مئی 5, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سندھ کی محبت اور پانچواں چراغ ۔۔۔رانا محبوب اختر

رات رحیم یار خاں ٹھہرنا طے تھا۔ رازش لیاقت پوری اور فہیم رضا نے وہ دلبری کی کہ ساری تکان اتر گئی۔طبیعت کا اضمحلال ہوا ہو گیا۔

سندھ نگری کے سینے پر سندھ دریا دھمال کھیلتا ہے۔دریا جو دریا پنتھیوں کا اوتار ہے۔ جھولے لال ، اڈیرو لال ، شہباز قلندر، خواجہ خضر،اور گڑھی او گڑھی سندھ کے روپ ہیں۔جادوئی روپ جو زمیں زادوں کے کلچر میں زماں در زماں جھلکتے ہیں۔پوری وادی جیسے قلندر کا دھمال چوک ہو جہاں نوبت بجتی ہو اور بے پناہ لوگ ، اسرار_ ازل کے مارے لوگ رقص میں ہوں۔ عجب ہے کہ جس ملک میں واعظ و پارسا موسیقی کو حرام کہتے ہیں وہاں درباروں پہ رقص و موسیقی وادی کے سروں کو کائنات کے ردھم سے ملاتے ہیں ۔ پوری وادی جیسے دائو د کے لحن کے اندر آباد ہو۔ ایک عالِم نے بتایا کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں میں سے چار کو معجزے عطا ہوئے ۔ رحمت ِعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ قرآن ہے ۔ حضرت عیسیٰ کا معجزہ مردوں کو زندہ کرنا ہے۔حضرت موسیٰ کا معجزہ عصائے موسوی ہے اور حضرت دائود کا معجزہ موسیقی ہے۔سندھ وادی وہ بستی ہے جہاں راگ کے لئے اک راجہ، رائے ڈیاچ، اپنا سر بیجل کی ہتھیلی پر رکھ دیتا ہے۔ شیر دریا کی لہریں جہاں ناچتی ہیں دریا، جس کے کناروں پرچین اور میسوپوٹومیا کی رنگین ظروف والی تہذیبوں کی ہم عصر Indus Valley Civilzation کے شہر آباد تھے۔شہری ریاستیں، پر امن اور جمہوریت پسند شہری ، پادری، پروہت اور جاگیردار سے پاک پارلیمان، ہوا دار گھر، پکی گلیاں، نکاسء آب کا نظام اور رقص کرتی نرتکیوں نے سندھ وادی کو ہم عصر تہذیبوں سے ممتاز تر کر دیا تھا۔ لوِنگ لِیجنڈ اور مشفق دوست، نعیم طاہر کی کتاب ” Melluhas of Indus Valley ” سندھ وادی کی تہذیب کی وسعت اور قدامت کی معتبر کی گواہ ہے۔جینیاتی سائنس کی گواہی یہ ہے کہ سندھ میں پہلی ہجرت افریقہ سے ہوئی یہ پینسٹھ ہزار سال پہلے کی بات ہے۔ٹونی سمتھ کی "Early Indians” اور ڈیوڈ رائخ کی ” Who We Are And How We Got Here” جیسی کتابوں نے انسانی DNA کے تجزیے سے پورا ماضی بدل دیا ہے۔ لیکن یہ ایک الگ کہانی ہے
سندھ کے سفر پہ نکلا تو تہذیب کی تاریخ اور محبت کے علاوہ کوئی زاد_ راہ نہ تھا اور سفر نصیب کے دوست سفر کے ستاروں کی صورت رستوں کی روشنی اور شاہراہوں کا حسن تھے۔۔۔سایہ دار پیڑ کی طرح پناہ دیتے ہزارہا شجر۔۔ ستاروں کے جھرمٹ ۔۔۔ کھجوروں، آموں اور کیلے کے باغات۔۔۔ ملتان کے مصور اور شاعر زوار حسین مرحوم نے کسی اور ہی کیفیت کا شعر کہا تھا :
جانے کس سوچ میں ڈوبے ہیں سرِراہگزار
ان درختوں کو ترا نام بتایا ۔۔۔۔۔ کس نے
ہزار شجر _ سایہ دار۔۔۔دوست جو سائے کی مہربانی، طعام کی طاقت، آرام کی تازگی اور مسکراہٹوں کی روشنی سے سفر کی صعوبت کو راحت میں بدل دیتے ہیں ۔سفر آموں کے عالمی صدر مقام اور ہزاریوں سے زندہ شہر ملتان سے شروع ہوا۔ بہاولپور پہنچے تو جہانگیر مخلص نے ایسے روایتی کھانے کھلائے جو اماں بنایا کرتی تھیں ویسے کھانا کھلانا بھی تو mothering ہی ہے۔زبان سے "پھگلی” کا ذائقہ delete ہو چکا تھا۔جہانگیر مخلص نے ” پھگوسی” کہہ کر خوان_ نعمت آگے کیا تو مجھے پھوگ کے پھولوں کا سالن جو اماں بناتی تھیں ، گھر کے ساتھ چھوٹے ٹیلوں پر اگے پھوگ، کھجوروں کا ایک باغ،آم کے کچھ درخت، نزدیک کے کھیتوں میں ” دودا”، سکول میں کبڈی، غربت بھرے بچپن کی بے فکریاں، بابا کے سنائے اشعار ، ساگ ، مکھن اور گھر میں چڑھی سوہن حلوے کی کڑاہی اور سوہن حلوے کی تقسیم پر بھائیوں سے جھگڑے کی یادوں نے گھیر لیا۔ان خوابوں کو پھگلی کے ذائقے نے زندہ کر دیا تھا۔۔۔ مگر اب ان میں سے کچھ باقی نہ تھا۔بس اک "سواد” جو کبھی پھگلی یا پھگوسی کی صورت یا پھر جہانگیر مخلص کی شاعری کی صورت حلق، آنکھ اور کان کے رستے دل میں اترتا ہے ۔۔۔ ان کے ہاں یار_ من باسط بھٹی اور شاہد عالم سے ملاقات کا خمار باقی ہے ۔ اگلا پڑاء و خانپور تھا وہاں بیٹھے محقق مجاہد جتوئی حسب_ معمول جذب اور جوش کے ساتھ مولوی لطف علی اور سیفل نامے پر کام کر تے ہیں ۔

ان کے مرحوم والد کی قبر پر فاتحہ پڑھا۔ اس کے بعد ان سے گفتگو جاری تھی کہ روشن دماغ شاہنواز مشوری آ گئے اور بات خواجہ فرید رح کے دیوان اور تخت _ لاہور اور بھنبھور تک جا پہنچی۔

مجاہد جتوئی دیوان_ فرید بالتحقیق لکھ کے معتبر ہوئے ہیں اور متنازعہ بھی کہ فرید کی شاعری کے لینڈسکیپ میں بھنبھور اور لاہور کی بحث ان کے دم سے ہے۔ خواجہ فرید کے عہد میں لاہور انگریز سامراج کا صوبائی صدر مقام تھا۔اور خواجہ فرید سامراج کے تھانوں سے جان چھڑانے کی تاکید نواب بہاولپور کو کر رہے تھے یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ جس تخت کے تھانوں سے بیزار تھے اس کو آئیڈیالائز بھی کرتے ہوں۔

لیکن مجاہد جتوئی کی رائے کا احترام ہے۔جیسے انھیں اپنی رائے رکھنے کا حق ہے ویسے ہمیں ان کی رائے سے اختلاف کا حق ہے۔خدا ان کو سلامت رکھے کہ ان جیسے علم کے جویا اب کم کم ہیں۔دعا ہے کہ خدا انھیں مولوی لطف علی کی سی دیوانگی عطا کرے۔جتوئی صاحب نے سیف الملوک گانے والے حافظ سے ملوانے کا وعدہ کیا تھا جو بوجوہ پورا نہ ہو سکا۔

ان کی بارگاہ سے نکلے تو شاہنواز خاں مشوری کی خوشگوار رفاقت کے باوجود طبیعت مضمحل تھی۔
رات رحیم یار خاں ٹھہرنا طے تھا۔ رازش لیاقت پوری اور فہیم رضا نے وہ دلبری کی کہ ساری تکان اتر گئی۔طبیعت کا اضمحلال ہوا ہو گیا۔ کچھ احباب شام کو وہاں جمع تھے۔ اک طویل تعمیری گفتگو کے ساتھ ساتھ کچھ سوال و جواب اور خوب صورت چہروں کی وہ روشنی کہ سفر ثواب بننے لگا۔جمیل خان ایک افسر اور ہمارے ہمسائے ہیں اور تب رحیم یار خان میں ڈی سی تھے۔نا معلوم اب وہ اجلا نوجوان کہاں ہے۔کہ اس کے جمال کو نوکری چاٹ رہی تھی۔

بہت کم افسر یہ جانتے ہیں کہ خسروی کی طلب نوکروں کی قسمت میں غلامی لکھتی ہے۔اکبر آلہ آبادی نے کہا تھا گر میسر گورنری ہوتی ، نوکری پھر بھی نوکری ہوتی!خدا ماں جائے کی نوکری کی حفاظت کرے !!!

اگلا دن پتن منارا ، مئو مبارک ، مولوی لطف علی، بھٹہ واہن، سسی کی ماڑی اور ممتاز ڈاہر مرحوم کی یادوں اور زیارتوں سے روشن ہو گیا۔جہانگیر اندھڑ ، خورشید زیب اور خوب صورت شاعر اور پی پی پی کے کمٹڈ لیڈر مرشد سعید ناصر کی محبت زاد_ راہ ہوئی تو شاعر رفیق ساحل کے سنائے سسی کے ڈوہڑے بھنبھور کیلئے مہمیز بن گئے ۔بھنبھور یاترا کے بغیر سسی کا اسرار نہیں کھلتا اور ہم سسی کی مونجھ کا رومان لئے ان منزلوں کو رواں ہیں جن پر بھنبھور ایک اہم سنگِ میل ہے ۔ بھنبھور دراصل دیبل ہے اور سسی وہاں کی شہزادی تھی۔سسی اور قلندر، حسن و عشق اور شعرو شاعری کے استعارے ہیں اور سندھ پہ موسیقی کے ردم کی طرح راج کرتے ہیں!

عصر کے وقت بھٹہ واہن سے روانہ ہوئے کہ رات اور نیند سے سکھر میں ملاقات طے تھی۔ تھکے مسافر کو نیند راحت ہے۔ معراج خاں اور ہم نے جی بھر کے لذیذ کھانا کھایا اور خدا کی ایک ایک نعمت کا شکر ادا کیا کہ ہم ناشکروں میں سے نہ تھے۔یہ مئی 2019 کی قدرے خشک اور گرم شام تھی اور ہم ایک ٹھنڈے کمرے میں گھوڑے بیچ کر سوتے تھے۔ گھوڑے بیچ کر سونا ایک محاورہ ہے ورنہ زمیں زاد کے پاس گھوڑے نہیں گھاس ہوتی ہے جس کی چاہ میں دور کے گھڑ سوار دھرتی کو چراگاہ بناتے ہیں۔ہاں مگر نیند سے ذرا پہلے اپنے عہد کے بے مثال شاعر ظفر اقبال کا شعر کہانی کی روایتی پری کی طرح خوابوں کے جزیروں میں لے گیا:
رات خالی ہی رہے گی مرے چاروں جانب
اور یہ کمرہ ترے خواب سے بھر جائے گا

ہماری سحر خیزی اور سحری کے ملاپ نے صبح صادق ہوتے ہی ہمیں قلندر کی درگاہ کے راستے پر ڈال دیا ۔سخی شہباز قلندر جیسے آواز دیتے ہوں۔ سکھر سے مورو اور مورو سے دادو کا رستہ اچھا ہے ۔ سندھ حکومت اور سندھیوں کے خلاف بہت سی باتیں بلا جواز کی جاتی ہیں۔ سندھ کی بہت سی سڑکیں پنجاب سے بہتر ہیں۔ پورا راستہ لیری پیج اور سندر پچائی کا گوگل رہنما رہا ۔ پلک جھپکنے کا محاورہ پہلی بار سمجھ میں آیا ،کھجوروں، کیلے اور آموں کے باغ راستے کے دونوں جانب ساتھ ساتھ چلتے تھے لیکن دادو میں پیڑ رک گئے اور راستہ قدرے ویران ہو گیا۔ اب کچھ ایسا نہیں تھا جو ہمارے اور قلندر کے درمیان حائل ہو۔ آن کی آن میں ہماری آنکھیں خیرہ ہوئے بغیر قلندر رح کی درگاہ کے سنہری گنبد کو چومتی تھیں!

سیہون پہلے سیوستان تھا۔ سندھو کے مغربی کنارے اور لکی پہاڑ کے دامن میں قلندر کا شہر اور پاکستان کا اجمیر آباد ہے۔ یہاں ایک قدیم قلعہ تھا جس پر راجہ جسپر کا راج تھا اسے راجہ چوپٹ بھی کہتے تھے اور دلی میں غیاث الدین بلبن کی حکومت تھی ۔ مگر تیرھویں صدی سے اب تک یہاں قلندر کا حکمرانی ہے۔

سنہری دروازے سے شہر میں داخل ہوئے تو ایک ٹوٹی پھوٹی کوڑے سے اٹی سڑک درگاہ لے گئی۔ دھمال چوک کے نزدیک گاڑی کھڑی کر کے دربار کی طرف پلٹا تو معصوم بچوں ، بچیوں، غریب اور بے سہارا منگتوں نے گھیر لیا۔ لیکن ہماری ساری توجہ منگتوں کی بجائے مزار پر تھی۔ بے صبری سے میں قلندر کی بارگاہ کی طرف بھاگا جاتا تھا اور سوچتا تھا کہ دربار کے باہر غریب منگتوں کا یہ گروہ مسافر کا امتحان لیتا ہے یا سخی قلندر کا ۔کہ بادشاہ قلعے اور قلندر قلوب کو فتح کرتے ہیں ۔

لیکن غربت کا علاج شاید دونوں کے پاس نہ تھا ۔ کافرانہ خیالوں نے نیکی برباد اور گناہ لازم کئے جب مسافر کے دل میں ایسے احمقانہ وسوسوں نے گھر کیا کہ کیا نیک بادشاہ اور کیا پہنچے ہوئے درویش سب کو غریب کی غربت نے ڈھیر کر دیا، سخی قلندر کی بادشاہی میں سیہون میں بھکاریوں کی حکمرانی ہے :
نہیں فقروسلطنت میں کوئی امتیاز ایسا
یہ نگہ کی تیغ بازی وہ سپہ کی تیغ بازی

گستاخانہ وہم و گماں سنبھالے ہم قلندر کی بارگاہ میں حاضر تھے۔ چوکور مزار پر ایک بڑا روشن چراغ نصب تھا۔ اندر خواتین اور مردوں کے لئے الگ الگ عبادت خانے تھے۔ جن میں لوگ بیٹھے خدا کے پاک کلام کی تلاوت کرتے تھے۔ لعل شہباز یا Red Falcon کے خطاب کی وجہ جاننے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ آپ لوہے کے ایک پنجرے میں پورا سال آگ پہ بیٹھے رہے ۔ سنت_ ابراہیمی ادا کر کے فیض پایا ۔

اس سے آپ کی جلد زرد سرخ ہو گئی تھی اور ایک مرتبہ آپ نے اپنے ایک ساتھی بودلہ بہار کو شہباز بن کر انکاریوں کے چنگل سے آزاد کرایا تھا۔اس لئے آپ نے لعل شہباز قلندر کا لقب پایا۔روایت یہ بھی ہے کہ وہ اکثر لال لباس پہنتے تھے۔ روایات کو مگر تاریخ نہیں لوکائی محفوظ رکھتی ہے قلندر صدیوں سے شہباز کی طرح اپنے چاہنے والوں کے دلوں کو مٹھی میں لئے بیٹھے ہیں۔

اور ہمارا دل وہ دریا ہے جس میں سندھ ، جھولے لال قلندر ‘گڑھی او گڑھی ، سسی ، سورٹھ اور مومل کے بے نظیر نوری چراغ روشن ہیں۔نہ کسی سے "جھیڑا” نہ جھگڑا۔۔۔بس ماچھیوں اور مہانڑوں کی پوترتا سے پانچواں چراغ روشن ہے۔۔۔خلق_خدا کا چراغ۔۔۔بے پایاں مخلوق جن کے دم سے دما دم مست قلندر ہے۔زندگی کے سُر ہیں۔۔۔دھمال ہے۔۔۔اک ناتمام سفر کی ہزاروں کہانیاں ہیں!!

%d bloggers like this: