مئی 4, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مقدس بندھن۔۔۔۔ وجاہت علی عمرانی

شرفاء کے ہاں اپنے بیٹوں کی قیمتیں نہیں لگائی جاتیں۔ مگر جہاں مادی ترقی کے نام پربہت کچھ بدل گیا وہیں، رشتے داریوں کے انداز بھی بدل گئے،

وقت کے ساتھ ساتھ اقدار کا بدلنا سماج کا ارتقائی عمل ہے، یہ نہ رکا ہے اور نہ ہی آئندہ اسے روکا جاسکے گا۔ لیکن ہمیں سوچنا چاہیے کہ سماجی اقدار کے ارتقا ء میں کیا ہمیں اپنی اُن بنیادی روایتوں کو بھی تبدیل کردینا چاہیے جن پر اس سماج کی بنیاد کھڑی ہے؟ یقیناًنہیں، لیکن افسوس کہ ایسا ہی ہورہا ہے۔

بہرحال موجودہ دور کے اہم ترین مسائل میں شادی، ایک سماجی عفریت بلکہ بچوں کے رشتوں کا معاملہ تشویشناک صورتحال اختیار کرتا جا رہا ہے۔ جو بیٹیوں کی جوانی اور ان کے جذبوں کو نگلتا جا رہا ہے۔ جس نے والدین کی نیندیں اچاٹ کردی ہیں۔

ایک زمانہ تھا کہ لڑکے والوں کے پاؤں کی جوتیاں لڑکی والوں کے گھر کے چکر لگاتے لگاتے گھس جاتی تھیں تب کہیں جاکر لڑکی والے ہاں کرتے تھے۔ اور اب یہ زمانہ آگیا ہے کہ لڑکیوں کی شادی کی عمر گزر جاتی ہے لیکن اچھا بَر نہیں ملتا۔

اس دور میں اچھے رشتے نہ ملنے کا سب سے بڑا سبب خود ہمارا دو رُخا معیار ہے۔ اب اگر ہم اپنے بیٹوں یا بیٹے کے لیے رشتہ تلاش کرتے ہیں تو لڑکی اور اُس کے گھرانے کا ایک بلند معیار اپنے ذہن میں قائم کرلیتے ہیں۔ یہ معیار خود ہمارے اپنے سماجی معیار سے بھی کہیں بلند ہوتا ہے۔ لیکن جب ہم خود اپنی بیٹی یا بیٹوں کے لیے آنے والے رشتے کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمارے معیار بالکل بدل جاتے ہیں۔

رشتوں کی راہ میں عورت ہی عورت کی رکاوٹ ہے۔ ایک عورت لڑکے کی بھی ماں ہے اور لڑکی کی بھی۔

اپنی لڑکی بیاہتے ہوئے چاہتی ہے کہ اس کے گھر اور اس کی لڑکی میں کوئی نقص نہ نکالا جائے لیکن یہی عورت جب اپنے لڑکے کا رشتہ تلاش کرنے نکلتی ہے تو بیسیوں لڑکیوں کو مسترد کر آتی ہے کہ فلاں کی عمر زیادہ ہے،فلاں کا رنگ گورا نہیں، فلاں کا قد چھوٹا ہے، فلاں کے باپ کا سٹیٹس معمولی ہے، فلاں یہ فلاں وہ۔۔۔

لڑکی دینے اور لڑکی لانے والی یہ ایک عورت کے دو روپ دیکھ کر”عورت ہی عورت کی دشمن“ محاورہ یاد آجاتا ہے۔

دوسرے کئی مسائل کی طرح بیروزگاری بھی ہمارے معاشرے کا ایک بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔ بعض اوقات مناسب نوکری ملتے ملتے کئی سال گذر جاتے ہیں۔ تمام والدین کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی بیٹی کو کوئی برسرروزگار رشتہ ملے۔

والدین اپنی اولاد کے لئے بہتر سے بہتر شریک حیات کی تلاش کرنے کی جستجو میں کئی معقول اور قابل قبول رشتے ٹھکرا دیتے ہیں۔ نتیجہ میں بچیوں کی عمر بڑھتی جاتی ہے لیکن ان کا معیار نہیں ملتا۔

یہاں تک کہ لڑکوں اور لڑکیوں کی عمریں زیادہ ہوجاتی ہیں۔ تب جاکر والدین کو اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے مگر تب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے اور موزوں رشتے ہاتھ سے نکل چکے ہوتے ہیں۔ والدین اچھے اور مناسب رشتوں کی راہ تکتے رہتے ہیں اور اس دوران بیٹیوں کے سروں پر چاندی اتر آتی ہے۔

پھر نوبت یہاں تک آ جاتی ہے کہ جو رشتہ بھی آتا ہے وہ یہی کہتا ہوا نظرآتا ہے کہ ہمیں تو اپنے بیٹے کے لیئے کمسن لڑکی کا رشتہ چاہیے۔ ذرا سوچیے! کہ اس صورتِ حال میں اُن والدین کی کیا حالت ہوتی ہوگی جن کی بیٹیاں ہاتھ پیلے ہونے کے انتظار میں گھر کی دہلیز پر بیٹھے بیٹھے ہی بوڑھی ہوئی جارہی ہیں۔ یہ ایسا سنگین سماجی مسئلہ ہے جس نے ہماری معاشرتی جڑوں کے اندر مادیت اور مفاد پرستی سرایت کرجانے کا ثبوت فراہم کردیا ہے۔

اکثر اوقات بیٹی کے والدین بھی حد کر جاتے ہیں، ان کی سوچ ہوتی ہے جتنا جہیز دیں گے اتنا سسرال پر دباؤ رہے گا اور بیٹی کو تنگ نہیں کیا جائے گا۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں مال وزر سے گھر آباد نہیں ہوتے، بلکہ بیٹیوں کی اچھی تربیت اور مرد کے اچھے کردار سے گھر آباد ہوتے ہیں۔ گھر محبت، ایثار اور باہمی اعتبار اور اعتماد سے بنتے ہیں، اپنی اولادکو ایک دوسرے کو تسلیم کرنے، قبول کرنے کی عادت سکھائیں، گھر خود بخودبن جائیں گے اور جہیزدینے کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی۔

اس کے علاوہ لڑکوں کے حد سے زیادہ نخرے بھی لڑکیوں کے بروقت رشتوں میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ خواہ مخواہ کی فرمائشوں کے نام پر لڑکی والوں کا استحصال بھی ایک وجہ ہے۔ بروقت شادی کے راستے میں بہت ساری رکاوٹیں ہیں، جن میں سر فہرست جہیز اورذات پات کو گردانا جاتا ہے۔

یہ بدقسمتی ہے کہ یہ سب عورت کے حصے میں آیا ہے۔ جبکہ جہیز کی ڈیمانڈ کرنے والے مرد کا کردار ”مردانہ طوائف گردی“ تو ہو سکتی ہے لیکن اس کا شرافت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ شرفاء کے ہاں اپنے بیٹوں کی قیمتیں نہیں لگائی جاتیں۔ مگر جہاں مادی ترقی کے نام پربہت کچھ بدل گیا وہیں، رشتے داریوں کے انداز بھی بدل گئے، جس وجہ سے معاشرے میں کنواری بیٹیوں کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے۔

کچھ لڑکی والوں کی طرف سے بھی ایک عجیب وجہ دیکھنے میں آتی ہے کہ ایسی تمام کامیابیاں پچیس تیس سال عمر کے لڑکے میں تلاش کرکے وقت ضائع کرتے رہتے ہیں، جو انسان کو کہیں پچاس سال تک مشکل سے ملتی ہیں۔ جیسا کہ اپنا مکان، اونچا عہدہ، اپنی گاڑی، تنخواہ کم ازکم ایک لاکھ نہیں تو قریب قریب ہو۔ لڑکیوں نے بھی آنکھوں میں شادی کے ہزاروں خواب سجائے ہوئے ہوتے ہیں۔

شرفاء کے ہاں اپنے بیٹوں کی قیمتیں نہیں لگائی جاتیں۔ مگر جہاں مادی ترقی کے نام پربہت کچھ بدل گیا وہیں، رشتے داریوں کے انداز بھی بدل گئے، جس وجہ سے معاشرے میں کنواری بیٹیوں کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ 

کچھ لڑکی والوں کی طرف سے بھی ایک عجیب وجہ دیکھنے میں آتی ہے کہ ایسی تمام کامیابیاں پچیس تیس سال عمر کے لڑکے میں تلاش کرکے وقت ضائع کرتے رہتے ہیں، جو انسان کو کہیں پچاس سال تک مشکل سے ملتی ہیں۔ جیسا کہ اپنا مکان، اونچا عہدہ، اپنی گاڑی، تنخواہ کم ازکم ایک لاکھ نہیں تو قریب قریب ہو۔ لڑکیوں نے بھی آنکھوں میں شادی کے ہزاروں خواب سجائے ہوئے ہوتے ہیں۔ 

%d bloggers like this: