پیاری ھما،
آج دسمبر کی 31 تاریخ اور سال 2019ء کا آخری دن ہے۔ میں سرائیکی خطے کے ایک چھوٹے سے شہر خانیوال میں طارق آباد کالونی کے ساڑھے چھے مرلے 300 گز پلاٹ پر بنے ایک مکان کی دوسری منزل میں پر بنے اپنے حصّے کی رہائش کے ایک کمرے کے مشرقی کونے میں میز پر دھرے لیپ ٹاپ کو کھولے، کيی بورڈ پر سیدھے ہاتھ کی انگشت شہادت کو چلارہا ہوں۔ بائیں ہاتھ میں سگریٹ دبی ہے جسے وقفے وقفے سے ہونٹوں تک لیکر جاتا اور لمبے لمبے کش لگا لیتا ہوں۔
لیپ ٹاپ میں ایک ونڈو میں،میں نے تمہاری اور میری پسندیدہ 20 دھنوں پر مشتمل البم میوزک پلئیر میں کھول رکھا ہے اور ایک کے بعد ایک دھن سنے جارہا ہوں۔ تمہیں تو معلوم ہے کہ تمہارے زمانے میں انٹرنیٹ نہیں تھا اور پی سی بھی نہیں تھے- اس زمانے میں سونی یا نیشنل کا کیسٹ پلئیر ہوتا تھا اور میں ہیڈفون لگاکر انسٹرومنٹل میوزک سنا کرتا اور ساتھ ساتھ ذہن پر اترتے خیالات کو اخباری کاغذوں کی شیٹ پر اتارتا چلا جایا کرتا تھا-
یہ اخباری شیٹ اے فور سائز میں کٹی ہوتی تھیں جن کو میں اخبار کے دفتر سے لیکر آتا تھا جہاں میں پروف ریڈر کی نوکری کررہا تھا اور میرے ذمے میں شہر میں ہوئے جرائم پر مبنی خبروں کی پروف ریڈنگ کا کام ہوا کرتا تھا۔ تم میرا شکستہ خط دیکھ کر کافی مذاق اڑایا کرتی تھیں- تمہیں لگتا تھا کہ یہ شکستگی میرے اندر کی کہنگی اور شکستگی کا پتا دیتی ہے۔
آج بھی میرے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں میں ہلکا ہلکا سا رعشہ ہے جو اس زمانے میں کاغذ پر لکھے میرے الفاظ کو شکستہ کردیتا تھا لیکن یہ کیي بورڈ سیٹینوگراف کی کيی کی طرح اسکرین پر ایم ایس آفس میں لکھے جانے والے الفاظ کو شکستہ ہونے نہیں دیتا- لیکن اس سے ہاتھوں کا رعشہ اور اندر روح کا رعشہ تو بدستور موجود ہے۔ ڈیجٹل دور کی نجانے یہ خوبی ہے کہ خامی ہے کہ یہ ظاہر کو بہت بنا سنوار کر پیش کرتی ہے جبکہ اس کا بیک یارڈ ڈارک ویب کی طرح موجود رہتا ہے۔
میں نے ان دنوں ربی شنکر بال کا ناول ‘دوزخ نامہ’ پڑھا ہے۔ دو ہفتے گزرے میں بہاءالدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے شعبہ اردو کے سربراہ قاضی عابد سے ملنے گئے تھا تو وہ مجھے کہنے لگے کہ تم کراچی کا دوزخ نامہ کیوں نہیں لکھتے۔ اپنی یادوں کو آواز دو اور لکھ ڈالو۔ میں سوچ رہا تھا کہ اس دوزخ نامے کو لکھنے کے لیے منٹو جیسی آنکھ درکار ہوا کرتی ہے اور وہ آنکھ میرے پاس نہیں ہے اور وہ اس لیے نہیں ہے کہ میرے پاس کوئی عصمت نہیں ہے اور ایک تم ہو جو کراچی کے دوزخ کے پڑوس میں وادی حسین کی بہشت میں مقیم ہو۔ دوزخ نامہ لکھنے کے لیے ایسی قبروں کا مکین ہونا پڑتا ہے جو دوزخ کا مکان رکھتی ہوں اور جہنمی زمان ہو۔
سلگتا ہوا، جھلسلاتا ہوا زمان جو مسلسل اور تسلسل دونوں صفات رکھتا ہو اور پھر دوزخی مکان و جہنمی زمان کے اندر موجود قبروں میں ایک دوسرے سے مکالمے کے لیے کسی غلام گردش کا ہونا بھی لازم ہے جہاں سے چل کر ایک دوزخی دوسرے جہنمی تک آسانی سے پہنچ جائے۔ اور پھر دوزخ نامہ لکھنے والے کے لیے سب سے پہلے مرنا بھی تو ضروری ہے۔ اور اس کے ساتھ مکالمہ کرنے والے شخص کا کم از کم سو سال پہلے مرنا لازم ہے-
اس لیے میں ایسا کچھ بھی لکھنے سے قاصر ہوں۔ سال 2019ء کا آخری دن اور آہستہ آہستہ اترتی شام سرد ترین ہے اور سرد کاٹ دینے والی ہوا چل رہی ہے۔ ملجگا دن تو دھند میں لپٹی سرد رات ہے اور حد نگاہ صفر ہے لیکن میں پھر بھی تخیل کی آنکھ سے 1996ء کے سال کے آخری دن میں آغا خان ہسپتال کے کینسر وارڈ اس کمرے تک پہنچ گیا ہوں جہاں بستر پر ہلکے آسمانی رنگ کا مخصوص لباس پہنے اور سر پر سبز ٹوپی پہنے زرد رنگت کے ساتھ تم لیٹی ہوئی ہو- ناک میں ایک نلکی لگی ہوئی ہے اور تمہارے دونوں ہاتھوں پر سوئیاں لگی ہوئی ہیں اور تمہاری کلائی پر جگہ جگہ سوئیاں چبھونے سے پڑ گئے سیاہ نشان ہیں۔
تمہاری آنکھوں کے گرد پڑے سیاہ حلقے ہیں مگر تمہاری آنکھوں سے چمک یہ سب نہیں چھن سکے ہیں- اور خشک ہونٹ جن پر پپٹریاں جمی ہوئی ہیں مگر ان پر مسکان ویسے ہی کھلی پڑی ہے جیسے عمومی طور پر دیکھنے کو ملتی ہے۔ تمہاری تھوڑی سی کھردری مگر ملاحت سے مملو آواز کی پچ تھوڑی کمزور ہوگئی ہے اور تمہں یاد ہے وہ بنگالی فلم (بیرا پھول) شادی کے پھول جس کا ایک کردار ملّی تھی جو رانی مکھرجی نے ادا کیا تھا۔ اس رانی مکھرجی کی آواز بالکل تمہارے جیسی ہے، یہ دیکھ کر میں اور تم حیران رہ گئے تھے۔ رانی مکھرجی اب بولی ووڈ کی معروف اداکارہ ہے-
1996ء کا وہ آخری دن اور رات ہم نے وہیں اس کمرے میں گزاری تھی اور میں نے کیسٹ پلئیر میں تمہیں ہماری یہی پسندیدہ دھنیں سنوائی تھیں۔اور اس سال کی رات کے آخری پہر اس سال کا سب سے مقبول گیت جو دوسرے نمبر پر سپرہٹ گیت تھا:
Mysterious Girl
I stop and stare at you
Walking on the shore
I tried to concentrate
My mind wants to explore
The tropical scent of you
Takes me the above
And girl when I look at you
OH, I fall in love
No doubt you look so fine
Girl, i wanna make you mine
I want to be a woman just like to you
No doubt I’m the only man
Who can love you like I can
So just let me with the woman that I love
Mysterious Girl
I wanna get to close to you
رات کے اس آخری پہر تم میری مسخریاں دیکھ کر کھلکھلا کر ہنس رہی تھیں اور بار بار تمہیں کہتی تھیں:
پراسرار لڑکی اور مسخرہ لڑکا
یار،اس رات مجھے بار بار محسوس ہوتا تھا کہ یہ سب مصنوعی ہے اور اندر تمہارے کرب ہے اور میرے اندر تکلیف اور ہم یہ ناٹک کس کو بہلانے کے لیے کررہے تھے۔ اس رات میں نے دیکھا جو عورت مجھے ہمیشہ کہتی تھی کہ نظریں ملاکر دو بدو بات کرنے سے گریزاں ہونا بدتہذیبی ہوتی ہے اور خود آج وہ نظریں ملانے سے گریزاں تھی۔ میں یہ سب تمہیں اس رات کہنا چاہتا تھا۔ اور میرا دل تو کررہا تھا کہ میں نوے کی دہائی کا اداس ترین گیت
Stone Sour
لگاؤں اور بار بار بس یہی گنگناؤں
Withering Eyes Catch you as you fall
A bitter Sigh no one moves at all
لیکن شدید خواہش کے باوجود میں نہ کہہ سکا اور نہ اداس ترین گیت کو کیسٹ پلئیر پر چلا پایا- اگرچہ اگلی صبح واپس گھر آکر میں نے رات ہونے تک بار بار اس گیت کو سنا تھا۔ میں اس مرتبہ کراچی گیا اور وہاں بارھویں عالمی اردو کانفرنس ہو رہی تھی کراچی آرٹس کونسل میں۔
وہاں ایک ڈاکٹر عورت مجھے ملی جو آج کے دور کے ایک خام کامریڈ کے ساتھ بس وہی خواب آنکھوں میں بسائے میرے سامنے کھڑی تھی کہ شادی کرکے گھرہستی میں بدل جائے۔ یہ خواب اس نے پہلی بار اس وقت دیکھا تھا جب وہ ڈاکٹر بن رہی تھی اور اس وقت وہ آر کماری تھی تھی یعنی مٹھی تھرپارکر سے آئی ایک ہندؤ ناری جو اپنے ایک مسلمان حافظ کلاس فیلو کے عشق میں مبتلا ہوگئی تھی-
اس نے اس سے شادی کے لیے مسلمان ہونے کی شرط رکھی- آر کماری مسلمان ہوگئی اور اس نے اپنے گھر والوں کو چھوڑ دیا لیکن اس دوران وہ مسلمان حافظ ڈاکٹر بن گیا اور اسے لگا کہ ڈاکٹر آر کماری اس کے خوابوں کے آڑے آرہی ہے تو اسے چھوڑ کر بھاگ نکلا۔ بے وفائی کے داغ لیے ایک ٹراما کے دوران جس ہسپتال میں وہ جاب کررہی تھی وہیں ایک کامریڈ ڈسپنسر نے اس سے اظہار عشق کیا اور اسے اپنی جھوٹی موٹی داستان الم سنائی کہ اس کی بیوی اسے سکھ دینے سے قاصر ہے۔
وہ ایک دوزخ میں رہ رہا ہے۔ ڈاکٹر آر کماری نے سوچا اس کا اپنا نرک اور کامریڈ کا جہنم دونوں حیات کے زندان ہیں اور وہ دونوں اگر ایک ہوجائیں تو خیات کے زندانوں سے نجات مل جائے گی۔ میں خام کامریڈ سے واقف تھا جو ٹراما میں نہ ہوکر بھی ٹراما میں ہونے کا ناٹک اتنی خوبصورتی سے کرتا تھا کہ اس کے ساتھ رہنے والے اور اس سے واقف لوگ بھی دھوکہ کھا جاتے تھے۔ عورت کی اندام نہانی پر قابض ہونے کے مرض میں مبتلا مریض ہوتے کمال کے اداکار ہیں اور یہ کار ہوس میں بھی کار عشق کا تقاضا کرنے والے کردار کو ادا کرتے ہیں اور ٹراما سے گزرنے والی عورت اسے سچ سمجھ بیٹھنے کی غلطی کرتی ہیں اور ایک ٹراما سے نکلتی نہیں ہیں کہ دوسرے ٹراما میں گرفتار ہوجاتی ہیں-
یہ کبھی اس عورت سے ملتی تک نہیں جس کو ظالم اور بے حس دکھا کر کار ہوس کرنے والے مظلوم ہونے کا سوانگ بھر کر ان کے سامنے آتے ہیں اور جب کار ہوس کی منزل سے گزر کر دھوکہ و بے وفائی کی منزل تک پہنچتی ہیں تو تب بھی کار ہوس کرنے والے کے یار دوستوں سے یہی کہتی ہیں کہ اس عورت سے کہے کہ اپنے آدمی کو سکھ دے۔ خیر جب وہ ڈاکٹر آر کماری مجھ سے مشورہ مانگ رہی تھی تو میں نے تمہیں اس کے عقب میں کھڑے دیکھا اور وہ ساری باتیں ایک فلیش بیک کی صورت میرے سامنے سے گزر گئیں جو تم اکثر اس طرح کی سچوئشن بارے کہا کرتی تھیں اور میرے ذہن میں تمہارا وہ فقرہ بازگشت بنکر گونجا،’ سفاک مسیحائی کے فریضے سے پیچھے مت ہٹنا عامی،ورنہ مجھے کھو دو گے’ اور میں اسے کہہ بیٹھا کہ تم ایک نرک سے دوسرے نرک کی طرف سفر کررہی ہو- ایک ٹراما سے نکلنے کے لیے دوسرے ٹراما سے گزرنے کا انتخاب اچھا نہیں ہے۔
جب تک تم ٹراما سے باہر نکل کر اپنے آپ کو اپنے کنٹرول میں نہیں لاؤگی گھرہستی کا خواب چکنا چور ہوتا رہے گا اور تم یونہی ٹکڑے ٹکڑے ہوتی رہوگی- خام کامریڈ تو خیر اتنا ذہین و فطین تھا نہیں کہ میری کہی بات کے پیچھے چھپے سفاک مسیحائی کے قریب پہنچے معانی تک پہنچ جاتا لیکن پنڈی گھیپ سے تعلق رکھنے والا ایک جیالوجسٹ بخاری جو میرے ہمراہ اس دن وہاں موجود تھا معانی کی تہہ تک پہنچ گیا اور اسے میرا یہ سب کہنا بہت عجیب لگا اور دوستی کے تقاضوں کے منافی بھی۔
لیکن خام کامریڈ کار ہوس کے کردار کو چونکہ اب اور کچھ دن ادا کرنے سے قاصر تھا تو وہ بھاگ لیا۔ اس کے بعد بس کیا تھا، ایک اور ٹراما تھا اور ڈاکٹر آر کماری کی ایک لمبی فون کال جس دوران اس کی سسکیاں، اس کا جنون اور ایک زخم کھائی ہستی کے وہی طعنے،کوسنے اور چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھالینے کا منظر۔ مجھے وٹس ایپ پر اور موبائل فون پر اس نے کوئی دسویوں رنگ کال کیں اور میسجز کیے کہ ایک بار اس کی بات سن لو۔ میں جانتا تھا کہ وہ کیا کہنے والی ہے۔
میں اس دوران 27 دسمبر بارے اپنے ذمے لگی صحافتی ذمہ داریوں میں مشغول تھا۔ میرے پاس دوسری سفاک مسیحائی کرنے کا وقت نہیں تھا۔ اس نے درجن بھر مسیجز میں مجھے اپنی رام کہانی سنا ڈالی،وہی باتیں جو وہ مجھ سے فونکال پر کرنا چاہتی تھی- 96ء بہت ستمگر سال تھا، میر مرتضی بھٹو اپنے گھر کے سامنے خون میں لت پت پڑے تھے اور پھر وہ ہسپتال جاکر امر ہوگئے۔ ایک ایسا بھولا پنچھی جو 5 جولائی 1977ء سے 1996ء تک سادگی سے یہی سمجھتا رہا کہ انفرادی دہشت گردی اور انفرادی بغاوت سے وہ ضیاءالحقیت کے سرطان کو نیست و نابود کرڈالے گا اور اس نے کبھی اپنی بہن کی سیاسی بلوغت سے فائدہ اٹھانے کی سوچی ہی نہیں تھی۔
اس دن تم بلک بلک کر روئی تھیں لیکن تم نےبھی میری طرح اس بات پر ایک پل بھی یقین نہیں کیا تھا کہ مرتضی بھٹو کی لاش کسی بہن اور بہنوئی کی ہوس اقتدار کا نتیجہ تھی۔ اچھا ہوا تم 27 دسمبر دو ہزار سات کا دن دیکھنے کے لیے زندہ نہ رہیں ورنہ شاید تمہارا کلیجہ پھٹ جاتا اور تم یہ دیکھ کر پاگل ہوجاتی کہ لوگوں کو ضیاء الحقیت کا سرطان بے نظیر بھٹو کو نگلتے نہیں دیکھ پاتا لیکن ان کا شیطانی تخیل زرداری کے ہاتھ میں پستول ضرور دیکھ لیتا ہے جس کا رخ بے نظیر بھٹو کی طرف ہوتا ہے اور یوں ایک بار پھر کوفہ میں حسین کے چاہنے والے ہی قاتل،دھوکہ باز اور عہد شکن ٹھہرا دیے جاتے ہیں۔ جیسے محبت میں سب جرم بھٹو کے کھاتے میں ڈال جاتے دیکھا تم نے اور پھر وہی جرم بیگم نصرت بھٹو کے اور بے نظیر کے کھاتے میں ڈال دیے گئے تھے۔
وہ اپنے باپ کی سیاسی میراث کی غارت گر تو ٹھہرائی ہی گئی ساتھ ساتھ اپنے بھائی کی قاتل بھی ٹھہری۔ بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو دونوں عورتیں تھیں تو ضیاءالحقیت روز اپنے شیطانی تخیل کے زور پر ان کا لباس اتروالیتی اور ان کے بستر تک کئی کرداروں کو رسائی دیتی اور یوں یہ سمجھ لیا جاتا کہ یہ دونوں عورتیں اپنی سیاسی میراث کو تیاگ کر گھر بیٹھ جائیں گی- آج بیگم نصرت بھٹو کا نواسہ اور بے نظیر بھٹو کا بیٹا جب اپنے نانا کا علم تھامے کھڑا ہے تو اس کے اندر سے ضیاء الحق کے بھوت سے مباشرت کرنے والے ایک ٹرانس جینڈر کی تلاش شد و مد سے کررہے ہیں اور روز اسے اپنے گندے تخیل میں پامال کرتے ہیں اور اسے تبدیلی و انصاف کی سیاست کہتے ہیں۔ ہر زندہ بھٹو کو گزر گئے بھٹو کے نام پر ڈس کریڈٹ کرنے کو سیاست کہا جاتا ہے۔
بھٹو کے داماد سے یہ بے نظیر کے بارے میں تین بار طلاق سننے کے متمنی رہے اور اسے بدکار کی سند دینے کے لیے ترغیب و ترھیب دیتے رہے اور جب نا مانا تو اس کی جوانی کو جیلوں میں میں ہی برباد کرڈالا۔ میں کیا باتیں لے بیٹھا ہوں۔ چاہتا تھا بس تمہاری اور اپنی باتیں کروں۔ لیکن کبھی ہم اپنے ارد گرد سے بے پرواہ ہوکر خالص من و تو کی بات کرسکتے ہیں؟ نہیں نا۔ یہ دسمبر یہاں تو اس مرتبہ خشک اور سرد ہی گزر گیا اور بارش کی ایک بوند بھی نہیں برسی۔ سنا ہے وہاں کراچی اور لاہور والوں نے دسمبر کی بھیگی راتوں کو اور بھگونے والی بارشوں کا منظر خوب دیکھا۔
مجھے یاد آیا جب 97ء میں دسمبر کی آخری رات آئی تھی اور میں کراچی میں وادی حسین میں تمہاری قبر پر بیٹھا تم سے محو کلام تھا تو بارش خوب برسی تھی اور اس نے دسمبر کی بھیگی رات کو پانی میں شرابور کردیا تھا اور میں گھر سے کوئی چھاتہ لیکر بھی نہیں چلا تھا۔
تمہاری مارچ کے وسط میں موت نے میری بہار کو خزاں میں ایسا بدلا تھا کہ میرے لیے سارے موسم پت جھڑ کے موسم بن گئے تھے اور میرے اندر سر جہنم کا عذاب آکر ایسا بیٹھا تھا کہ مجھے جون جولائی کی گرمیاں برفباب لگنے لگی تھیں- یہ وہ زمانہ تھا جب ضیاء الحق کا روحانی بیٹا امیر المومنین بننے کا سفر شروع کرچکا تھا اور بے گناہوں کے احتساب کا زمانہ تھا جیسے آج ہے۔
ویسے مارچ 1997ء کا وہ وسط جب تم نے رخصت لی اور مکین برزخ ہوگئیں تو میرے عالم مادی میں ایک کیفیت آکر مستقل براجمان ہوگئی تھی جسے ‘غیریت’ کہوں تو پتا نہیں مناسب ہوگا یا نہیں ویسے کافکا نے اس کو ‘فارننیس’ کہا تھا۔ اور ملینا سے پوچھا تھا:
Do You enjoy foreignness for its own sake?
غیریت/بیگانگی سے بطور غیریت/بیگانگی لطف اٹھانے کا حوصلہ آسان نہیں ہوتا کیونکہ کرب اس میں ہر صورت شامل ہوتا ہے چاہے آپ اسے پسند کریں یا نہ کریں۔ ہمارے ہاں آج ساگ پکا ہے۔ اور تم بھی تو اسے شوق سے کھایا کرتی تھیں۔ تو کیا یہ ساگ وہاں جنت میں دستیاب پکوانوں میں شامل ہے کہ نہیں؟ یا اسے بھی پڑوس میں دوزخ والوں کے مینیو میں شامل کردیا گیا ہے؟ یا یہ جنت و دوزخ کے درمیان ‘نومین لینڈ’ ‘اعراف’ والوں کی ڈش میں شامل ہے۔
اچھا اب اجازت
فقط تمہارا عامی
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ