مئی 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

آٹا بحران اور الزاماتی ملاکھڑا ۔۔۔حیدر جاوید سید

دونوں کام اس کے باوجود کئے گئے کہ سال 2018ء اور 2019ء میں حکومتی دعوؤں کے باوجود گندم کی فصل پچھلے سالوں کے مقابلہ میں کم تھی۔

گندم کے بحران سے پیدا ہوئے مسائل اور الزاماتی ملاکھڑے سے کچھ اِدھر رُک کر ہمیں یہ بطورخاص سوچنا ہوگا کہ اگر سندھ میں اس بحران کی ذمہ داری پیپلز پارٹی کی حکومت پر ہے تو پنجاب’ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں ذمہ دار کون ہے؟
سندھ میں اپوزیشن لیڈر اور پی ٹی آئی کے رہنما فردوس شمیم نقوی کہتے ہیں بلاول کے دوستوں کو اُدھار پر گندم دی گئی نیب 90ارب روپے کا حساب لے۔
کیا سندھ میں 90 ارب روپے کی گندم ادھار دی گئی؟
الزام لگانا آسان ہے یا پھر ہم محض الزامات پر ہی ناپسندیدہ اور مخالف پارٹیوں کے لوگوں کی پگڑیاں اُچھال رہے ہیں؟۔
اس ضمن میں چند مثالیں عرض کرتا ہوں مگر پہلے یہ عرض کردوں کہ ستمبر2018ء سے اکتوبر2019ء کے درمیان وفاقی حکومت نے 6لاکھ 93ہزار436 میٹرک ٹن گندم 29روپے کلو کے حساب سے بیرون ملک فروخت کی اور 40ہزار ٹن گندم پچھلے برس افغان حکومت کو برادر پروری میں تحفتاً دی’
دونوں کام اس کے باوجود کئے گئے کہ سال 2018ء اور 2019ء میں حکومتی دعوؤں کے باوجود گندم کی فصل پچھلے سالوں کے مقابلہ میں کم تھی۔
اس کی وجہ کاشت پر فی ایکڑ بڑھتے ہوئے اخراجات تھے، نون لیگ کی طرح تحریک انصاف نے بھی اپنے ڈیڑھ سال میں زرعی شعبہ کے مسائل اور کاشتکاروں کی شکایات پر توجہ نہیں دی۔
نون لیگ نے پورے پانچ سال میں گندم کی فی من قیمت 50روپے بڑھائی، اس طرح تحریک انصاف نے دو ماہ قبل فی من گندم کی قیمت میں 50 روپے اضافہ کیا۔
رواں صدی میں پہلے ق لیگ کے دور میں فی من گندم 625روپے تھی پیپلز پارٹی نے 2008ء میں یہ قیمت 750روپے کی اور 2013ء تک گندم کی فی من سرکاری قیمت 1250روپے ہوگئی

پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے ادوار کو چھوڑ دیجئے، تحریک انصاف نے ان دو سابق حکمران جماعتوں کو چور’ ڈاکو’ کرپٹ اور عوام وملک دشمن ثابت کرکے اقتدار حاصل کیا۔

اب سوال تحریک انصاف کی حکومت سے ہی کئے جائیں گے۔
پچھلے ڈیڑھ سال کے دوران بجلی اور گیس کی قیمت میں ہوئے اضافوں کیساتھ کھاد’ زرعی ادویات اور بیجوں کی قیمت میں اضافے کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا۔
فی ایکڑ کاشت کا آسان ترین حساب یہ تھا کہ حکومت گندم کی امدادی قیمت کم ازکم 1500روپے مقرر کرتی
دوسرا سوال یہ ہے کہ صوبائی حکومتیں کل کاشت ہوئی گندم کا کتنا حصہ خرید کرتی ہیں؟
بہت تیر مار لیں اعداد وشمار میں تو مشکل سے 10فیصد’ 4فیصد وفاق خریدتا ہے یعنی 14 فیصد
سال2018ء میں جب گندم کی قیمت 1300 روپے فی من تھی تو کھلی منڈی میں آڑھتیوں نے 1150 سے 1200روپے تک فی من خریداری کی’ 2019ء میں کھلی منڈیوں میں 1200روپے کے حساب سے فی من گندم کاشتکاروں سے خریدی گئی۔
کھیت سے منڈی تک بار برداری کے اخراجات کسان کے ذمہ تھے یوں اگر بہت کم حساب بھی ہو تو کسان جو گندم آڑھتی کو 1200روپے من فروخت کر رہا تھا وہ اس کے اصل میں 1180روپے وصول کر رہا تھا۔
فلور ملوں کو حکومت سرکاری نرخوں پر سبسڈی کے ساتھ گندم فراہم کرتی ہے کوٹے کے حساب سے اور یہ مجموعی طور پر فی فلور مل 10فیصد کا حساب ہے یعنی 9فیصد گندم فلور ملیں مارکیٹ سے اُٹھاتی ہیں۔
1300روپے والی گندم کا فی من آٹا بڑے شہروں میں 16 سے 17سو روپے اور چھوٹے شہروں میں 18 سو روپے سے 2ہزار روپے فی من فروخت ہوتا ہے۔
یہ امر بھی غورطلب ہے کہ سندھ میں فصلوں پر ٹڈی دل کا حملہ ہوا سندھ سے ملحقہ صوبہ پنجاب کے کچھ اضلاع کی فصلیں بھی ٹڈی دل کے حملوں سے متاثر ہوئیں، ان دونوں بڑے صوبوں میں گندم کی رواں فصل کا کاشت رقبہ پچھلے سالوں کے مقابلہ میں مزید9فیصد کم ہے۔
کاشتکاروں نے نقد آور فصلیں کاشت کرنے کو ترجیح دی اصولی طور پر حکومت کو کرنا یہ چاہئے تھا کہ وہ کاشتکاروں کو کھاد’ بجلی’ زرعی ادویات کی قیمتوں میں ریلیف دلواتی لیکن نہیں دلوایا گیا۔
دوسری طرف ضرورتوں کے مطابق حکمت عملی وضع نہ کی جاسکی۔ سات لاکھ میٹرک ٹن گندم بیرون ملک بھیجنے والی حکومت اب تین سے چار لاکھ میٹرک ٹن گندم بیرون ملک سے منگوانے کا سوچ رہی ہے یہاں پھر غلطی کی جا رہی ہے۔
خریداری کے آرڈر اور گندم کے کراچی پہنچنے تک مارچ ختم ہونے والا ہوگا اس وقت تک تو سندھ کی گندم مارکیٹ میں آچکی ہوگی، ایسے میں نقصان مقامی کاشتکار کو ہوگا۔ اندریں حالات ٹھنڈے دل سے صورتحال کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے بجائے الزام تراشی کے۔

لیجئے اب ابتدائی سطور کے حوالے سے چند معروضات’ پچھلے دور میں کراچی سے دبئی جاتی ایک لانچ پکڑی گئی تھی دو ارب ڈالر کئی من سونا اور کروڑوں روپے تھے اس لانچ میں، یہ مال کہاں گیا؟
سراج درانی کے شکارپور والے گھر کے تہہ خانے سے 5ارب روپے برآمد ہوئے۔
شرجیل میمن سے بھی اربوں روپے برآمد ہوئے وہ سارا مال کہاں ہے؟
ٹی وی چینلوں پر "شامیں” لگوانے والے اب اس مال کو برآمد کروائیں۔
90ارب کی کرپشن کا تازہ الزام بھی ایسا ہی ہے جیسے خورشید شاہ پر 500ارب کی کرپشن کا تھا اور بات سوا ارب تک پہنچی۔
زرداری پر 54ارب کے جعلی اکاؤنٹ کا الزام تھا اب چند کروڑ کی بات ہے۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ بارہ سے بیس ارب روپے روزانہ والی کرپشن کہانی کیا ہوئی؟
ایک دوسرے پر الزامات اُچھالنے کی بجائے اپنے فرائض پر توجہ دیجئے۔
حرف آخر یہ ہے کہ کیا حکومت میں حوصلہ ہے کہ 11ماہ کے دوران چینی مہنگی کرکے 155ارب روپے لے اُڑنے والے شوگر مل مالکان کیخلاف بلاامتیاز کارروائی کرے؟
اس سے آگے خاموشی بھلی حضور۔

%d bloggers like this: