مر کے ہم جو رُسوا ، ہوئے کیوں نہ غرقِ دریا

نہ کبھی جنازہ اٹھتا ، نہ کہیں مزار ہوتا

مزار کے احاطے میں دائیں طرف بنی سنگی دیوار کے وسط میں سنگ مرمر کی ایک قدآدم تختی نصب ہے جس پر غالب کے فن اور ان کی شخصیت بارے ہندی، اردو اور انگریزی زبانوں میں چند سطریں کنداں ہیں اوراِسی تختی کی دائیں جانب ایک سیمنٹ کی دیوار پر غالب کا مشہور شعر لکھا ہوا ہے۔

نہ کچھ تھا تو خدا تھا ،کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا

ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

مزارِ غالب کے پورے احاطے میں ہم دونوں کے علاوہ ایک بوڑھی عورت اور ایک جوان لڑکا موجود تھا۔عورت جھاڑو کی مدد سے احاطے کا فرش دھو رہی تھی اوروہ لڑکا پانی کے نل سے بوڑھی عورت کی مدد کر رہا تھا۔ہم نے اُس نوجوان سے پوچھا کہ غالب کے مزار پر روزانہ کتنے لوگ حاضری دیتے ہوں گے ؟یہ سنتے ہی فرش دھوتی عورت نے جھاڑو نیچے رکھی اور کمر سہلاتے ہوئے بولی۔ بابو جی۔ کوئی دس بیس ویکتی (بندے) یہاں روز آجاتے ہیں ورنہ مجار شانت رہتا ہے۔ اردو، فارسی کے عظیم شاعر اور منفرد نثری اسلوب رکھنے والی قدآور شخصیت کے مزار کی حالتِ زار دیکھ کر انتہائی افسوس ہوا۔بوڑھی عورت جھاڑو اُٹھا کر فرش دھونے لگی اور ہمارے قدم سنگ مرمر سے بنی ایک چھوٹی عمارت کی طرف اٹھ گئے۔

ہوئی مدت کہ غالب مر گیا پر یاد آتا ہے

وہ ہر اک بات پر کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا؟

قبر پر سرخ،ہری اور پیلے رنگ کی ر یشمی چادریں چڑھی تھیں، جنہیں دیکھ کر گمان ہوتا تھا کہ شاید کوئی عقید ت مند بھولے سے ان چادروں کو قبر پر رکھ گیا ہو گا۔ چھوٹی سی ڈربہ نما عمارت کے اندر بنی قبر کے پہلو میں بیٹھتے ہی ایسا لگا کہ جیسے کسی نے یہاں غالب کو جبراً قید کرکے موت کی نیند سلا رکھا ہو۔ گویاکسی نے غالب کو اس خیال سے یہاں جکڑ رکھا ہو کہ کہیں وہ احتجاجاً قبر سے نکل کردیوان ِغالب ہاتھ میں پکڑے چیخ چیخ کر اپنی بے بسی، غربت ، افلاس،کسمپرسی اوراپنے مزار کی رسوائی کا نوحہ پڑھنے نہ بیٹھ جائے ۔

ہو چکیں غالب بلائیں سب تمام

ایک مرگِ ناگہانی اور ہے

کہتے ہیں کہ دلی شہر میں غالب کی کوئی ذاتی جائیداد نہیں تھی، آبائی قبرستان آگرہ میں تھا،اسی لئے بستر علالت پر وصیت چھوڑی کہ مرنے کے بعد انہیں سسرالی قبرستان واقع بستی حضرت نظام الدین اولیاءمیں دفن کیا جائے۔ غالب کی موت کے ایک سال بعد اُن کی بیوی امرا ¶ بیگم بھی وفات پا گئیں جنہیں غالب کے پہلو میں سلا دِیا گیا ۔مزار کے اردگرد غالب کے رشتے داروں کی قبریں موجود ہیںجس میں اُن کی بیگم امراﺅ جان کے بھانجے زین العابدین عارف کی قبر نمایاں ہے ۔ کہتے ہیں کہ غالب کے سات بچے پیدا ہوئے جو سب بچپن میں ہی فوت ہو گئے،تب انہوں نے اپنی بیوی کے بھانجے عارف کو اپنا بیٹا بنا لیا تھا۔عارف کی جوانمرگی پر غالب نے اردو کا شاہکار مرثیہ (نوحہ)کہا تھا۔

لازم تھا کہ دیکھو مرا رستہ کوئی دن اور

تنہا گئے کیوں؟ اب رہو تنہا کوئی دن اور

جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے

کیا خوب ! قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور

ہاں اے فلکِ پیر! جواں تھا ابھی عارف

کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور

غالب سوسائٹی نے ایک ظلم یہ کیا کہ جب غالب کا مزار تعمیر کیا تو امراﺅ بیگم کی قبر کو مزار کی چادر دیواری میں شامل نہ کیا۔یہ حقیقت ہے کہ غالب کے ازدواجی تعلقات عمر بھر کشیدہ رہے تھے مگر ظالم دنیا داروں نے دونوں کی موت کے بعد بھی انہیں ایک ساتھ اکٹھا کرنے کی بجائے بیچ میں مزار کی دیوار حائل کرکے تا ابد انہیں جدا کر دیا ۔ کہتے ہیں کہ غالب کے شاگرد الطاف حسین حالی جب تک زندہ رہے ، اپنے استاد کی قبر پر بلا ناغہ حاضری دیا کرتے تھے ۔ وہ کچی قبر کی مٹی درست کرتے،اُس پرپانی کا لیپ چڑھا تے ،تازہ پھول رکھتے اور دعائے مغفرت پڑھ کر واپس چلے جاتے تھے۔ پورے احاطے میںایک عجیب قسم کی اداسی اور ویرانی کا اثر نمایاں تھا، تاجدارِ اُردو کی قبر پر دعا ئیںمانگنے کے بعد افسرد ہ خیالات لئے ہم باہر نکل آئے۔

ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن

خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک

مزارِ غالب سے باہر قدم رکھتے ہی انکل تنیجا نے چونسٹھ کھمبوں کے بارے میں دریافت کرنے پر بتایا کہ غالب کے مزار کی پشت پر ایک بڑے سے احاطے میں چونسٹھ کھمبے ہیں،یہ دراصل سنگ مرمر کے ستون ہیں جن پر گنبد بنائے گئے ہیں اور اندر مرزا عزیز کا مزار واقع ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ شہنشاہ اکبر کے دودھ شریک بھائی تھے ۔ اپنے بھائی کا مزار اور چونسٹھ کھمبے(ستون) اکبر نے بنوائے تھے ۔

غالب اکیڈمی: مزارِ غالب سے متصل ایک پرشکوہ عمارت کے ماتھے پر اُردو میں آویزاں ”غالب اکیڈمی“ لکھا دکھائی دیا، ہم جیسے ہی عمارت کی سیڑھیاں چڑھ کر اندر داخل ہوئے، سامنے کی دیوار پرلگے ایک نوٹس بورڈ پر اکیڈمی میں منعقدہ تقریبات کی تصو یری جھلکیاں دیکھنے کو ملیں، وہاں سے سیدھے ہاتھ اکیڈمی کے سیکرٹری ڈاکٹر عقیل احمد کا دفتر واقع ہے۔ ڈاکٹر صاحب اپنے کمرے میں موجو دتھے، وہ بڑے خلوص اور محبت سے ملے اور اکیڈمی کی تاریخ کے بارے میں بتایا کہ غالب اکیڈمی اور غالب سوسائٹی دراصل ہمدرد دواخانے کے بانی حکیم عبدالحمید کا دیرینہ خواب تھاکہ غالب کی زندگی کے روزو شب، نجی امور اور اُن کے کلام کو اکھٹا کرکے اس پر تحقیقی کام کیا جائے، ساتھ ہی عقب میں واقع مزار ِغالب کی صفائی ستھرائی، مرمت اور تزئین و آرائش کے کام کی بھی نگرانی کی جائے۔

غالب اکیڈمی مرزا غالب کی زندگی، شخصیت اورفن کے مختلف گوشوں اور پہلو ¶ں پر دن رات کام کررہی ہے۔ اگرچہ اس ادارے کو سرکار کی طرف سے کسی قسم کی مالی معاونت نہیں ملتی مگر اس کے باوجود اپنی مدد آپ کے تحت اکیڈمی اب تک غالب کے فن، شخصیت اور زندگی پر متعدد کتابیں شائع کر چکی ہے اوراردو ادب کی کئی قدآور شخصیات پر بھی سیمینار منعقد کروا چکی ہے۔ اسی سلسلے کا ایک کُل ہند سیمینار کل منعقد کیا جا رہا تھاجس میں علامہ شبلی نعمانی کے حوالے سے مقالے پیش کئے جانے تھے ۔ انہوں نے اپنی میز کی دراز کھول کر ایک دعوت نامے پر میرا نام لکھا اور مجھے دیتے ہوئے تاکید کی کہ اگر ممکن ہو سکے تو دوستوں کے ہمراہ سیمینار میں شرکت کو یقینی بنائیں کیونکہ اس قسم کی تقریبات میں ہندوستان بھر کے اردو، ہندی سکالرز اور ادیب شرکت کرتے ہیں۔مجھے ڈاکٹر صاحب کو پیشگی دِلی معذرت کے ساتھ عدم شرکت کی اصل وجہ بتانا پڑی کہ کل لودھی روڈ دلی پر واقع انڈین اسلامک کلچرل سنٹر میں ہولی کی ایک تقریب میں بطورِ مہمان شرکت کا دعوت نامہ ملا ہے، چونکہ اِسلامک کلچرل سوسائٹی کے آرگنائزر جگدیش بترا صاحب نے دیوالی ملن پارٹی کا پروگرام ترتیب دے رکھا ہے جس میں شرکت کی پہلے سے حامی بھرچکا ہوں اور اگر میں وہاں نہ پہنچ پایا تو سمجھئے کہ دِلی سے میرا زندہ بچ نکلنا مشکل ہو جائے گا۔ہلکی سی مسکان کے ساتھ انہوں نے میرا معذرت نامہ قبول کر لیا۔

ڈاکٹر عقیل کے آفس میں ہی ایک نوجوان لڑکے سے ملاقات ہوئی جو صاف اور شستہ لب و لہجے میں اُردو بول رہے تھے۔ تعارف ہونے پر معلوم ہوا کہ اُن کا پورا نام ”پردیپ شرما خسرو نظامی چشتی دہلوی خسروی“ ہے۔ وہ ذات کے برہمن مگر اندر پورے سیکولر ہیں اُنہیں علم و اد ب اور موسیقی سے عشق ہے بلکہ امیرخسرو سے انہیں اندھی عقیدت ہے اور یہ واحد اُنہی کی درگاہ ہے جہاں سے انہیں اِتنا دلی سکون ، طمانیت، روحانی فیض اور سرشاری ملتی ہے کہ لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں۔پردیپ شرما نے امیر خسرو کے موضوع پر چھپی کوئی ایک ہزار کتابوں کے نسخے اکٹھے کر رکھے ہیں، جس میں مثنوی، غزلیں،ردیف،دیوان، خمسہ،پرانے رسالوں کے خسرو نمبر وغیرہ سبھی شامل ہیں،اس کے علاوہ اُس کے پاس امیر خسرو کے کلام کی سینکڑوں آڈیو ریکارڈنگز بھی موجو دہیں۔وہ امیر خسرو کے فن پر کئی کتابیں لکھ چکے ہیں اورخسرو کے فارسی مثنویوں کے چھ ہزار صفحات کو اردو میں ترجمہ کروانے کے بعد شائع کروانے کا ارادہ باندھے بیٹھے ہیں بلکہ دو ہزار مثنویوں کو انگریزی میں ترجمعہ کروا کے چھپوا بھی چکے ہیں۔ڈاکٹرعقیل صاحب کے سامنے بیٹھے خسرو کے عاشق پردیپ کا دعویٰ تھا کہ پاک و ہند کے کسی پرائیویٹ وسرکاری ادارے،کسی یونیورسٹی نے آج تک امیر خسرو پر اتنا تحقیقی کام نہیں کیا ہو گا جتنا وہ نجی طور پر سرانجام دے چکے ہیں۔ڈاکٹر عقیل نے بھی اس دعوے کی تصدیق کی۔باتوں کے دوران جب پردیپ کو علم ہوا کہ میرا تعلق پاکستان کے سرائیکی علاقے سے ہے تو وہ ایک دم بول اٹھے۔میں گزشتہ کئی مہینوں سے کسی ایسے شخص کی تلاش میں تھا جو پاکستانی ہو اور جس کا تعلق ملتان سے ہو۔تلاش اور جستجو کی وجہ پوچھنے پر پردیپ نے بتایاکہ حضرت امیر خسرو پانچ برس ملتان میں رہے اور وہاں پر مختصر قیام کے دوران انہوں نے سندھی، ملتانی اور پنجابی زبانیں سیکھیں، غالباًملتانی یا پنجابی زبان کی پہلی مثنوی انہوں نے ملتان میں بیٹھ کر لکھی، میں اُس مثنوی کے پیچھے کافی بھاگا مگر افسوس کہ ابھی تک تہی دامن ہوں، مجھے وہ مثنوی مل نہیں پا رہی اورچند دوستوں کی زبانی معلوم ہوا ہے کہ ا س مثنوی کا نسخہ ملتان میں حضرت بہا ¶الدین زکریا کی خانقاہ میں محفوظ ہے۔انکل وجے کمار نے پردیپ کو جگدیش بترا کا فون نمبر دیتے ہوئے ہدایت کی کہ وہ اُن سے رابطہ کرے کیونکہ جگدیش بترا ملتانی ادیبوں سے مسلسل رابطے میں رہتے ہیں ہو سکتا ہے کوئی سبیل نکل آئے ۔ پردیپ نے اس خوشی میں حضرت امیر خسرو کا کلام گا کر سنایا۔

چھاپ تلک سب چھین لی نی ر ے موسے نیناں مِلائی کے۔اپنی ہی کر لی،نی رے موسے نیناں مِلائی کے۔ پریم بھٹی کا مدھوا پلا ئی کے۔متوالی کر لی، نی رے موسے نینا مِلائی کے۔خسرو نظام کے بل بل جا ¶ں۔اپنے ہی رنگ میں رنگ لی، نی رے موسے نیناں مِلائی کے۔

پردیپ شرما واقعی جذباتی انسان ہیں جو عرصہ پندرہ سال سے امیر خسرو پر مسلسل تحقیقی کام کر رہے ہیں۔ جب اُن سے دِلی آشا پوچھی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ میری صرف دو آشائیں ہیں۔ پہلی کہ حضرت امیر خسرو پر اتنا کام کر جا ¶ں کہ پاک و ہند کے لوگ مجھے خسرو کے حوالے سے یاد رکھیں، دوسری آشا اگر میرا بس چلے تو میں دونوں دیشوں کے سیاستدانوں کو غائب کرواکر بیچ میں امیر خسرو کو کھڑا کر دوں جو دونوں دیشوں کے درمیان پل بن جائے۔ پردیپ شرما کی معصومانہ خواہش پر ڈاکٹر عقیل سمیت ہم سب کھلکھلا کر ہنس پڑے اور پھر وہاں سے اکیڈمی کو اندر سے کھوجنے کی جستجو لئے پردیپ کے ہمراہ اکیڈمی کی سیڑھیاں چڑھ کر بالائی کمروں میں گئے۔ غالب اکیڈمی واقعی عہدِ غالب کی عکاس ہے،جہاں غالب اور اس کے ہمعصر اکابرین کی بڑی تصاویر کو فریموں میں لگا کر دیواروں پر نصب کر دیا گیا ہے،خاص کر دِلی کے وہ علاقے جہاں غالب سکونت پزیر رہے تھے ،اس کے علاوہ غالب کا مجسمہ، ملبوسات، شطرنج، جوتے، چھڑی اور ان کی مرغوب غذا ¶ ں کو بھی میوزیم کی زینت بنایا گیا ہے۔ یہاں عہد غالب کے سکے، مہریں، ڈاک ٹکٹیں اور ان کے ہاتھ سے لکھے خطوط بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔غالب کے اشعار پر مبنی پینٹنگز، اشعارغالب پر بنائے گئے برجیندر سیال کے چھوٹے سنگریزے کسی شاہکار کی طرح شوکیسوں میں سجا کر رکھے گئے ہیں۔

اکیڈمی میں میوزیم ا ور آڈیٹو ریم کے علاوہ اُردو ادب کے قدردانوں کیلئے ایک شاندار لائبریری بھی اکیڈمی کا حصہ ہے جہاں پر اردو کے جرائد و رسائل، کتابیں، روزنامے اور ہفت روزہ اخبارات پڑھنے والوں کیلئے مفت میں دستیاب ہیں۔ غالب اکیڈمی کے زیر اہتمام ’جہانِ غالب‘ کے نام سے ایک ششماہی جریدہ بھی مسلسل شائع کیا جارہا ہے۔ اکیڈمی کی تیسری منزل پرمختلف زبانوں میں غالب پر تحقیقی کام کی ترویج واشاعت کا شعبہ قائم کیا گیا۔تحقیقی کمرے کے ایک کونے میں بیٹھے چوہدری وہاج احمد اشرف نامی باریش شخص سے بھی ملاقات ہوئی جو اردو، فارسی، انگریزی اور ہندی زبانوں پر مکمل عبور رکھتے ہیں اور اکیڈمی میںمترجم، مصور، خطاط کے طور پر کام کررہے ہیں۔اشرف صاحب غالب کے کسی فارسی کلام کا اردو میں ترجمعہ کرنے میں مصروف تھے۔غالب اکیڈمی کے سیکرٹری ڈاکٹر عقیل احمد، مترجم وہاج اشرف اور پردیپ شرما سے اجازت مانگنے کے بعد ہم بستی نظام الدین سے باہر نکل آئے۔اب ہمارا رُخ شہنشاہ ہمایوں کے مقبرے کی جانب تھا۔

یہ بھی پڑھئے: دلی دل والوں کی (قسط14)۔۔۔ عباس سیال


مصنف کا تعارف

نام:  غلام عباس سیال

 تاریخ پیدائش:  دس جنوری 1973
 مقام پیدائش:  ڈیرہ اسماعیل خان
 تعلیم:  ماسٹر کمپیوٹر سائنسز، گومل یونیو رسٹی، ڈیرہ اسماعیل خان 1997
ٍ  ماسٹر انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ منیجمنیٹ، سڈنی یونیورسٹی، آسٹریلیا2009
 ڈپلومہ اِن جرنلزم، آسٹریلین کالج آف جرنلزم2013
 عرصہ 2005ء سے تاحال آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں مقیم۔
کتابیں
 ۱۔ خوشبو کا سفر    (سفرنامہ حجا ز)  دوبئی سے حجاز مقدس کا بائی روڈ سفر۔  اشاعت کا سال 2007۔
پبلشر: ق پبلشرز، اسلام آباد۔
۲۔  ڈیرہ مُکھ سرائیکستان (موضوع:  سرائیکی صوبے کے حوالے سے ڈیرہ اسماعیل خان شہر کی سیاسی، سماجی اور ثقافتی اہمیت)۔ اشاعت کا سال 2008،   پبلشر: جھوک پبلشرز، ملتان۔
 ۳۔  گُلی کملی کے دیس میں (موضوع: صوبہ سرحد کے پرامن شہر ڈیرہ اسماعیل خان شہر میں اَسی، نوے کی دھائی کا آنکھوں دیکھا حال)،سن اشاعت  2010: پبلشر: ق پبلشر، اسلام آباد
۴۔  کافر کوٹ سے قلعہ ڈیراول تک  (سفرنامہ)  ڈیرہ اسماعیل خان کے تاریخی مقام کافر کوٹ سے بھکر، لیہ، مظفر گڑھ، ملتان، بہاولپور اور چولستان کے قلعہ ڈیراول تک کا سفر۔  سن اشاعت  2011۔ پبلشر:  جھوک پبلشرز، ملتان
۵۔  ذائقے فرنٹئیر کے (تقسیم ہند سے قبل صوبہ سرحد کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان کے کھانوں پر ہندی میں لکھی کتاب کا اردو ترجمہ) ۔  یہ کتاب مارکنگ پبلشرز، کراچی  سے بیک وقت ہندی، اردو میں شائع ہوئی تھی۔ دائیں طرف اردو، بائیں طرف ہندی تھی اور دراصل اس کتاب کی مصنفہ پُشپا بگائی تھیں، جن کا بچپن ڈیرہ اسماعیل خان میں گزرا تھا اور وہ تقسیم کے بعد دہلی ہجرت کر گئی تھیں۔ انہوں نے ہندی زبان میں ڈیرہ اسماعیل خان کے لذیذ کھانوں پر کتاب لکھی تھی اور ان کی موت کے بعد اس کے بیٹے اتل بگائی  جو  بنکاک میں  مقیم ہیں اور یو این او میں  جاب کرتے ہیں۔  انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ اپنی والدہ کی کتاب کو اردو، ہندی دونوں زبانوں میں چھپوانا چاہتے ہیں۔ ہندی نسخہ انہوں نے مجھے بھیجا تھا۔ سڈنی میں ایک بزرگ  ہندو  شری لچھمن ٹُھکرال نے ہندی سے اردو ترجمعہ کرنے میں پوری مدد کی تھی اور پھر  اتل بگائی نے کتاب کو  کراچی سے چھپوایا تھا۔کتاب کو چین کے انٹرنیشنل بُک فئیر میں  امن کے مشترکہ ایوارڈ (پاکستان و ہندوستان)  سے نوازا گیا تھا۔ سال اشاعت 2013،  ناشر:  مارکنگز پبلشنگ کراچی
۶۔  جو ہم پہ گزری۔   (موضوع:  پاکستان ٹیلی ویژن کی نامور فنکارہ عظمیٰ گیلانی کی زندگی اور ان کے کیرئیر پر لکھی کتاب، جسے اباسین آرٹ کونسل پشاورکے 2013-2014  کے ادبی ایوارڈ(تحقیق و تالیف کے جسٹس کیانی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا)۔سن اشاعت: جنوری 2014۔ پبلشر: ق پبلکیشنز، اسلام آباد
۷۔  برٹش عہد 1893 ء  میں کمشنر ڈیرہ اسماعیل خان مسٹر ٹکر کے لکھے ہوئے گزیٹئیر ڈیرہ اسماعیل خان کا اردو ترجمعہ۔
اشاعت  2015  ۔   ناشر:  ق پبلکیشنز، اسلام آباد
۸۔  انگریز محقق  ٹی ڈبلیو ایچ ٹولبوٹ کی لکھی کتاب  دا  ڈسٹرکٹ  آف ڈیرہ اسماعیل خان  ٹرانس انڈس 1871،   کا اردو ترجمعہ۔  اشاعت  2016۔   پبلشر: سپتا سندھو  پبلکیشنز، ڈیرہ اسماعیل خان
۹۔  دِلی دل والوں کی (سفرنامہ دِلی)   سڈنی سے نئی دہلی تک کا سفر۔  اشاعت  اگست2018۔
پبلشر:  ق  پبلکیشنز، اسلام آباد

%d bloggers like this: