مئی 4, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کُکڑا دھمی دے آ ۔۔۔ گلزار احمد

تم پردیسی بن کر نگر نگر پھرتے رہے وطن کی یاد تمھارے دل میں فلم بن کر سیو ہو گئی اب تم وہی فرصت کے رات دن تلاش کرتے ہو جب بیٹھے رہو تصور جاناں کیے ہوئے۔

کُکُڑ در اصل سرائیکی زبان میں مرغے کو کہتے ہیں ۔اس ککڑ کے دونوں ک کے اوپر پیش لگا کر پڑھتے ہیں اور اگر دوسری ک کے نیچے زیر لگا کر کُکِڑ کہ دیں تو یہ مرغی کہلاتی ہے۔

اوپر جو عنوان ککڑا دھمی دے آ ۔۔ لکھا ہے اس کا سادہ سا مطلب ہے ۔اے صبح سویرے بانگ یا اذان دینے والے مرغے ۔ یہ ایک گانے کے بول ہیں جس میں بتایا گیا ہے کہ جب دو محبوب آپس میں ملاقات کر رہے تھے مرغے نے اچانک جلدی بانگ دے دی اس طرح وصال کا وقت ختم ہوا اور ہجر کا وقت شروع ہو گیا اور ایک اداسی چھا گئی۔

خیر مجھے آج یہ کالم اس لیے لکھنا پڑا کہ میرے گاوں میں بھی صبح سویرے مرغوں کی اذانیں شروع ہو جاتی تھیں اور ہم ان مرغوں کی بانگ سے بیدار ہو کر نماز فجر اور کام کاج کی تیاری میں مشغول ہو جاتے۔

دراصل گاوں کی زندگی میں مرغوں کی بانگ بیدار ہونے کا بگل تھا اور تقریبا” ہر گھر سے مرغوں کی اذانیں شروع ہوتی تھیں بلکہ مقابلہ ہوتا تھا۔اب ہمارے گاوں والوں نے مرغے رکھنے چھوڑ دیے تو صبح سویرے سبزی منڈی جانے والی چنگچیوں۔اینٹیں اور ریت اٹھانے والی ٹریکٹر ٹرالیوں کے شور سے آنکھ کھلتی ہے۔

چڑیاں بھی چوں چوں کرتی تھیں ۔بلبلیں بھی بہار دکھاتی تھیں کوئیل بھی گیت گاتی تھی کہیں نہ کہیں سے گورے اور مشکی تیتر کے نغمے سنائی دیتے تھے دریا کے اوپر کونجیں اور منگھ آوازیں دیتے تھے اب یہ تمام نغمے سننے کو ہمارے کان ترس رہے ہیں۔

ان پرندوں کی خاموشی سے میرے اندر ایک شور سا اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ بہت سے پرندوں کی نسلیں تو صفحہ ہستی سے مٹ گئیں اور برطانیہ میں اب ان پرندوں کی آوازوں کی لائیبریری بنائی گئی ہے تاکہ نئی نسل کو ان کی تصویریں اور آوازیں سنا کر روشناس کرایا جا سکے۔

ہمارے گاوں میں جب پرندوں کی آوازیں تھی تو ہماری صبح بڑی چوکس۔خوشگوار اور رومینٹک ہوتی تھی اب مشینوں کی آوازوں اور دھویں سے ہماری صبح گدلی گدلی۔آلس کی ماری۔مضمحل اور تھکی تھکی سی ہوتی ہے۔

میں نے آدھا کالم لکھ کر اپنے دوست بھولا کو دکھایا کہ یار دیکھو میرا گاوں کتنا بدل گیا۔اس نے کالم پڑھا اور عجیب منطق نکال لی۔کہنے لگا تمھارا درد نہ پرندوں کی آوازیں ہیں نہ دسمبر کا مہینہ ہے تمھارا رونا تمھاری رومینٹک جوانی ہے اس لیے تم بیتے ہوے دن اور ماحول کو یاد کر کے آہیں بھرتے ہو۔

تم پردیسی بن کر نگر نگر پھرتے رہے وطن کی یاد تمھارے دل میں فلم بن کر سیو ہو گئی اب تم وہی فرصت کے رات دن تلاش کرتے ہو جب بیٹھے رہو تصور جاناں کیے ہوئے۔

میں نے بھولے سے پوچھا یار گاوں بدل نہیں گیا؟ اس نے کہا ہاں بدل تو گیا مگر یہ ہمارے سامنے دھیرے دھیرے بدلا تم پردیس میں تھے واپس آئے تو یہ بہت زیادہ تبدیل ہو چکا تھا تم اب گاوں کے رنگین دن اور حسین راتیں تلاش کرتے پھرتے ہو تمھارے اندر پرانا پیار ۔پرانے نغمے ۔پرانی محبت۔پرانی تہذیب خیمہ ڈال کر قبضہ جماے بیٹھی ہے ۔

اب بھولا تمھارا رومانس واپس نہیں لا سکتا؟ میں اور بھولا رومانس کی اس کشمکش میں بیٹھے تھے کہ اچانک ممتاز ادیب محترم سیدحفیظ گیلانی کا فون آگیا۔ وہ مریالی پانی کی ٹینکی کے نیچے PTI کی جانب سے فلٹر پلانٹ لگانے کی تقریب میں مدعو تھے جہاں انہیں خوشخبری ملی کہ ان کی گلی پختہ کرنے کی منظوری ہو گئی اور ٹینڈر جلد ہوگا۔ انہوں نے وہیں سے مجھے فون کیا کہ تمھاری حکومت نے میری گلی کی منظوری دے دی۔

میری حکومت اس لیے کہ میں PTI کا بہت پرانا ووٹر ہوں اس لیے معاشرے میں ہر برے کام پر بھی مجھ سے کہا جاتا ہے تمھاری حکومت نے مہنگائی ۔جرمانے۔لوڈشیڈنگ کر دی آج میری حکومت نے حفیظ گیلانی کی گلی منظور کر لی۔

اب میری حکومت میں کردار کی مثال بھی سن لیں۔ پاکستان بننے سے کچھ عرصہ پہلے لاہور میں تحریک آذادی کے روزانہ جلسے جلوس ہوتے تھے جس میں بہت لوگ شرکت کرتے۔

اس زمانے مال روڈ پر جھاڑو دینے والی دو جمعدارن صفائی کے کام سے فارغ ہو کر فٹ پاتھ پر بیٹھی باتیں کرنے لگیں۔ایک جمعدارن نے دوسری سے پوچھا یہ روز جلسے جلوس کیوں ہوتے ہیں؟

دوسری جمعدارن نے کہا یہ جلسے اس لیے ہو رہے ہیں کہ یہ لوگ ہماری حکومت ختم کر کے اپنا راج قایم کرنا چاہتے ہیں۔ دونوں صفائی کرنے والی جمعدارن چونکہ عیسائی تھیں اور انگریز بھی عیسائی تھے تو دونوں یہ سمجھ بیٹھی تھیں کہ انڈیا میں ہماری حکومت ہے اور لوگ اس کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔

تو گلزار احمد بھی چونکہ PTI کا ووٹر ہے اس لیے لوگ اس کی حکومت سمجھ بیٹھے ہیں ورنہ پچھلے پانچ سال میں مجال ہے کسی بڑے نے ہمیں PTI کا ورکر سمجھ کر کوئی حال ہی پوچھا ہو۔

ہاں سرے راہ دعا سلام ہو جائے تو بس۔تو گیلانی صاحب کا شکریہ کہ انہوں نے یاد دلایا تو مجھے یاد آیا۔

%d bloggers like this: