مئی 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پاکستان میں دستیاب صحت کی سرکاری سہولیات

بلوچستان کے اسپتالوں میں بیڈز کی تعداد چھ ہزار ہے۔۔ چار ہزار تین سو پچیس ڈاکٹرز اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔۔

آبادی کے لحاظ سے بڑے صوبہ پنجاب میں صرف تئیس ٹیچنگ اسپتال قائم ہیں،،، صوبے کے باسیوں کو اضلاع اور تحصیل سطح پر صحت کی سہولیات فراہم کرنے کیلئے کتنے اسپتال اور ڈاکٹر موجود ہیں  تفصیلات درج ذیل ہیں۔

پنجاب میں سرکاری اسپتالوں کی تعداد شہریوں کے لیئے ناکافی، مجموعی طور پر صوبہ میں تئیس ٹیچنگ اسپتال ہیں، ڈسٹرکٹ ہیڈ کواٹر اسپتالوں کی تعداد چونتیس اور اٹھاسی تحصیل ہیڈ کوارٹر اسپتال ہیں،، دیہاتوں میں رہائش پذیر ستر فیصد آبادی کے لئے صرف دو سو ترانوے رورل ہیلتھ سینٹرز قائم ہیں، مجموعی طور پر اسپتالوں میں چوبیس ہزار چھ سو تئیس بیڈز دستیاب ہیں

صوبے کی آبادی گیارہ کروڑ بارہ ہزار چار سو بیالیس نفوس پر مشتمل ہے، جبکہ تمام اسپتالوں میں ستاون ہزار آٹھ سو پچاس ڈاکٹرز فرائض سر انجام دے رہے ہیں، یوں انیس سو ایک افراد کیلئے ایک ڈاکٹر تعینات ہے،، امراض خواتین کیلئے سات ہزار چار سو چھ گائناکالوجسٹس،، بچوں کیلئے چھ ہزار سات سو ڈاکٹرز ہیں، جنرل فزیشن کی تعداد سولہ ہزار نو سو اور جنرل سرجنز گیارہ ہزار دو سو ہیں

ایک لاکھ بائیس ہزار پانچ سو سڑسٹھ پیرامیڈیکس خدمات سرانجام دینے میں مصروف ہیں،، انتہائی حالت نازک میں لائے جانیوالے مریضوں کے لئے صوبہ بھر کے اسپتالوں میں صرف آٹھ سو سڑسٹھ وینٹی لیٹرز دستیاب ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کراچی سمیت سندھ بھر کی آبادی لگ بھگ 4 کروڑ 78 لاکھ ہے۔۔  مگر صوبے بھر کے 2970 سرکاری اسپتالوں اور صحت مراکز میں بستروں کی تعداد محض 17 ہزار ہے۔۔ جبکہ 15 ہزار ڈاکٹرز اور تیس ہزار سے زائد پیرامیڈیکل اسٹاف وہاں  کام سرانجام دے رہا ہے۔۔ کراچی میں واقع سول اسپتال کا واحد برنس سینٹر صوبے بھر  کے جھلسے ہوئے مریضوں کا بوجھ اٹھاتا ہے۔۔ صوبے کے سرکاری اور نجی اسپتالوں میں تقریبا سو وینٹی لیٹرز موجود ہیں۔۔۔

سندھ کی آبادی چار کروڑ 78 لاکھ ہے۔جہاں سرکاری اسپتالوں میں سہولیات نا ہونے کے برابر ہیں۔ بستروں سے لیکر ڈاکٹرز اور دیگر عملے تک کی کمی ہے ۔

اعداد و شمار کے مطابق صوبے بھر میں 2970 اسپتال اور صحت مراکز موجود ہیں۔ جہاں بستروں کی مجموعی تعداد  17 ہزار کے قریب ہے۔۔

محکمہ صحت کے ماتحت صوبے میں 7 ٹیچنگ اسپتال موجود ہیں۔ سول اسپتال کراچی میں 18 سو ، جناح اسپتال میں 17 سو ، ادارہ برائے امراض اطفال میں 8 سو ، لیاری اسپتال میں 5 سو ، ادراہ برائے امراض قلب میں 7 سو پچاس ، حیدر آباد لمس ٹیچنگ اسپتال میں 14 سو جبکہ بلدیہ عظمی کراچی کے ماتحت چلنے والے عباسی شہید اسپتال میں ایک ہزار بستر موجود ہیں۔۔۔

محکمہ صحت سندھ کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ صوبے میں 15 ہزار سرکاری ڈاکٹرز اور 30 ہزار سے زائد پیرامیڈیکس  ہیں۔۔یوں اوسطا صوبے کے دس ہزار افراد کے لیے 3 ڈاکٹرز اور 6 پیرامیڈیکس موجود ہیں۔عالمی ادارہ صحت کے معیار پر پورا اترنے کے لیے 6 سو افراد کے لیے ایک فزیشن اور دس ہزار افراد کے لیے اوسطا 17 ڈاکٹرز کا ہونا ضروری ہے۔

افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ شہر کے سرکاری اور نجی اسپتالوں میں مجموعی طور پر صرف دوسو وینٹی لیٹرز موجود ہیں۔ جن کی تعدادماہرین کےمطابق سات سوسے ایک ہزار تک ہونا ضروری ہے۔۔

صوبے بھر میں جھلس جانے والے افراد کے علاج کے لیے صرف ایک اسپتال کراچی میں موجود ہے۔۔جہاں موجود بیڈز کی تعداد صرف چالیس ہے۔۔

سرکاری اسپتالوں میں بستروں کی یہ تعداد بیس سال پرانی ہے۔ صوبے کی آبادی کے لحاظ سے سہولیات میں اضافہ نہیں کیا جاسکا ہے۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خیبرپختون خوا میں کورونا وائرس کی روک تھام کے لئے مختلف اسپتالوں میں ایک ہزار سے زائد آئسولیشن بیڈز مختص کئے گئے ہیں۔ ہیلتھ ڈائریکٹوریٹ خیبر پختونخوا کے اعداد و شمارکے مطابق صوبے میں 15 سو سے زائد چھوٹے بڑے اسپتال اور مراکز صحت موجود ہیں۔۔

خیبرپختون خوا کے ہیلتھ ڈائریکٹوریٹ کے اعداد و شمارکے مطابق صوبے میں 9 بڑے ٹیچنگ اسپتال موجود ہیں۔۔ کیٹیگری بی میں تیرہ، کیٹیگری سی میں چھبیس اور ڈی میں 63اسپتال شامل ہیں۔۔

سرکاری اسپتالوں میں اس وقت 8ہزار سے زائد کوالیفائیڈ ڈاکٹرز خدمات انجام دے رہے ہیں تو وہیں 20ہزار سے زائد سرکاری  پیرا میڈیکل اسٹاف اور 6 ہزار کے قریب سرکاری اور 3 ہزار پرائیویٹ نرسز بھی موجود ہیں۔۔ سرکاری اسپتالوں میں مریضوں کے لئے 23ہزار بستر موجودہیں۔۔

سرکاری اسپتالوں میں آئی سی یو بیڈز کی تعداد 100 سے بھی کم ہے۔۔  مالاکنڈ ڈویژن میں ایک بھی آئی سی یو بیڈ موجود نہیں ، خیبر پختونخوا دوہزار سترہ مردم شماری کے مطابق ضم شدہ اضلاع سمیت خیبرپختون خوا کی آبادی 4 کروڑ سے زائد ہے ، اس حساب سے 6500 سے زائد افراد کے لئے محض ایک کوالیفایڈ ڈاکٹر دستیاب ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسلام آباد کے پولی کلینک ہسپتال میں کام کرنے والے ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل سٹاف کی تعداد کل 729 ہے۔۔۔ایف جی ایچ اسپتال میں ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف کی تعداد 158 ہے۔۔۔اسلام آباد کے پمز اسپتال میں کام کرنے والے 448 ڈاکٹرز اور 309 پیرا میڈیکل سٹاف ہیں۔

اسلام آباد کے پولی کلینک ہسپتال میں کام کرنے والے ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل سٹاف کی تعداد کل 729 ہے۔۔۔ اسپتال میں کوئی گزٹڈ کنٹریکٹ یا ایڈہاک پر کام نہیں کر رہا ۔۔۔ نان گزٹڈ کنٹریکٹ ملازمین 16 ہیں جو وزیراعظم اسسٹنٹ پیکیج پر کام کر رہے ہیں۔

اسلام آباد کے ایف جی ایچ اسپتال میں ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف کی تعداد 158 ہے ۔۔  نئے12  محکموں کے قیام کے لیے 52 کنال زمین حاصل کی جائیگی ۔۔ ڈیزائن کے مطابق سول ورکس پر آنے والی لاگت 2 ہزار فی مربع فٹ ہے ۔ مجموعی طور پر 718 ملازمین اس منصوبے کے لیے درکار ہے ۔۔ اسٹاف کی سالانہ  تنخواہوں کے لیے  353 اعشاریہ 6 ملین روپے اور مالی وسائل کے 581 اعشاریہ 5 ملین روپے درکار ہیں ۔۔ ایف جی پی سی کی آپ گریڈیشن کے پی سی ون پر کام ہو رہا ہے۔۔۔ پی سی ون کی منظوری سے اسپتال کی طبعی خدمات میں بہتری ممکن ہے

اسلام آباد کے پمز اسپتال میں کام کرنے والے 448 ڈاکٹرز اور 309 پیرا میڈیکل سٹاف ہیں ۔۔ او پی ڈی اور چلڈرن اسپتال کے وارڈز اور ایم سی ایچ کہ تزئین و آرائش پر پی ڈبلیو ڈی کے تعاون سے کام جاری ہے ۔۔ این آئی آر ایم کی بہتری ، سامان کی تبدیلی اور بستروں کی تعداد 160 سے 3 سو تک بڑھانے کے لیے منصوبہ بندی جاری ہے ۔۔

اسلام آباد کے نیرم میں 47 ڈاکٹرز اور 34 پیرامیڈیکل سٹاف ہیں ۔ نئی حاصل کی گئی 4167 مربع گز اراضی پر ایک کثیر المنزلہ عمارت تعمیر کی جائیگی۔۔ عمارت کا پی سی ٹو منظور ہو چکا ہے اور پی ڈبلیو ڈی بولی منعقد کروا چکا ہے۔۔ اس عمارت میں نیورالوجی،آرتھوسز،پراتھیسز،ڈینٹل سرجری اور ری ہیب تعمیر کیے جائینگے۔۔ نیرم میں الیکٹرومیڈیکل سامان خریدنے اور تبدیلی کے لیے 212 ملین روپے کی لاگت سے نئے پی سی ون کی منظوری دی گئی۔۔ زندگی بچانے والی ادویات کی جانچ کے لیے فیڈرل ڈرگ سرولنس لیبارٹری قائم ہے مگر غیر فعال ہےْ۔۔ کیونکہ لیبارٹری کی تیار کردہ عمارت نومبر 2011 سے فیڈرل میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کے زہر استعمال ہے،

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے صوبائی سطح پر بھی اقدامات کیے جارہے ہیں۔۔ کوئٹہ میں پانچ ٹیچنگ اسپتال موجود ہیں۔۔ صوبہ بلوچستان میں اس وقت پینتالیس اسپتال مریضوں کی دیکھ بھال میں مصروف ہیں۔۔

کوئٹہ میں بولان میڈیکل کمپلیکس، سول اسپتال کوئٹہ ، فاطمہ جناح ٹی بی سنٹوریم اور اسکے علاوہ شیخ زیداسپتال کام کررہے ہیں۔۔ ڈویژنل اسپتالوں کی تعداد پانچ اور ضلعی سطع پر چھبیس اسپتال کام کررہے ہیں۔۔ تحصیل کی سطع پر تین اسپتالوں میں مریضوں کا علاج جاری ہے۔۔

بلوچستان کے اسپتالوں میں بیڈز کی تعداد چھ ہزار ہے۔۔ چار ہزار تین سو پچیس ڈاکٹرز اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔۔ سولہ سو نرسز اور بیالیسہزار سے زائد اسٹاف لوگوں کی خدمت میں مصروف ہے۔۔

سول اسپتال کوئٹہ میں ایک آئی۔سی۔یو ہے۔۔ جس میں پانچ وینٹیلیٹر 5 ہیں، ٹرامہ سینٹر میں 2 اور فاطمہ جناح اسپتال میں 5 وینٹیلیٹر ہیں۔ مختلف جگہوں پر وینٹی لیٹر کو آپریٹ کرنے کے لیے عملہ ہی موجود نہیں۔۔

بولان میڈیکل کمپلیکس میں مریضوں کے لیے بستروں کی تعداد آٹھ سو پچاس سے زائد ہے۔۔ سول اسپتال کوئٹہ میں ان ڈور سات سو سے زائد مریضوں کا علاج کیا جاسکتا ہے۔۔ دیے گئے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق صحت کے کئی مراکز غیر فعال ہیں۔ مختلف مقامات پر بستروں اور وارڈز کی حالت خراب ہے۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گلگت بلتسان میں کرونا کے تین مریض سامنے آئے،،،بیس مشتبہ مریض آئیسولیشن وارڈز میں ہیں،،،مگر بلتسان میں صحت سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں،،، پورے گلگت بلتستان میں صرف چار ونیٹی لیٹرز کرونا کے مریضوں کے لیے مختص ،،پورے صوبے میں وینٹی لیٹرز کی تعداد صرف 20 ہے صوبائی حکومت نے کرونا مریضوں کے لئے 136 بیڈ پورے صوبے میں رکھے ہیں ۔

گلگت بلتسان میں بیس لاکھ سے زائد آبادی کےلیے صرف چار سو پچاس ڈاکٹرز موجود ہیں،،،تئیس سو میڈیکل اسٹاف گلگت کے 50 چھوٹے بڑے اسپتالوں میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔

گزشتہ دو ہفتوں کے دوران چین،،،ایران اور دیگر ممالک کا سفری رکارڈ رکھنے والے 1500 سے زائد افراد کا تعلق گلگت سے ہیں،،جن میں تین افراد میں کرونا وائرس کی تصدیق ہوچکی ہے۔    ،،،20 افراد کو ابھی تک ائسولیشن وارڈ میں رکھا گیا ہے.


محکمہ صحت اور صوبائی حکومت کے مطابق گلگت بلتستان میں 2 ہزار بیڈ ہسپتالوں میں دستیاب ہے جبکہ کرونا کے لئے 19 بڑے ہسپتالوں میں 136 بیڈ مختص کردیئے گئے ہیں.

محکمہ صحت کے حکام کے مطابق پورے صوبے میں ایک بھی کوئی لیبارٹری موجود نہیں جہاں پر کرونا وائرس کا ٹیسٹ کیا جائے۔

صوبے کے داخلی راستوں پر انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے مسافر اسکریننگ کے بغیر اپنے علاقوں کا رخ کررہے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ناقص صحت انتظامات کی وجہ سے کرونا وائرس گلگت میں بڑے پیمانے پر تباہی مچا سکتا ہے۔ انہوں نے صوبائی اور وفاقی حکومت کو گلگت میں کرونا وائرس کے خلاف سنجیدہ اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔

%d bloggers like this: