مئی 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پہاڑپور کا گلاب۔۔۔ گلزار احمد

اب مجھے پہاڑپور سے روزانہ جتنے کرم فرماوں کے فون آتے ہیں میں دل میں سوچتا ھوں کہ اس شھر نے اپنی گود میں ھیرے چھپا رکھے ہیں

ڈیرہ اسماعیل خان سے 25 کلو میٹر شمال میں پہاڑپور کا خوبصورت شھر آباد ھے جس کی سرزمین علم و ادب کے شہہ سواروں سے بھری پڑی ھے ۔ قدیم تاریخ کے سارے طوفان یہاں ٹکراتے رھے جو صدیوں کے آثار یہاں چھوڑ گئیے۔ بہرحال مجھے آج اس سرزمین پر جنم لینے والے ممتاز شاعر غلام محمد قاصر پر بات کرنی ھے۔

غلام محمد قاصر نوے کی دہائی میں پشاور قیام پزیر تھے اور میں اس وقت گلبرگ پیشاور میں رہ رہا تھا۔ میرے پڑوس میں ہمارے کیمسٹری کے ایک پرانے پروفیسر رضوی صاحب کا گھر تھا۔ رضوی صاحب کے بیٹے ڈاکٹر علی سے قاصر کی دوستی تھی اور وہ وہاں اکثر ان کو ملنے تشریف لاتے ۔

ایک دن گلی میں مجھ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ تو میرے گھر کے ساتھ اکثر آتے رھتے ہیں پھر ہماری محفل بھی جمنے لگی۔۔۔مگر بدقسمتی یہ ہوئی کہ وہ 1999ء میں اسی فروری کے مہینے انتقال کر گئیے ۔اللہ تعالے مغفرت کرے۔۔

ایک پسماندہ علاقے سے تعلق رکھنے والا شخص شاعری کی دنیا میں اتنے بام عروج تک پہنچا کہ اردو شاعری میں انہیں صدارتی تمغہ براۓ حسن کار کردگی 2007 میں عنایت کیا گیا

۔ جب ان کی وفات کو نو سال گزر چکے تھے۔ غلام محمد قاصر پاکستان کے واحد ادیب ہیں جن کو مرنے کے بعد تمغہ حسن کار کردگی سے نوازا گیا۔

امیر شریعت عطاءاللہ شاہ بخاری ایک شعر اکثر پڑھا کرتے تھے:

اس کو ناقدریء عالم کا صلہ کہتے ہیں

مر گئیے ہم تو زمانے نے بہت یاد کیا

شاہ صاحب نے تحریک آذادی میں قید و بند کی بڑی صعوبتیں برداشت کیں۔۔۔ایک دفعہ تقریر کرتے ہوۓ فرمایا۔۔۔لوگو جب میں تقریر کرتا ھوں تم لوگ کہتے ھو۔۔ واہ شاہ جی واہ۔۔۔۔۔انگریز مجھے گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیتے ہیں تو تم کہتے ھو۔۔۔ آہ شاہ جی آہ۔۔۔ اے لوگو تمھاری اس واہ اور آہ میں ہم ہو گئیے تباہ۔۔۔۔

خیر بات ہو رہی تھی پہاڑپور والے غلام محمد قاصر کی کہ وہ ایک قومی اور بین الاقوامی سطح کا شاعر کیسے بنا۔ تو آئیے دیکھتے ہیں اس شرمیلے شاعر کے ایواڈز۔۔۔ صدارتی تمغے کا ذکر ہو چکا۔ اس کے علاوہ۔۔۔۔پروین شاکر عکس خوشبو ایوارڈ براۓ بہترین شاعری۔۔۔۔۔وثیقہ اعتراف اردو ادب ہمدرد فاونڈیشن کراچی 1994….بہترین نغمہ نگار ایوارڈ ۔پی ٹی وی پشاور 1993ء۔۔۔۔بولان ایوارڈ۔بہترین ڈرامہ نگار/شاعری بولان اکیڈیمی 1993ء ۔۔۔۔سردار عبدالرب نشتر ایورڈ۔گولڈ میڈل۔براۓ بہترین شاعری اباسین آرٹس کونسل پشاور۔1988..

غلام محمد قاصر کو ابھی میں نے شرمیلا شاعر لکھا تو اس کی وجہ بھی بڑی دلچسپ ھے۔ ساٹھ کی دہائی کی بات ھے جب ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک عظیم الشان کل پاکستان مشاعرہ منعقد ہوا۔

ابھی پاکستان میں دھشت گردی اور بد امنی شروع نہیں ہوئی تھی جس نے علم و ادب کی کمر توڑ کے رکھ دی۔ لیکن اب پھر آہستہ آہستہ امن کے ساتھ کچھ رنگ برنگے پروگرام منعقد ہو رہے ہیں

ساٹھ کی دہائی کے ڈیرہ کے مشاعرے میں جن شعراء نے حصہ لیا ان میں ناصر کاظمی۔۔۔منیر نیازی۔۔احمد ندیم قاسمی۔۔قتیل شفائی۔۔محبوب خزاں جیسے نامور شاعر شامل تھے۔

مشاعرے کے آغاز میں ایک نوجوان شاعر کو کلام سنانے کے لئیے بلایا گیا۔جس نے بڑی دیہاتی اردو میں غزل سنانی شروع کی۔ مگر غزل میں غضب کی روانی تھی۔۔۔جب وہ غزل کے اس شعر پر پہنچا تو بڑے بڑے شاعر چونک گئے

تم یوں ہی ناراض ہوۓ ہو ورنہ مے خانے کا پتہ

ہم نے ہر اس شخص سے پوچھا جس کے نین نشیلے تھے

اس شعر پر تو بڑی واہ واہ ہوئی اور بڑے بڑے شاعر اس کا نام پو چھنے لگے ۔۔۔جس کا جواب قاصر نے خود اگلے شعر میں دیا

کون غلام محمد قاصر بیچارے سے کرتا بات

یہ چالاکوں کی بستی تھی اور حضرت شرمیلے تھے

اب مجھے پہاڑپور سے روزانہ جتنے کرم فرماوں کے فون آتے ہیں میں دل میں سوچتا ھوں کہ اس شھر نے اپنی گود میں ھیرے چھپا رکھے ہیں ھو سکتا ھے میں کسی ایسے موتی سے بات کر رہا ھوں۔ قاصر نے کہا تھا

کشتی بھی نہیں بدلی دریا بھی نہیں بدلا

ہم ڈوبنے والوں کا جذبہ بھی نہیں بدلا

غلام محمد قاصر کی ایک یادگار غزل جو اکثر میں دوستوں کو سناتا رہتا ھوں وہ یہ ھے:

شوق برہنہ پا چلتا تھا اور رستے پتھریلے تھے۔۔۔

گھستے گھستے گھس گئے آخر کنکر جو نوکیلے تھے ۔۔۔

خار چمن تھے شبنم شبنم پھول بھی سارے گیلے تھے ۔۔۔

شاخ سے ٹوٹ کے گرنے والے پتے پھر بھی پیلے تھے ۔۔۔۔

سرد ہواؤں سے تو تھے ساحل کے ریت کے یارانے ۔۔۔۔

لو کے تھپیڑے سہنے والے صحراؤں کے ٹیلے تھے ۔۔۔۔

تابندہ تاروں کا تحفہ صبح کی خدمت میں پہنچا ۔۔۔۔

رات نے چاند کی نذر کیے جو تارے کم چمکیلے تھے ۔۔۔۔۔

سارے سپیرے ویرانوں میں گھوم رہے ہیں بین لیے ۔۔۔

آبادی میں رہنے والے سانپ بڑے زہریلے تھے۔۔۔۔

تم یوں ہی ناراض ہوئے ہو ورنہ مے خانے کا پتا ۔۔۔۔

ہم نے ہر اس شخص سے پوچھا جس کے نین نشیلے تھے ۔۔۔

کون غلام محمد قاصرؔ بے چارے سے کرتا بات ۔۔۔۔

یہ چالاکوں کی بستی تھی اور حضرت شرمیلےتھے۔۔۔

%d bloggers like this: