اپریل 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

نامور سرائیکی کہانی کار ظفر لاشاری انتقال کرگئے

ظفر لاشاری کا انتقال آج ان کے آبائی علاقے محراب والا تحصل احمد پور شرقیہ ضلع بہاول پور میں ہوا

صدارتی ایوارڈ یافتہ پہلے سرائیکی ناول نگار، ممتاز دانشور ، مصنف اور ادیب ظفر محمود لاشاری جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے

ظفر لاشاری کا انتقال آج ان کے آبائی علاقے محراب والا تحصل احمد پور شرقیہ ضلع بہاول پور میں ہوا۔

ظفر لاشاری کے  کے پہلے شہرہ آفاق ناول کا نام نازو تھا ۔

ظفر لاشاری بہاول پور پریس کلب کے فنانس سیکرٹری و روہی ٹی وی کے پروگرام کھیت کھلیان کے معروف اینکر و سینئر صحافی اطہر محمود لاشاری  ، معلم مستنصر محمود لاشاری اور انجینئیر غضنفرمحمود لاشاری کے والد گرامی  تھے ۔

9 دسمبر 1948ء کو احمد پور شرقیہ کے نواحی علاقے محراب والا میں پیدا ہونے والے ظفر محمود لاشاری کے والد محمد ابراہیم خان ویٹرنری ڈاکٹر تھے، ظفر محمود لاشاری نے ابتدائی تعلیم احمد پور شرقیہ سے حاصل کی، 1967ء میں میٹرک کیا، ایس ای کالج بہاول پور میں ایف ایس سی کے لئے داخلہ لیا لیکن بیماری کی وجہ سے تعلیم ادھوری چھوڑ دی، میٹرک کے بعد چنی گوٹھ میں پی ٹی سی ٹیچر کے طور پر اپنی ملازمت کا آغاز کیا۔ اس دوران اپنی تعلیم جاری رکھی، پرائیویٹ طور پر ایم اے پنجابی، ایم اے سرائیکی اور ایم ایڈ کیا، پی ٹی سی ٹیچر سے ترقی کرتے ہوئے مڈل سکول کے ہیڈماسٹر بعدازاں ایس ایس ٹی کے طور پر 2008ء میں ریٹائرڈ ہوئے۔

ظفر محمود لاشاری کو سرائیکی زبان میں سب سے پہلا ناول نگار ہونے کا اعزاز حاصل ہے، ظفر محود لاشاری کا پہلا ناول "نازو” 1971ء میں سرائیکی ادبی مجلس بہاول پور کے زیر اہتمام شائع ہوا۔ تقسیم ہند کے پس منظر میں لکھا گیا یہ ناول 1975ء سے 1985ء تک پنجاب یونیورسٹی لاہور کے ایم اے پنجابی کے نصاب میں پڑھایا جاتا رہا۔ ظفر محمود لاشاری کا دوسرا سرائیکی ناول "پہاج” 1987ء میں پنجابی ادبی بورڈ کے زیر اہتمام شائع ہوا۔ اس ناول کا آدھا حصہ بی اے کے سرائیکی نصاب میں شامل ہے جبکہ مکمل ناول اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کے ایم اے سرائیکی کے نصاب میں شامل ہے۔

ظفر محمود لاشاری کا ناول "پہاج” 1974ء سے 1980ء تک ماہنامہ "سرائیکی ادب” ملتان میں 40 اقساط میں بھی شائع کیا گیا۔ ظفر محمود لاشاری نے سرائیکی افسانہ نویسی سے اپنے ادبی کیریئر کا آغاز کیا، ان کا افسانوں کا مجموعہ "تتیاں چھاواں” کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔

اس کے علاوہ خطے کے نامور سرائیکی شاعر حضرت جانباز جتوئی پر ان کی کتاب "جانباز جتوئی: حیاتی تے فن” کے نام سے شائع ہو چکی ہے۔ ظفر محمود لاشاری نے پنجاب یونیورسٹی لاہور کے زیر اہتمام ایم ایڈ کے لئے جو مقالہ لکھا، اسے بھی پنجابی ادبی بورڈ نے "خواجہ فرید کے تعلیمی نظریات” کے نام سے شائع کیا۔”سرائیکی لوک سہرے” ظفر محمود لاشاری کی مرتب کردہ ایسی کتاب ہے جس میں صدیوں پرانے سرائیکی سہرے شامل کئے گئے ہیں۔

اہم ترین ثقافتی مواد پر مشتمل اس گرانقدر کتاب کو "لوک ورثہ اسلام آباد” نے شائع کیا ہے۔ یہ کتاب بھی اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کے ایم اے سرائیکی کے نصاب میں شامل ہے۔

ظفر محمود لاشاری نے اپنے ادبی کیریئر میں سٹیج ڈرامے بھی لکھے۔ ظفر محمود لاشاری کو یہ اعزاز بھی حاؒصل ہے کہ انہوں نے 1989ء میں ایم اے سرائیکی کا امتحان دیا تو ایک سوال میں ناول "نازو” کے کرداروں پر تبصرہ کرنے کو کہا گیا۔

اسی طرح 1990ء میں ایم اے پنجابی کیا تو اس بار بھی امتحان میں ایک سوال ان کے ناول کے حوالے سے ہی کیا گیا۔

%d bloggers like this: