مئی 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سرائیکی کے معروف اینکر عارف خان ملغانی کے ساتھ ”سرائیکی بیٹھک“کی رُوداد

راولپنڈی آرٹس کونسل میں شاندار یادگار سرائیکی بیٹھک، شائقین کی بھرپور شرکت

سرائیکی کے معروف اینکر عارف خان ملغانی کے ساتھ ”سرائیکی بیٹھک“کی رُوداد
رپورٹ: محمد شاہد دھریجہ

سرائیکی زبان و ادب اور توانا کلچر اپنی مٹھاس کے سبب زندہ ہے۔ سرائیکی چینلوں کی بندش لمحہ¿ فکریہ ہے ۔

سرائیکی صوبے کا قیام وقت کی اہم ضرورت ہے، مطالعے اور کتب بینی کو اپنی عادت اور دوسروں کی خدمت کو اپنا شعار بنائیں،

سب سے محبت کریں اور امید کے چراغ جلائیں: عارف ملغانی

سرائیکی زبان حضرت امام زین العابدین کی دعاﺅں کا صدقہ ہے: وفا چشتی

عارف ملغانی نے پہلے دن سے ہی بطور اینکر شہرت حاصل کر لی: ڈاکٹر سعدیہ کمال

سرائیکی ادبی اکیڈمی کے زیر اہتمام سرائیکی زبان کے نام ور اور مقبول اینکر عارف ملغانی کے اعزاز میں راولپنڈی آرٹس کونسل میں شاندار یادگار سرائیکی بیٹھک، شائقین کی بھرپور شرکت

کسی بھی طالب علم یا شخص کو زندگی کو رب ذوالجلال کی ایک اعلیٰ ترین نعمت سمجھ کر گزار لینا چاہیے۔ میرا آبائی تعلق ڈیرہ غازیخان کے علاقے تونسہ شریف سے ہے۔

ابتدائی تعلیم وہیں سے حاصل کی اور میری سوچ اور زندگی پر میرے والد محترم نے زندگی کے 40برس تعلیم کے شعبے میں ایک مشن کی طرح بسر کیے اور انھوں نے ہم سب بہن بھائیوں کو اعلیٰ تعلیم دلائی۔ اُن کی کامیاب زندگی گزارنے کی باتیں اور ایک اچھا انسان بننے کی تربیت نے آگے بڑھنے اور اپنا راستہ بنانے کا حوصلہ دیا۔

میں نے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے ایم اے سرائیکی کیا اور کمپیئرنگ کے شعبے سے بچپن ہی سے شدید لگاﺅ کے نتیجے میں 21فروری 2008ءکو میرا روہی ٹی وی چینل سے سرائیکی پروگرام آن ایئر گیا

اور ملک بھر سمیت خلیجی ریاستوں ، عرب ممالک اور دنیا کے دیگر ملکوں میں بسنے والے سرائیکی وسیب کے لوگوں نے میرے پروگرام اور میرے اندازِ میزبانی کو میری توقعات سے بڑھ کر پذیرائی بخشی۔

روہی ٹی وی چینل وسیب کے ذریعے اپنے ناظرین سے روزانہ رابطہ رہا مگر اب سرائیکی لوگوں کے لیے یہ پہلو لمحہ¿ فکریہ ہے کہ اس وقت ملک میں ایک سرائیکی ٹی وی چینل بھی نہیں چل رہا جو سرائیکی زبان و ادب ، سرائیکی ثقافت اور سرائیکی خطے میں آباد فنکاروں،

موسیقاروں ، کھلاڑیوں، ماہرین تعلیم، گلوکاروں، صحافیوں، دانش وروں غرض ہر شعبہ¿ حیات کے لوگوں کے ساتھ زیادتی اور اُن کی حق تلفی ہے۔سرائیکستان یعنی سرائیکی صوبے کا قیام اس ریجن کے لوگوں کا دیرینہ مطالبہ ہے

مگر70برسوں سے سرائیکیوں کو صوبے کے نام پر لولی پوپ دیا جا رہا ہے۔ یہ باتیں ملک کے نام ور اور مقبول ٹی وی اینکر عارف ملغانی نے راولپنڈی آرٹس کونسل کے کانفرنس روم میں اپنے اعزاز میں منعقدہ پُرہجوم ”سرائیکی بیٹھک“ میں کہیں ۔

اس خوبصورت تقریب کا اہتمام اسلام آباد کی متحرک اور فعال تنظیم سرائیکی ادبی اکیڈمی کی صدر ڈاکٹر سعدیہ کمال اور سیکرٹری شاہد دھریجہ نے کیا تھا جبکہ صدارت معروف شاعر و دانش ور وفا چشتی نے کی۔

صدرِ تقریب وفا چشتی نے کہا کہ سرائیکی زبان و ادب اور کلچر کو حضرت امام زین العابدین کی دعاﺅں کے صدقے دوام اور عروج حاصل ہے۔

اس زبان اور سرائیکی کلچر کے فروغ کے لیے عارف ملغانی کی خدمات اور کارکردگی کو تاریخ سنہرے حروف میں یاد رکھے گی۔ میری تجویز ہے کہ عارف ملغانی اپنے فنی سفر کو کتاب کی شکل میں قلمبند کریں تاکہ اُن کی باتوں اور جدوجہد سے نوجوان نسل کو فکری شعور اور رہنمائی حاصل ہو۔

انھوں نے سوشل میڈیا کو سرائیکی کے فروغ و تعارف کے لیے نہایت مثبت طریقے سے اور شائستگی و تہذیب کے ساتھ استعمال کرنے کی طرف توجہ دلائی جسے صاحبِ شام نے بہت پسند کیا۔اُردو سرائیکی کے نامور شاعر اصغر عابد نے گفتگو میں اپنی محبتوں کا اظہار کیا۔

اصغر عابد نے معزز مہمان کو اپنی دو سرائیکی مطبوعات ”پندھ“ (سرائیکی ہائیکو) اور ”برف دا سیک“ (کشمیر کے موضوع پر سب سے پہلی پاکستانی زبانوں کی شاعری) پیش کی۔ سرائیکی ادبی اکیڈمی کی صدر ڈاکٹر سعدیہ کمال نے عارف ملغانی کو خوبصورت انداز میں خراجِ تحسین پیش کیا

اور بتایا کہ انھوں نے روہی ٹی وی چینل سے ملغانی کے ساتھ ہی کیئریئر کا آغاز کیا مگر ہمارے دیکھتے دیکھتے عارف ملغانی شہرت کی بلندیوں کو چُھونے لگے جس کی بڑی وجہ ان کی پُرکشش شخصیت، ان کا انداز گفتگو،

سرائیکی شعرو ادب اور زبان و بیان پر ان کی دسترس سمیت بطور اینکر ملغانی کا حالاتِ حاضرہ کا نالج ان کی بے پناہ پذیرائی کا سبب بنا اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔

انھوں نے بتایا کہ وہ قلیل مدت میں اپنی تنظیم کے تحت یہ ساتوں بڑا پروگرام ہے۔ ڈاکٹر سعدیہ کمال نے عارف ملغانی کی آمد پر اُن کا اور اُن کے جملہ قریبی احباب سمیت بڑی تعداد میں شریک لوگوں اور نوجوانوں کا خصوصی شکریہ ادا کیا۔ راقم الحروف شاہد دھریجہ نے نظامت کرتے ہوئے پروگرام کو دلچسپیوں سے بھرپور رکھا

اور مہمانوں کو بُلاتے ہوئے اور دیگر مواقع پر برمحل انداز میں خواجہ غلام فرید اور دیگر سرائیکی شعراءکے دوہڑے اور چُنیدہ شعر پیش کیے

اور معزز مہمان کو نیلے رنگ کی سرائیکی اجرک بھی پہنائی۔ جبکہ مہمان شخصیت سے بنیادی اور اہم نوعیت کے سوالات بھی کیے۔صاحبِ شام عارف ملغانی پر صاحبانِ مسند کے علاوہ پروفیسر خورشید احمد سعیدی، سینئر صحافی نذیر چشتی، رانا ابرار خالد، نوجوان شاعر دلشاد محور ، عابد نیازی کے علاوہ دیگر نے بھی گفتگو کی۔

آخر میں عارف ملغانی نے سرائیکی وسیب سمیت تمام ناظرین کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ اپنے کلچر کی طرح دوسری زبانوں اور کلچر سے محبت کریں۔ سرائیکی صوبہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔

دوسروں کی خدمت اور کام آنے کو زندگی کا شعار بنائیں۔ دوسروں کے لیے راستے کی ناہمواریوں کو آسان بنائیں۔ تعلیم حاصل کریں اور کتب بینی اور مطالعے کو اپنی زندگی کا جزولاینفک بنائیں، بڑوں اور سینئرز کا احترام کریں اور اُن کی دانش پر مبنی باتوں کو پلے باندھ لیں۔

انھوں نے شرکاءکی فرامئش پر خوبصورت سرائیکی شاعری سنائی اور خوب داد وصول کی۔تقریب میں فیملیز سمیت نوجوانوں ، ماہرینِ تعلیم ، صحافیوں اور اہلِ قلم و مصنفین کے علاوہ طلبہ نے بڑی تعداد میں شرکت کی

اور عارف ملغانی سے بھرپور باتیں کیں۔ تقریب میں دلچسپی کا یہ عالم تھا کہ تمام شرکاءرات گئے تک موجود رہے۔ شرکاءنے مہمان شخصیت سے اُن کی ابتدائی زندگی، تعلیمی سفر اور کمپیئرنگ کی منزل تک کامیابی سے پہنچنے سمیت فنِ میزبانی اور سرائیکی وسیب سے ہمیشہ سے جاری زیادتیوں پ

ر کُھل کر اور شائستگی کے ساتھ سوالات پوچھے۔یہ ایک یادگار تقریب تھی جسے برسوں تک یاد رکھا جائے گا۔

%d bloggers like this: