مئی 18, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

لائبریری آف کانگریس: اردو کی پرانی کتابیں ہندوستانی زبان کے نام سے محفوظ۔۔۔مبشر علی زیدی

میں نے چند دن پہلے لائبریری کو ای میل کی تھی کہ اردو کا شعبہ اور کچھ کتابیں دیکھنا چاہتا ہوں۔ کس وقت آؤں اور کس سے ملوں؟

لائبریری آف کانگریس ہمارے دفتر سے چند قدم کے فاصلے پر ہے۔ انڈی پینڈنس ایونیو یعنی شاہراہ آزادی کے ادھر ہمارا دفتر ہے اور ادھر کانگریس بلڈنگ اور اس کے بالکل ساتھ لائبریری۔ وہاں میں پہلے بھی کئی بار جاچکا تھا لیکن آج ریڈرز کارڈ بنوانے گیا۔
کارڈ کی کوئی فیس نہیں۔ رجسٹریشن کے کمرے میں جاکر کہیں کہ میں کارڈ بنوانا چاہتا ہوں۔ ایک کمپیوٹر پر تفصیلات درج کریں۔ ایک خاتون آپ کی تصویر کھینچیں گی اور کارڈ پرنٹ کرکے آپ کے حوالے کریں گی۔ لیجیے، آپ دنیا کے سب سے بڑے کتب خانے کے باقاعدہ رکن بن گئے۔
میں نے چند دن پہلے لائبریری کو ای میل کی تھی کہ اردو کا شعبہ اور کچھ کتابیں دیکھنا چاہتا ہوں۔ کس وقت آؤں اور کس سے ملوں؟ شارلٹ بی بی کا جواب آیا کہ اردو کا شعبہ میں دیکھتی ہوں۔ جب جی چاہے، آجائیں۔ لیکن پہلے کارڈ بنوالیں۔
میں کارڈ بنواکر ایشین ریڈنگ روم پہنچا تو معلوم ہوا کہ شارلٹ بی بی کسی میٹنگ میں ہیں۔ استقبالیہ پر چینی خاتون تھیں۔ انھوں نے مجھ سے کہا کہ جہاں جی چاہے، وہاں بیٹھ کر انتظار کرلیں۔
ہال میں دو تین پڑھاکو قسم کے نوجوان مطالعے میں غرق دکھائی دیے۔ میں نے کئی الماریوں کا معائنہ کیا۔ ان میں نمونے کے طور پر چند سو کتابیں تھیں۔ جنوبی ایشیا کی الماریوں میں اردو کی تین چار ہی کتابیں پائیں۔ قرآن پاک کا ترجمہ اور تاریخ ہندوستان وغیرہ۔ ایک کتاب بولی ووڈ فلم پوسٹرز کی ملی۔ اسے دیکھ کر جی بہلایا۔
چینی خاتون کو یہ بات پسند نہیں آئی کہ میں خوبصورت ہندوستانی لڑکیوں کی تصویریں دیکھ دیکھ کر انھیں نظر کیوں لگارہا ہوں۔ یا شاید انھوں نے سوچا کہ مجھے ہندی سے بھی دلچسپی ہے۔ چنانچہ انھوں نے ہندی شعبے کے انچارج جوناتھن صاحب کو فون کرکے بلالیا۔
جوناتھن صاحب نوجوان آدمی ہیں اور انتہائی خوش اخلاق۔ انھوں نے بہت خاطر کی۔ مجھے بتایا کہ شارلٹ نے انھیں میری ای میل دکھائی تھی اور وہ میرے منتظر تھے۔ انھوں نے پوچھا کہ کون سی کتاب تلاش کررہے ہیں؟ میں نے بتایا کہ کوئی ایک کتاب نہیں چاہیے۔ جس طرح رضا علی عابدی صاحب نے برٹش لائبریری سے پرانی پرانی کتابیں ڈھونڈ کر بی بی سی پر سیریز کی تھی، میں اسی طرح آپ کے کتب خانے سے پرانی پرانی کتابیں تلاش کرکے وائس آف امریکا پر سیریز کروں گا۔
جوناتھن صاحب وائس آف امریکا کا نام سن کر خوش ہوئے۔ حیرت انگیز طور پر انھیں اردو کے شعبے سے متعلق تفصیلات کا علم تھا اس لیے میرے تمام سوالات کے جواب دیے۔ لائبریری میں اردو کی کتنی کتابیں ہیں، کون کون سی بلڈنگ میں ہیں، کتنے مخطوطے ہیں، کتابیں کب سے جمع کی جارہی ہیں۔ میں نے شکایت کی کہ آن لائن سرچ کا نظام پیچیدہ ہے۔ انھوں نے تسلیم کیا لیکن مجھے ایک دو گر سکھائے کہ مطلوبہ شے آسانی سے کیسے تلاش کی جاسکتی ہے۔
میں نے کہا، ایسا لگتا ہے کہ اردو کی زیادہ پرانی کتابیں آپ کے پاس نہیں۔ وہ مسکرائے۔ کہنے لگے کہ پرانی کتابیں اردو کے نام سے مت ڈھونڈیں۔ پرانی کتابیں ’’ہندوستانی‘‘ زبان کے نام سے محفوظ کی گئی تھیں کیونکہ اس وقت اردو کو یہی نام دیا جاتا تھا۔
ہمارے باس کوکب فرشوری صاحب نے بتایا تھا کہ شعبہ اردو میں پہلے ایک خاتون نزہت ہوتی تھیں۔ میں نے پوچھا کہ نزہت کہاں ہیں؟ جوناتھن میاں نے بتایا کہ وہ ریٹائیر ہوچکی ہیں۔ کبھی کبھی آتی ہیں اور شاید رضاکارانہ طور پر مرکزی استقبالیہ پر بیٹھتی ہیں۔
شارلٹ بی بی مزید ایک گھنٹے تک مصروف تھیں اس لیے میں نے اجازت چاہی۔ جوناتھن صاحب نے مشورہ دیا کہ آن لائن کیٹلاگ سے کتابیں سرچ کرکے ایک دن پہلے انھیں ای میل کردوں تو وہ میرے لیے ان کتابوں کو استقبالیہ پر رکھوا دیں گے۔ ان کا بھی وقت بچے گا اور میرا بھی۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور اپنا کوٹ سنبھال کر باہر نکل آیا۔
باہر شدید ٹھنڈ تھی۔ لیکن جب آپ اندر سے خوش ہوں تو باہر کا موسم اثر انداز نہیں ہوتا۔ سرد ہوا میں اڑتے ہوئے پتے بھی رقص کرتے دکھائی دے رہے تھے۔ دفتر تک چہل قدمی کرنا اچھا لگا۔
Raza Ali Abidi

%d bloggers like this: