مئی 12, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ڈی جی خان تا کشمور خونی روڈ ۔۔۔ ملک خلیل الرحمان واسنی

مفاد عامہ کے لیئے دنیا بھر خاص طور پر سعودی ممالک سے اربوں ڈالر کی مد میں زکواتہ و صدقات و عطیات کی صورت میں جمع کرتے رہے ہیں اور

ضلع ڈیرہ غازیخان اورضلع راجن پور پنجاب کے پسماندہ ترین اضلاع جہاں لفظ پسماندگی بھی شاید شرما جائے مگر بدقسمتی سے یہاں کے ہر دور میں برسر اقتدار طبقہ نے کبھی یہ بھی نہ سوچا کہ سندھ،بلوچستان اور کے پی کے سنگم پریہ دونوں اضلاع واقع ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر یہاں سے ہزاروں گاڑیاں گزرتی ہیں۔

اس شاہراہ پرہزاروں افراد سفر کرتے ہیں اور مال برداری کے لیئے بھی ہزاروں گاڑیاں گزرتی ہیں اور یہ سیکنڑوں کلومیڑ پر محیط انڈس ہائی وے جوکہ نیشنل ہائی وے بھی کہلاتی ہے بدقسمتی سے کم و بیش200 کلو میٹر کا انڈس ہائی وے کا ٹکڑا قاتل خونی روڈ کی شکل اختیار کیئے ہوئے ہے جہاں ہر آئے روز کئی افراد بےموت لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔

درجنوں زخمی کئی گاڑیاں کھٹارااور مالی طور پر نقصانات کیساتھ ساتھ کئی افراد زندگی بھر کے لئے اپاہج ہوجاتے ہیں

1980کی دہائی میں پھر 2000 کی دہائی میں اس روڈ پر کچھ کام ہوا اور اب جگہ جگہ گڑھے اور روڈ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہےاور روزمرہ حادثات عام معمول ہیں اور ایک محتاط اندازے کیمطابق ہرسال 800سے 1000 افراد اس قاتل خونی روڈ کے سبب خاموشی سے موت کی وادی میں چلے جاتے ہیں اور منٹوں کا سفر گھنٹوں میں طے ہوتا ہے ۔

ناقص ڈویلپمنٹ ،پلاننگ اور حکمت عملی کے سبب سابقہ ادوار میں بائی پاس نکالنے پر تو زور دیاجاتا رہا مگر اسکو ون وے دو رویہ کرانے پر توجہ نہ دی گئی ہر آنیوالے سیاسی نمائندے ممبران قومی ،صوبائی اسمبلی،رکن سینیٹ ضلع ناظم،چیئرمین ضلع کونسل یہاں کے وسیب کے اعلی عہدوں پر فائز صدر،نگران وزیراعظم،سپیکر قومی اسمبلی ،وزیراعلی پنجاب،گورنر،ڈپٹی سپیکرزپنجاب،وفاقی وزراء،صوبائی وزراء،وزیر،مشیر اور بڑے بڑے حکومتی ایوانوں میں اربابِ اقتدار و بااختیار مگر افسوس صد افسوس کہ سوائے جھوٹے دعوؤں،طفل تسلیوں،لولی پاپس کے علاوہ کچھ نہ ہوسکا درجنوں سکول جانے والے بچے اس قاتل خونی روڈ کے سبب لقمہ اجل بن گئے جو خود تو واپس نہ آئے مگر انکی یادوں کا تازہ کرتے انکے سکول کے بستے آج بھی انکی مائوں اور دیکھنے والوں کے کلیجے چھلنی کرتے ہیں۔


کئی گھبرو جوان جو اپنے بوڑھے ماں باپ کا سہارا بہنوں کافخر تھے چند لمحوں میں اس قاتل خونی روڈ کے سبب موت کے منہ میں چلے گئے اور ایک انتہائی دردناک حادثہ اسوقت پیش آیا جب ایک انسانی جان کو اس قاتل خونی روڈ پر گاڑیاں روندتی رہیں اور وہ بدقسمت لاش قیمہ بن گئی جس کو بعد میں ریسکیو 1122کے بہت بڑے ہمت اور دل جگرے والے اہلکار نے قیمہ شدہ بوٹیوں کو گٹھڑی کی شکل میں جمع کیا مگراعلی عہدوں پر فائز کسی انسان کو بھی یہ واقعہ جھنجھوڑ نہ سکا

حالانکہ گزشتہ چند ماہ قبل وزیر اعظم پاکستان عمران خان،وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار بھی راجن پور کے دورے پرآئے مگر بدقسمتی سے اس حوالے سے کوئی اعلان نہ کیا گیا جو کہ لمحہ فکریہ ہے اور سب سے بڑھ کر ظلم کی بات یہاں کے این اے 191,192,193,194,195کے ایم این ایز،پی پی 290,291,292,293,294,295,296,297کے ایم پی ایز جو کہ ہر دور میں بالواسطہ یا بلا واسطہ حکومتی پارٹی کا اور اقتدار کا حصہ رہے اور وزراتوں کے ساتھ ساتھ ذاتی مفادات تو حاصل کرتے رہے مگر عوامی اور اجتماعی مفاد کے لیئے کچھ نہ کرسکے جس کی واضح ترین مثال سابقہ وفاقی وزیر مواصلات و رکن سینیٹ ڈاکٹر حافظ عبدالکریم جو اس کے لیئے کچھ بھی نہ کرسکے

حالانکہ مفاد عامہ کے لیئے دنیا بھر خاص طور پر سعودی ممالک سے اربوں ڈالر کی مد میں زکواتہ و صدقات و عطیات کی صورت میں جمع کرتے رہے ہیں اور کر رہے ہیں یہاں اس اہم ترین عوامی فلاح اور فوری حل طلب توجہ طلب مسئلے کی طرف توجہ نہ دے سکنا لمحہ فکریہ ہے
اب بھی ممبران اسمبلی جن کا تعلق ڈی جی خان،راجن پور سے ہے منسٹر ایریگیشن،منسٹر لائیو سٹاک اینڈ ڈیری ڈویلپمنٹ،ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی،مشیر صحت وزیر اعلی پنجاب،چیئرمین لینڈ ریکارڈ اتھارٹی،چیئرمین اسٹینڈنگ کمیٹی برائے لوکل گورنمنٹ اینڈ کمیونٹی ڈویلپمنٹ،چیئرمین ڈونر انگیجمنٹ ٹاسک فورس،وفاقی وزیر ماحولیات و موسمی تبدیلی،وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق،ممبر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی ہیں اور سب سے بڑھ کر تونسہ تخت لہور کے مسند نشیں وزیر اعلی پنجاب عثمان احمد خان بزدارجو کہ سرائیکی اور پسماندہ وسیب کی نمائندہ شخصیت جانے، مانے اور سمجھے جاتے ہیں کی مجرمانہ خاموشی سمجھ سے بالاتر ہے اس قاتل خونی روڈ کی اسمبلی میں قرار دادیں پاس ہوچکی پی سی ون بن چکے، سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر آئے 17ارب کی فنڈز کی منظوری کی خبریں بھی گردش کررہی ہیں مگر دو رویہ ون وے روڈ کی تعمیر میں آخر روکاوٹ کیا ہے؟


یا نا معلوم مزید خونی منظر،یا مزید لاشے، اور کئی خاندانوں گھرانوں کی بربادیاں دیکھنا چاہتے ہیں حالانکہ ایک محتاط اندازے کیمطابق ہر سال سینکڑوں افراد اس قاتل خونی روڈ کے سبب بے موت لقمہ اجل بنتے جارہے ہیں آخر وہ بھی تو کسی کے جگر گوشے ہیں کسی ماں کے جگر کے ٹکڑے ہیں کسی بیوی کے سہاگ ہیں کئی پھولوں جیسے مہکتے دمکتے چہروں کا خواب ہیں،کسی بہن کے بھائی ہیں کسی بوڑھے باپ کا سہارا ہیں
آخر یہ سب ہمارے وسیب میں کیوں جہاں سدا بہار برسوں سے لغاری،مزاری،دریشک،گورچانی، کھوسہ مسلط ہیں ہم پر سوائے تھانہ کچہری کی سیاست،صرف اختلاف برائے اختلاف کی سیاست بس؟
اور نہ صحت کے بہتر وسائل ہیں نہ تعلیم کے نہ روزگار،نہ بنیادی انسانی زندگی کے روزمرہ ضروریات زندگی کی بہتر سہولیات جو کہ ہمارا آئینی،قانونی،شرعی حق مگر ،بلکہ سب سے بڑھ کر ظلم پینے تک کا پاک صاف میٹھا پانی تک میسر نہیں؟
اور مضر صحت زیر زمین کڑوے پینے کے پانی کے سبب تھوڑا تھوڑا زہر ہمارے جسموں میں سرایت کر رہا ہے اور لوگ ہیپاٹائٹس کا شکار ہورہے ہیںمگر کوئی پوچھنے والا نہیں؟ اور موجودہ تحریک انصاف کی حکومت کے دوسال مکمل ہونے کو ہیں مگر بدقسمتی سے ضلع راجن پور تاحال کسی میگا پراجیکٹ سے محروم ہے؟


بہرحال اس فورم کے توسط سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سربراہان صدر مملکت عارف علوی،وزیراعظم عمران خان،وزیراعلی عثمان بزدار،وفاقی وزیر مواصلات مراد سعید،گورنر چوہدری محمد سرور،چیف سیکریٹری پنجاب،کمشنر ڈی جی خان،ڈپٹی کمشنر راجن پور اور متعلقہ اراکین صوبائی و قومی اسمبلی رکن سینیٹ اور متعلقہ حکام سے فی الفور اس قاتل خونی روڈ کو دو رویہ ون وے روڈ کی تعمیر کے احکامات کیساتھ ساتھ ایف ڈبلیو او کی مددومعاونت سے تعمیر ممکن بنانے کی اپیل کرتے ہیں تاکہ اس میں حسب سابق اور حسب روایت کرپشن بھی نہ ہو کیونکہ یہاں کرپشن مافیا سرگرم اور بے لگام ہے اور ان تک رسائی شاید اتنا مشکل اور ناممکن ہےکہ نہ ہی اینٹی کرپشن ہاتھ ڈال سکتا ہے نہ ہی نیب ان کیخلاف کاروائی کرتی ہے یا جان بوجھ کر وہ ان سب کی دسترس سے باہر اور آزاد ہیں مزید یہ کہ پراجیکٹ سست روی کا شکار بھی نہ ہوکیونکہ اس کے مقابلے میں اگر ڈی خان سے ملتان کافاصلہ بھی کم و بیش 115سے 130 کلومیٹر ہے جو کہ بہتر اور دو رویہ روڈ ہونے کیوجہ سے 40سے 50 منٹ میں فاصلہ طے ہوجاتا ہےمگر بدقسمتی یاالمیہ کہیں 30سے 40 منٹ کافاصلہ جو کہ ڈھائی سے تین گھنٹے میں طے ہوتا ہے اور اکثر اوقات مناسب صحت اور علاج معالجہ کی سہولیات راجن پور اور ڈی جی خان میں میسر نہ ہونے کے سبب مریض ملتان یا لاہور جاتے جاتے دم توڑ جاتے ہیں فرنٹیر ورکس آرگنائزیشن کے توسط سے بروقت تکمیل بھی ممکن ہو سکے اور قیمتی جانیں ضائع ہونے سے بچ سکیں۔

%d bloggers like this: