مئی 10, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پھٹتے آموں کا کیس بھی لاپتا!۔۔۔ اشفاق لغاری

پھٹتے آموں کے کیس میں جس طرح شھید کے خاندان نے اب دلچسپی لی ہے اگر یہ جذبہ گیارہ سال پہلے دکھایا جاتا تو شاید شھید کی کہانی کو مزید پذیرائی مل جاتی، چلو کوئی بات نہیں دیر آید درست آید۔

اعجاز الحق کے لئے ان کا والد جنرل محمد ضیاء الحق شھید ہے اور شھید زندہ ہوتے ہیں۔ باقی شھدا قبر سے لڑتے ہیں یا نہیں ہمیں معلوم نھیں، مگر ضیا تو لڑ سکتا ہے۔ اگر کسے اس بات پر تھوڑا بھی شبہ ہے تو وہ گواہی کے لئے دانیال پبلشنگ ہاؤس کی مالکہ حوری نورانی سے رجوع کر سکتا ہے۔ حال ہی میں دانیال والوں سے پھٹتے آموں کے کیس (The case of exploding (mangoes ناول چھاپنے پر ان کی ضیا سے ملاقات کرائی گئی ہے۔

دانیال والوں کے پاس پھٹتے آموں کے کیس کتاب کی سجیلے جوان باقی کتنی کاپیاں بھول گئے ہیں یہ خبر ابھی آنی ہے۔ محمد حنیف کا ناول The case of exploding گیارہ سال پہلے انگریزی میں چھپا اور خوب بکا۔ اس ناول دنیائے ادب کے بڑے انعام بکر پرائز کے لئے بھی نامزد ہوا۔ ناول کو اردو میں ڈھالنے والے کاشف رضا سے جب ایاز میلو حیدرآباد میں پوچھا گیا کہ آپ نے ناول کا ترجمہ کیوں کیا؟ تو انھوں نے کہا، ضیا، میرا اور محمد حنیف کا مشترکہ عشق ہے۔

گیارہ سال تک کسی کو ناول پر ایسا غصہ نہیں آیا جو اس کی پبلشر سے کاپیاں اٹھائی جاتیں، کتاب لکھنے والے اور اسے اردو میں ترجمہ کرنے والے کا پتا تک پوچھا جاتا۔ جیسے ہی ناول قومی زبان میں ترجمہ ہوا تو ملک بچانے کے نام پر اپنی روزی حلال کرنے والے نامعلوم اردو ترجمہ کی کاپیاں لاپتا کرنے کے لئے متحرک ہو گئے۔ اردو زبان کے فروغ کی باتیں کرنے والے ادارے حنیف کا نا سہی مگر کتاب کا اردو میں ترجمہ کرنے والے کاشف رضا کا تو اب دفاع کریں۔

حنیف کو ضیا خاندان کی طرف سے ایک لیگل نوٹیس بھی موصول ہو چکا ہے، شاید کاشف رضا کو بھی وہ نوٹس ملا ہے۔ حنیف گیارہ سال تک پھٹتے آموں کے کیس کی کمائی کھاتا رہا، ناول کی بدولت اسے شھرت ملی، وہ جہاں بھی گیا ناول نے اس کی خوشبو کی طرح پذیرائی کی۔ مگر اب ناول کے اردو ترجمے نے حنیف اور کاشف کو وکلا کے دفتر دکھا دیے ہیں۔ حنیف کو کاشف نے مروایا یا کاشف نے حنیف کو؟ اس سوال کا جواب بھی ابھی آنا ہے۔

محمد حنیف کو پہلی فرصت میں فیصل مسجد، اسلام آباد شھید کے مزار پر جا کر ان کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ انہوں نے حنیف کو ایسی رس دار کہانی دی۔ اس کے بعد حنیف کو اعجاز الحق اور ضیا خاندان کے دیگر افراد کی تعظیم کرنی چاہیے کہ انہوں نے ابھی تک کہانی کا کوئی کاپی رائٹ بھی نہیں مانگا۔ امید کرتے ہیں کہ مستقبل میں بھی ضیا خاندان کبھی ایسا کوئی مطالبہ نہیں کرے گا۔ آخری اطلاعات تک شھید کے خاندان کے مردوں نے اپنے آپ کو گھر کی اس کہانی (یعنی ناول) سے بچا رکھا تھا، حال کا پتا نہیں۔

جس وکیل نے حنیف اور کاشف کو لیگل نوٹس جاری کیا ہے، ان کو پورا نا ہی سہی مگر سرسری ناول تو پڑھنا پڑا ہوگا۔ حسب روایت سینئیر وکیل نے خود اگر ناول نا پڑھا ہوگا تو کسی جونیئر سے ضرور پڑھایا ہوگا اس کے بعد ہی لیگل نوٹس بنا ہوگا۔ یہ نوٹس بھیجنے والے کا شکریہ ادا نہ کرنا بھی اچھی بات نہیں ہوگی کہ ان کی مدد سے پھٹتے آموں کا کیس پڑھنے والے مزید دو چار لوگ اور بھی مل گئے۔ اس کہانی کی یہی تو برکت ہے۔

ناول میں اور بہت سی باتیں ہیں مگر ان بیوہ خواتین کی بھی کہانی ہے جن میں ضیاء الحق ایوان صدر میں چیک تقسیم کرتا ہے۔ ضیا کا وزیر برائے اطلاعات بڑی محنت سے تھوڑے وقت میں اتنی ساری بیوہ خواتیں کو کٹھا کرتا ہے۔ اور اس تقریب کے لئے جو انتظامات کئیے گئے تھے ان میں بھی ایک بڑی غلطی ہو گئی تھی۔ ہوا یہ کہ Widows کی جگہ پروف کی غلطی سے Windows لکھ دیا گیا تھا۔ پوری تقریب میں وزیر صاحب Windows کے سامنے کھڑا رہا، وہ ایک لمحے کے لئے بھی وہاں سے نہیں ہلا، کہ کہیں صدر صاحب نا دیکھ لیں۔ اور اس تقریب میں اندھی زینب کی بازیابی کے لئے ایک عورت نے کس طرح شور کیا تھا اس طرح کے مناظر ناول میں ہی تفصیل سے دیکھے جا سکتے ہیں۔

پھٹتے آموں کے کیس میں جس طرح شھید کے خاندان نے اب دلچسپی لی ہے اگر یہ جذبہ گیارہ سال پہلے دکھایا جاتا تو شاید شھید کی کہانی کو مزید پذیرائی مل جاتی، چلو کوئی بات نہیں دیر آید درست آید۔

%d bloggers like this: