مئی 9, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کیا اب چیف الیکشن کمیشنر بھی ”انکا“؟۔۔۔ نوشین یوسف

حکومت کی جانب سے ارکان پارلیمانی کمیٹی اصرار کرر ہے ہیں کہ چیف الیکشن کمیشنر کے لیے بابر یعقوب فتح کا نام فائنل کریں۔

پاکستان کے چیف الیکشن کمیشنر جسٹس ریٹارئرڈ سردار رضا اپنی مدت ملازمت پوری ہونے پر 5 دسمبر کو ریٹائر ہو چکے ہیں ۔ چیف الیکشن کمیشنر کے عہدے کو پر کرنے کے لیے 45 دن کا آئینی وقت موجود ہے ۔ تاہم اس عہدے پر تعیناتی دلچسپ صورت حال اختیار کر چکی ہے۔ چیف الیکشن کمیشنر اور ممبران کی تعیناتی کے لیے پارلیمانی کمیٹی اپنے متعدد اجلاس موخر کر چکی ہے ، اور منعقد ہونے والے اجلاس بے نتیجہ ختم ہوئے ہیں ۔ اسپیکر قومی اسمبلی کے چیمبر میں مشاورتی اجلاس بھی اتفاق رائے پیدا کرنے میں ناکام رہے ۔
وزیر اعظم نے چیف الیکشن کمیشنر کے لیے سیکریڑی الیکشن کمیشن بابر یعقوب فتح محمد، فضل عباس میکن اور عارف خان جبکہ قائد حزب اختلاف نے ناصر محمود کھوسہ، اخلاق احمد تاررڑ اور جلیل عباس جیلانی کا نام تجویز کیے ۔ یہ نام اس وقت پارلیمانی کمیٹی کے سامنے ہیں ۔ تاہم اتفاق رائے نہیں ہو پا رہا ۔
ان ناموں پر نظر دوڑائی جائے تو ناصر محمود کھوسہ اور بابر یعقوب کے علاوہ تمام نام غیر متنازع ہیں ، لیکن ایک بڑی رکاوٹ پارلیمانی کمیٹی کے نتیجے تک پہنچنے کی راہ میں حائل ہے۔
حکومت کی جانب سے ارکان پارلیمانی کمیٹی اصرار کرر ہے ہیں کہ چیف الیکشن کمیشنر کے لیے بابر یعقوب فتح کا نام فائنل کریں۔ کیونکہ وزیر اعظم عمران خان اس نامزدگی سے پیچھے نہیں ہٹیں گے ۔ دوسری جانب اپوزیشن کو بابر یعقوب کا نام منظور نہیں ۔ کیونکہ وہ الیکشن 2018 کے نتائج تبدیلی اور آر ٹی ایس سسٹم کی ناکامی کا ذمہ دار فتح یعقوب کو سمجھتی ہے ۔ مسلم لیگ ن کا کہنا ہے کہ اگر وہ بابر یعقوب کو چیف الیکشن کمیشنر مان لیتی ہے تو اس کا بیانیہ تباہ ہو جائے گا کہ الیکشن 2018 ان کے ہاتھوں سے چھینا گیا ۔ پارلیمانی کمیٹی کے اجلاسوں میں اپوزیشن کی جانب سے فراغ دلانہ پیش کش ہوئی کہ وہ دیگر پانچ ناموں میں سے کسی کو بھی چیف الیکشن کمیشنر لگا دیں، لیکن حکومت کی جانب سے زرا بھی لچک نہیں دیکھائی گئی ۔ حالانکہ فضل عباس میکن اور عارف خان خود عمران خان کے تجویز کردہ ہیں ۔ لیکن اس وقت بابر یعقوب کا نام جیسے وزیر اعظم کی انا کا مسئلہ بنا ہوا ہے ۔
دوسری جانب بابر یعقوب فتح کو چیف الیکشن کمیشنر بنانے کے لیے پس پردہ لابیاں متحرک دیکھائی دے رہی ہیں ۔ اپوزیشن کے ممبران سے بھی رابطوں کی اطلاعات سامنے آئی ہیں ۔ بابر یعقوب کے عہدے کے لیے سب سے موضوع امیداور ہونے کے حوالے سے میڈیا کو بھی بات کرنے کہا جا رہا ہے۔ یہ ساری باتیں ملک کے الیکشن نظام کے حوالے سے پہلے سے ہی شاکی اپوزیشن کو مزید تشویش میں مبتلا کر رہی ہے ۔ اپوزیشن ارکان کا کہنا ہے کہ یقیناً الیکشن 2018 کے انعقاد کے وقت بابر یعقوب بھی اتنے ہی بے بس تھے جتنے چیف الیکشن کمیشنر لیکن انھیں عہدے پر لانے کے لیے جتنی دلچسپی اور لابی سامنے آ رہی ہے وہ تشویش ناک ہے ۔ اپوزیشن یہ عہدہ کسی ایسے شخص کو دینے کے حق میں نہیں جو 2023 کا الیکشن بھی متبازع بنا دے ، کیونکہ آنے والا چیف الیکشن کمیشنر آئندہ انتخابات کا انعقاد کروائے گا ۔ ایک اور پہلو بھی اپوزیشن زیر غور لا رہی ہے کہ کہیں بابر یعقوب کو متنازع بنا کر پس پردہ قوتیں لچک ظاہر کریں اور اس کے نتیجے میں کوئی ایسا شخص اس عہدے پر فائز ہو جائے جو سو فیصدی پس پردہ عناصر کا نمائندہ ہو۔
حکومت نے اپوزیشن کے ساتھ کئی بار یہ بات کرنے کی کوشش کی کہ وہ دیگر دو ممبران کی تعیناتی کر دے اور چیف کا معاملہ بعد میں دیکھ لے ۔ لیکن اپوزیشن نے فیصلہ کیا کہ وہ تینوں عہدوں پر ایک ساتھ تعیناتی چاہتی ہے ۔
اس حوالے سے پارلیمانی کمیٹی بلوچستان کا رکن حکومتی تجویز کردہ شخص اور سندھ کا رکن پیپلز پارٹی کی مرضی کا بنانے کے تقریباً قریب پہنچ چکی تھی جب چیف الیکشن کمیشنر کی تعیناتی کا معاملہ آگیا۔ مسلم لیگ ن کا موقف ہے کہ اگر بلوچستان کا رکن حکومت اور سندھ کا رکن پیپلز پارٹی کی مرضی کا ہوا تو چیف الیکشن کمیشنر کا عہدے مسلم لیگ ن کا نامزد شخص ہونا چاہیے ۔
اب چیف الیکشن کمیشنر کے عہدے پر تعیناتی دلچسپ مرحلے میں پہنچ چکی ہے ۔ اگر حکومت سندھ کا رکن پیپلز پارٹی کو دے دے تو وہ باآسانی پارلیمانی کمیٹی سے بابر یعقوب کو چیف الیکشن کمیشنر بنانے کے لیے آٹھ ووٹ حاصل کر سکتی ہے ۔ عمران خان تو اس حوالے سے یہاں تک کہ چکے ہیں کہ بابر یعقوب کو چیف الئکشن کمیشنر لگائیں ، باقی بے شک معاملہ عدالت لے جائیں انھیں کوئی فکر نہیں ۔ لیکن اپوزیشن اس وقت تک مشترکہ حکمت عملی لیے چل رہی ہے ، اور حکومت کے لیے ایسا کرنا اتنا آسان نہیں ۔ پارلیمانی کمیٹی میں اپوزیشن کے وہ افراد شامل ہیں جن کے بارے میں یہ عام تاثر ہے کہ انکا موقف تبدیل کرنا یا ان پر دباو ڈالنا اتنا آسان نہیں ۔
اب پیر کو پارلیمانی کمیٹی کا ایک مرتبہ پھر اجلاس ہو گا ، اگر حکومت نے لچک کا مظاہرہ کیا تو چیف الیکشن کمشنر کا تقرر ہو جائے گا ۔ لیکن جو قوتیں اب تک چیف الیکشن کمیشنر کے عہدے میں اتنی دلچپسی رکھ رہی ہیں کیا ممکن ہو گا کہ چیف الیکشن کمیشنر کے عہدے پر اپنی مرضی کے برخلاف کسی کو تعینات ہو جانے دیں ؟ بس پھر یہی سوال زہن میں اٹھتا ہے کہ کیا اب اگلا الیکشن “وہ” براہ راست کرائیں گے ؟

%d bloggers like this: