مئی 19, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

وزیراعظم عمران خان جھوٹ بولنا بند کردیں، بلاول بھٹو

بلاول بھٹو نے کہا کہ حزب اختلاف کی کوشش ہے اداروں کو مضبوط بنایا جائے لیکن حکومت سیاسی مخالفین پر دباؤ ڈالنا چاہتی ہے۔

اسلام آباد: چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان جھوٹ بولنا بند کریں اور عوامی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں۔

چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ صدر آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کے معاملات میں بہت فرق ہے آصف علی زرداری کے خلاف کچھ ثابت نہ ہونے کے باوجود وہ جیل میں ہیں جبکہ نواز شریف سزا یافتہ اور انہیں طبی بنیادوں پر بیرون ملک جانے کی اجازت ملی ہے۔ سندھ میں پیپلزپارٹی کو بھاری مینڈیٹ حاصل اور وفاق میں مانگے تانگے کی مہمان حکومت ہے۔ حقیقی جمہوریت کے لئے کوشاں ہیں اور اپنا کردار ادا کرتے رہیں۔

پمز ہسپتال اسلام آباد میں سابق صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صدر آصف علی زرداری سے میڈیکل بورڈ کے ممبران نے ملاقات کی ان میں صدر آصف علی زرداری کے کارڈیالوجسٹ بھی شامل تھے۔ ان کی نئی میڈیکل رپورٹ جو عدالت نے طلب کی ہے 11تاریخ کو عدالت میں پیش کی جائے گی جہاں صدر آصف علی زرداری کی میڈیکل گراﺅنڈ پر ضمانت اور فریال تالپور کی ضمانت کی درخواست بھی زیر سماعت ہوگی۔ ہمیں امید ہے کہ 11تاریخ کو عدالت کی طرف سے ہمارے ساتھ انصاف ہوگا اور صدر زرداری کو وہ سہولیات ملیں گی جو ہر پاکستانی کا حق ہے۔ حکومت مختلف حربوں سے دباﺅ ڈالتی ہے اور دباﺅ کے حربے استعمال کرتی ہے پاکستان پیپلزپارٹی نے ان حربوں کا مقابلہ کیا ہے۔ ہم حکومت کے دباﺅ کے باوجود ہماری جدوجہد جاری ہے نہ ہم خاموش ہوں گے اور نہ ہم پیچھے ہٹیں گے۔

چیئرمین پیپلزپارٹی نے کہا کہ پاکستان پیپلزپارٹی نے 27دسمبر کے لئے ایک تاریخی فیصلہ کیا ہے کہ اس بار شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی برسی لیاقت باغ میں منائی جائے گی۔ اس سلیکٹڈ حکومت کو للکاریں گے اور ان کو پیغام بھیجیں گے کہ آج بھی پاکستان کے عوام اس بات پر ڈٹے ہوئے ہیںکہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں، اس جدوجہد کی قیادت صرف اور صرف پاکستان پیپلزپارٹی ہی کر سکتی ہے تاکہ ہم ایک طاقتور جمہوری حکومت بنائیں گے جو عوام کی فلاح کا خیال رکھے ، بھوک، بیروزگاری اور مہنگائی کا خاتمہ کرے۔ پاکستان کے عوام یہ کٹھ پتلی تماشے نہیں دیکھنا چاہتے۔ پاکستان کے عوام اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں اور اس قسم کی حکومت نہیں دیکھنا چاہتے جو ہر دن ڈرامہ بازی کرتی ہے ۔ ہمارا وزیراعظم آج تقریب سے خطاب کر رہا تھا اور کرپشن کے لئے ایک ایپ لانچ کر رہا تھا تاکہ وہ کرپٹ لوگوں کو ڈھونڈ سکے۔ میں بڑا حیران تھا کہ یہ جو ایپ ہے وہ ان کے اپنے کرپٹ لوگوں شناخت نہیں کر سکتی؟ آپ کا ہی ایک جو پاناما کا کنسلٹنٹ ہے اس کی انویسٹی گیشن کا کیا ہوا؟ آپ کے ڈپٹی وزیراعظم جو اس وقت نااہل ہے ان کی تحقیقات کا کیا ہوگا؟ انہوں نے کہا کہ یہ جو آپ کا گٹھ جوڑ ہے اور یہ جو بی آرٹی کا منصوبہ ہے ، آپ جو پختونخواہ میں مائنز کا اسکینڈلز ہے اس کا کیا ہوا؟ آج تک ان کی تحقیقات نہیں ہوئیں۔ آپ آج جو نوازشریف اور شہباز شریف کا رونا رو رہے ہیں ان کو سزا کے بعد آپ نے باہر بھیج دیا ہے تو ان کا اب کیارونا رو رہے ہو؟ اور اب کسے کہہ رہے ہو کہ اس کو نہیں چھوڑوں گا اور اس کو نہیں پکڑوں گا۔

بلاو ل بھٹو زرداری نے کہا کہ آپ کو پاکستان کے عوام نے پہچان لیا ہے کہ جیسے پہلے سلیکٹڈ تھے ایسے ہی آپ سلیکٹڈ ہو۔ وہ بھی اپنی حکومت کو مضبوط کرنے کے لئے عوام پر بوجھ ڈالتے تھے آپ بھی غریب پر بوجھ ڈالتے ہو۔ تم اپنی جعلی حکومت کو بچانے کے لئے کمپرومائز کرتے ہو۔ انہوں نے کہا کہ جھوٹ بولنا بند کر دیں اور عوام کے مسائل حل کریں۔ اگرعوام کے مسائل حل ہونا شروع ہو جائیں تو عوام کا اعتماد ہر پر یقینی ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ آج عوام سیاسی، معاشی اور خارجی صورتحال کو دیکھتے ہیں ۔ کشمیر سے لے کر چین تک ہوں ہمارے عوام پریشان ہیں۔ ان کو پتہ ہے کہ یہ ہمارے نالائق وزیراعظم ہیں اور نہ ہی یہ مسائل حل کر سکتے ہیں اور نہ ہی وہ عوام کے مسائل حل کرنا چاہتا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ڈکٹر ندیم قمر کو ہم نے تجویز کیا ہے جو ہمارا کارڈیالوجی کا ڈاکٹر ہے جس میں ہمیں ایک ڈاکٹر کی اجازت ملی ہے۔

ایک دوسرے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میاں نواز شریف اورصدر زرداری کا کیس الگ الگ ہے میاں نواز شریف کو سزا ہوئی تھی لیکن صدر زرداری پر ابھی تک کوئی الزام ثابت نہیں ہوا اس لئے ان کے معاملات میں فرق ہے۔ صدر زرداری آج بھی جیل میں ہے جبکہ میاں نواز شریف سزا کے باوجودملک سے باہر ہیںکہ یہ ان کا حق تھا اور ان کو طبی بنیادوں پر رہا کیا گیا جو کہ ہمارے جج صاحب کے رہے ہیں کہ خان صاحب کی مرضی سے ہوا ہے اور انہوں نے ہی کروایا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں چیئرمین پیپلزپارٹی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ 2019 پیپلزپارٹی کے لئے کوئی بھاری نہیں رہا ۔ ہم نے تو اس سے پہلے دو لاشیں اٹھائی ہیں اس وجہ سے ہمارے لئے 2019 کوئی مشکلات کا دور نہیں تھا۔ ہاں اگر مزدوروں، محنت کشوں، کسانوں، تاجروں کے لئے مشکلات کا سال ضرور تھا اور پاکستان کے عوام نے بھرپور اس مشکل وقت کا مقابلہ کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ صدر زرداری کو عدالت میں ضمانت ہوگی یا اجازت ہوگی تو ہم صدر زرداری کو کراچی ہسپتال میں شفٹ کریں گے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حکومت کی کوشش یہی رہی ہے کہ اپوزیشن کو سبوتاژ کیا جائے اور الیکشن کمیشن پراتفاق رائے نہ ہو سکے۔ ہم الیکشن کمیشن کو مضبوط بنانا چاہتے ، ہم پارلیمنٹ کو مضبوط بنانا چاہتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ یہ عمل نتیجہ خیز ثابت ہو اور اتفاق رائے پیدا ہو۔ اگر حکومتی وزراءاس طرح کے بیان دے رہے ہیں کہ وہ اپوزیشن کے ساتھ اس معاملے پر اتفاق کرنا چاہتے ہیںتو میں سمجھتا ہوں کہ حکومت نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ اپوزیشن کی طرف سے دئیے گئے نام پر اتفاق رائے پیدا کر لے گی۔ یعنی اگر حکومت اپوزیشن کے نام پر اتفاق پیدا کرلیتی ہے تو یہ مسئلہ بہت خوش اسلوبی سے حل ہو جائے گا۔

سندھ حکومت کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں چیئرمین پیپلزپارٹی نے کہا کہ جب سے خان صاحب کی حکومت آئی ہے یہ ان کا ایک خواب ہے ان کی طرف سے مسلسل یہ کوششیں کی گئیں کہ سندھ میں بھی ایک کٹھ پتلی وزیراعلیٰ ہو جو عوام کے حقوق پر سودا کرکے وزیراعظم کا ساتھ دے لیکن ہر سازش ناکام ہوگئی۔ ہر بار یہ کوششیں ناکام ہوتی رہیں باربار لوگوں نے سنا ہوگا کہ سندھ حکومت جا رہی ہے لیکن ایسانہیں ہو سکااور آئندہ بھی نہیں ہوگا۔ کتنی بار آپ نے سنا ہوگا کہ سندھ کے وزیراعلیٰ گرفتار ہونا والے ہیں لیکن آج بھی سندھ حکومت چل رہی ہے وہی ہمارے وزیراعلی ہیں آج بھی ویک اینڈ پر واپس آتے ہوئے ہم نے سات بڑے منصوبوں کا افتتاح کیا ہے نہ کوئی ٹرائل چل رہا ہے ہمارے وزیراعلیٰ کے خلاف اور نہ اپوزیشن کے پاس ہمارے خلاف اراکین کی تعداد پوری ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ وفاق میں مانگے تانگے کی مہمانوں کی حکومت ہے جبکہ سندھ میں ہمارے پاس تاریخی مینڈیٹ ہے اور صوبائی حکومت کو 99 ایم پی اےز کی حمایت حاصل ہے۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد بہت مشکل ہے کہ کسی غیرجمہوری طریقے سے صوبائی حکومت کو ہٹایا جائے۔ انہوں نے ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ پاکستان پیپلزپارٹی کا اپنا ایک موقف ہے، ہم چاہتے ہیں کہ جمہوریت چلتی رہے اور حقیقی جمہوریت چلے اور پاکستان پیپلزپارٹی چاہتی ہے کہ نہ یہ سلیکٹڈ وزیراعظم رہے اور نہ کوئی اور سلیکٹڈ وزیراعظم آئے اور اس معاملے میں باقی اپوزیشن جماعتیں پوری طرح ہمارے ساتھ ہیں جو خوش آئند ہے۔

%d bloggers like this: