مئی 16, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

”صوبہ جنوبی پنجاب“ اگلے الیکشن تک گم ہوگیا! ۔۔۔ علی احمد ڈھلوں

کہا گیا کہ سرائیکی قوم کو سرائیکی صوبہ کی بجائے سرائیکی بنک بنا کر دیتے ہیں لیکن آج تک سرائیکی قوم آصف علی زرداری کے سرائیکی بنک کا انتظار کررہی ہے

”نئے صوبے کا قیام ملک کی ضرورت ہے، جنوبی پنجاب صوبہ ابھی نہ بنا تو کبھی نہیں بن سکے گا۔“ اپریل 2018ءکے یہ الفاظ جنوبی پنجاب محاذ کے صدر خسرو بختیار کے ہیں ، جو آج کل نہ صرف اپنا مشن بھولے ہوئے ہیں بلکہ عوام نے جس وجہ سے انہیں ووٹ دیے تھے وہ بھی بھول چکے ہیں۔

اب ہوگا یہ کہ موجودہ حکومت کے آخری دنوں میں یہ مسئلہ ایک بار پھر اُٹھایا جائے گا اور پھر دوبارہ دفن کر دیا جائے گا۔ کیوں کہ فی الوقت بھی یہی ہو رہا ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت نے پنجاب کی تقسیم بالخصوص جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کے حوالے سے وہی ڈرامہ ، اداکاری اورکہانی شروع کردی ہے ، جس کے بارے میں اس خطے کے لوگ بڑی دیر سے عادی ہوچکے ہیں لیکن پھر بھی اس دھرتی کے لوگ سیاستدانوں کی چالاکیوں اور بات پر یقین کرلیتے ہیں۔

اس بات کے باوجود کہ یہ بات لکھی پڑھی ہے مومن ایک سوراخ سے دوسری بار نہیں ڈسا جاتا ہے۔ لیکن داد دینی پڑے گی جنوبی پنجاب اوربہاولپور صوبہ کے حامیوں کو، پیپلزپارٹی کی قیادت سے لیکر مسلم لیگ نواز کی لیڈرشپ تک سے دھوکہ کھانے کے بعد تحریک انصاف کی تبدیلی پر اندھا دھند اعتماد کیا اور اب معاملہ وہی چل رہاہے کہ تحریک انصاف کی قیادت بھی صوبہ کے معاملے پر ہاتھ کرگئی ہے۔

مطلب سو دن میں پنجاب کی تقسیم کی کہانی، اب کہانی ہی رہ گئی ہے۔ ایک کے بعد ایک تبدیلی کا لیڈر جو جنرل الیکشن2018ءمیں بات ، بات پر مسلم لیگ نواز اور پیپلزپارٹی کے جنوبی پنجاب صوبہ کے حوالے سے بات کرتا تھا اور طنزیہ جملوں سے چسکا لیتا تھا۔ اب وہی غائب ہے۔

پنجاب کی تقسیم کی بات چلے تو وہ برا مان جاتا ہے۔ جنوبی پنجاب صوبہ یا پھر پنجاب کی تقسیم گپ بن چکی ہے، جیسے آصف زرداری نے سرائیکی صوبہ کے حوالے سے اقتدار کے دنوں میں گپ کی تھی ، لیکن اقتدار سے پہلے آخری جھٹکا سرائیکی صوبہ کی کہانی کو گیلانی ہاﺅ س ملتان میں بیٹھ کر یہ دیا تھا کہ ہمارے پاس تو اکثریت نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔

کہا گیا کہ سرائیکی قوم کو سرائیکی صوبہ کی بجائے سرائیکی بنک بنا کر دیتے ہیں لیکن آج تک سرائیکی قوم آصف علی زرداری کے سرائیکی بنک کا انتظار کررہی ہے لیکن پیپلزپارٹی اپنی اقتدار کی اننگز کھیل کر جا چکی ہے۔

اس بات کو سب جان چکے ہیں کہ اقتدار کی خاطر سیاسی جماعتوں کی لیڈرشپ باآواز بلند پنجاب کی تقسیم کے پیچھے کھڑی ہوتی ہیں لیکن جونہی حکومتوں کی صفوں میں جگہ ملتی یا پھر وزرات کا قلمدان مل جاتا ہے۔ فوراً اسی پرانے سلیبس کے پیچھے چل پڑتے ہیں جوکہ پنجاب کی تقسیم تو درکنا راس کی بات کرنے سے بھی روکتا ہے۔

یعنی جب نیا الیکشن آئے گا ایک بار پھر صوبوں کی تقسیم کے حوالے سے گیم شروع ہوگی،پھر نئے صوبے کا شوشہ چھوڑا جائے گا، پھر جنوبی پنجاب کے لوگوں کے زخموں پر تیل ڈالا جائے گا، پھر ان کے زخموں کو کریدا جائے گا، پھر جنوبی پنجاب کے ایم این ایز اور ایم پی ایز فنڈز لینے کے لیے اکٹھے ہوں گے، اور پھر نیا صوبہ بنانے کامنصوبہ کھٹائی میں پڑ جائے گا۔ میرے خیال میں اس جنوبی پنجاب محاذ جو 2018کے الیکشن میں پریشر گروپ بنا تھا، اسے شرم آنی چاہیے کہ بجائے وہ صوبہ بنانے کے لیے تحریک شروع کریں وہ تو اپنے کھانے پینے کے لیے نئی تحریکیں شروع کر ر ہے ہیں، اور وفاقی وزیر خسرو بختیار صاحب جو جنرل الیکشن سے قبل ہر دوسرے دن نئے صوبے کے حوالے سے تحرک پیش کرتے تھے، پریس کانفرنس کا حصہ بنتے تھے لیکن اب اُن کی ترجیحات ہی اور ہیں، اُن پر الزامات لگ رہے ہیں کہ چینی، گندم کی قیمتوں میں اضافہ اُن کی وجہ سے ہوا۔

ان پر الزام عائد ہو رہے ہیں کہ جہاں سے ان کو فنڈز ملتے ہیں وہی منصوبے ان کی ترجیحات میں شامل ہیں، سمجھ سے باہر ہے کہ یہ لوگ اپنے مقصد سے کیسے پیچھے ہٹ گئے؟ اور یہ بھی سمجھ سے باہر ہے کہ دوبارہ یہ کس منہ سے عوام کا سامنا کر سکیں گے؟

حالانکہ اگر انصاف سے دیکھا جائے تو موجودہ حکومت جس قدر جنوبی پنجاب پر خرچ کر رہی ہے اتنا آج تک کسی نے نہیں خرچ کیا، پہلے جنوب میں ڈیرہ غازی خان تو وہ ضلع ہے جو ڈویلپمنٹ انڈکس پر 34ویں نمبر پر ہے، مطلب محرومیوں کے عروج پر، جہاں کبھی بجٹ کی ”دیگ “کی کھرچن تک نہیں پہنچی تھی ،حالانکہ اطلاعات ہیں کہ اب وہاں فنڈز ملنا شروع ہوگئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایسی باتیں ”خبر“ کیوں نہیں بن رہیں؟ کیا موجودہ حکومت کو خبر کے نیچے پہیے نہیں لگانے آتے؟ ویسے یہ باتیں خبر بنیں بھی کیوں؟ کسی کو کیا ملے گا ایسی خبریں شائع کرکے ؟ اور پھر قارئین کو یاد ہوگا کہ پہلے چھوٹے چھوٹے پراجیکٹ کی تشہیر پر موٹی موٹی رقمیں خرچ کی جاتیں تھیں، اب موٹے موٹے پراجیکٹ کی تشہیر کے لیے چھوٹی موٹی رقم بھی خرچ نہیں کی جاتی، اس لیے خبر دب جاتی ہے یا خبر کے نیچے سے پہیے کھینچ لیے جاتے ہیں ۔ اور ان خبروں کی جگہ ایسی چٹ پٹی سی خبریں جگہ لے لیتی ہیں جسے ناظرین سننا یا دیکھنا چاہتے ہیں۔

خیر جنوبی پنجاب کے الگ صوبے کا معاملہ ایک طرف مگر بزدار صاحب نے اچھے کام کیے ہیں، باوجود اِس کے کہ عمران خان بار بار کہہ چکے ہیں کہ 2023تک پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار ہی رہیں گے۔ جہاں تک عثمان بزدار کی کارکردگی کی بات ہے تو انہوں نے پچھلے ڈیڑھ سال جو کچھ کیا ہے، اگر اشتہار اُس کے چھاپے جاتے تو لوگ حیرت زدہ رہ جاتے مگر افسوس کہ ”عوام آگاہی مہم“ پر عمران خان نے پابندی لگا رکھی ہے۔

انہیں فوری طور پر میڈیا کو اشتہارات جاری کرنے کی ہدایت کرنا چاہئے۔ یقین کیجئے پچھلے دنوں ایک برطانوی اخبار نے پاکستانی وزارتوں کی کارکردگی پر ایک سروے شائع کیا۔ ا ±س کے انڈیکس میں بیشتر وفاقی وزارتوں سے حکومت پنجاب کی کارکردگی کو بہتر بتایا گیا ہے۔ حتیٰ کہ پولیس کی کارکردگی کو بھی۔ ابھی تھوڑا عرصہ پہلے میانوالی میں ایک ریپ کا کیس ہوا۔ مجھے حیرت ہوئی کہ صرف دو گھنٹوں میں پولیس نے ملزمان گرفتار کر لیے۔ میانوالی کے ڈی پی او حسن علوی کی اعلیٰ کارکردگی پر داد تو وزیراعلیٰ کو ہی دینی چاہئے۔

بےشک پچھلے ڈیڑھ سال میں انہوں نے ثابت کر دیا ہے کہ خاموشی سے سیاسی اور انتظامی نظام میں وہ کچھ کمال کیا جا سکتا ہے جو ان سے پہلے حکمران ڈھول بجا بجا کر کرتے رہے پر پھر بھی کر نہ سکے۔ گزشتہ دور میں وزیراعلیٰ کی دہشت کا یہ عالم تھا کہ جی او آر کے سامنے سے گزرنے پر بھی ڈر لگتا تھا کہ کہیں کوئی پولیس والا دھر ہی نہ لے حالانکہ وہاں وزیراعلیٰ کی رہائش بھی نہیں تھی۔ سرکاری ملازمین کو بھی اس علاقے میں داخل ہونے کیلئے ٹیلیفون کروانا پڑتے تھے مگر عثمان بزدار نے اپنے دل سمیت دفتر کے تمام دروازے کھول دیے۔ وہ عام آدمی ہیں اور عام آدمیوں کی طرح دور دراز کے دیہاتیوں سے گلے مل رہے ہوتے ہیں۔

خیر بات کہیں کی کہیں نکل گئی لیکن یہاں بتانا یہ مقصود تھا کہ گزشتہ ڈیڑھ سال میں 8نئی یونیورسٹیوں، 9نئے اسپتالوں اور 10نئے اکنامک زونز پر کام آسان نہیں اور پھر ان کا دامن بھی صاف ہے اور ان کے ناقدین بھی ان پر کرپشن کا الزام نہیں لگاتے۔ البتہ کچھ ناقدین کو ڈیرہ غازی خان اور میانوالی سے تکلیف ضرور ہے۔ وہاں بننے والے منصوبے انہیں برداشت نہیں ہو رہے۔ جہاں تیس چالیس سال سے کوئی بڑا پروجیکٹ نہیں بنا۔ وہاں اب اگر کام شروع ہو گئے ہیں تو بڑے بڑے شہروں میں اربوں کھربوں کے پروجیکٹ کرنے والوں کو غصہ نہیں آنا چاہئے۔

پارٹی میں موجود تنقید برائے تنقید کرنے والوں کو سنبھالنا، تمام ایم پی ایز سے فرداً فرداً تعلق رکھنا۔ ان کے مسائل سننا اور انہیں حل کرانا یہ کسی عام آدمی کے بس کا روگ نہیں۔ پہلے جو وزیراعلیٰ ہوتے تھے کہ انہیں پرچیوں پر لکھ کر سیکریٹری میٹنگز میں بتا رہے ہوتے تھے کہ کس ایم پی اے کا کیا نام ہے، پھر بھی لطیفے بن جاتے تھے۔ کسی جٹ کو رانا صاحب کہا جا رہا ہوتا تھا اور کسی چوہدری کو ملک صاحب کہہ کر پکارا جارہا ہوتا تھا۔

الغرض اس غیر نمائشی دور حکومت میں آرٹ سے ایجوکیشن اور ایجوکیشن سے صحت تک، کوئی شعبہ ایسا نہیں تھا جس میں کام شروع نہ ہوا ہو۔ میانوالی سرگودھا ڈبل روڈ کی تعمیر کا معاملہ تو چالیس سال سے التوا میں پڑا ہوا تھا۔ موٹروے سے میانوالی تک اور میانوالی سے ملتان تک جانے والے روڈ کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی تھی۔

بہرحال یہ طے شدہ بات ہے کہ عثمان بزدار کی وجہ سے سرائیکی علاقے میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے۔اور اس آغاز کو اگلے تین سالوں میں موجودہ حکومت الگ جنوبی پنجاب صوبہ بنا دے گی تو یقینا یہ ایک عظیم کام ہوگا۔

کیوں کہ 1969میں صوبہ بلوچستان بننے کے بعد سے لے کر اب تک ہم صوبوں پر بحث کا آغاز نہیں کرسکے، یہ پہلی دفعہ ہوا ہے کہ اب کھل کر نئے یونٹس بنانے پر بحث و مباحثہ اور آئینی ترامیم کی راہ کھلی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں صوبے یا نئی ریاست بنانے کے کیلئے ریفرنڈم کا طریقہ رائج ہے، امریکہ کی11ریاستیں تھیں آج پچاس ہیں، جبکہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت کی ہی مثال لے لیں ، انہوں نے نئے صوبے بنانے کیلئے آسان طریقہ کار اپنارکھا ہے، یہی وجہ ہے کہ تقسیم کے وقت ان کے 11صوبے تھے اب ان کی تعداد29ہے، بھارت میں لوک سبھا میں سادہ اکثریت ملنے پر نیا صوبہ بنانے کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔

لہٰذاحکومت سے ایک بار پھر گزارش ہے کہ پنجاب کی تقسیم کے حوالے سے کام کیا جائے، ہمیشہ چھوٹے چھوٹے یونٹ ہی ترقی کیا کرتے ہیں، بڑے یونٹ ترقی نہیں کرتے، عمران خان کو چاہیے کہ وہ اس حوالے سے سنجیدگی کے ساتھ عوام کے مسائل پر توجہ دیں اور نئے صوبے کا وعدہ پورا کریں تاکہ وہ ایک منجھے ہوئے اور سچے سیاستدان تصور کیے جاسکیں۔

%d bloggers like this: