مئی 14, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بھارت ایک بار پھر جموں کشمیر کو تقسیم کرنے کے لئے تیار

بی جے پی کے ایک سینئر رہنما نے کہا کہ کشمیری صرف اس وجہ سے ریاست پر حکمرانی کررہے تھے کہ انہیں اسمبلی میں جموں کے علاقے کی نسبت زیادہ نشستیں حاصل تھیں

سرینگر:

جموں ڈویژن پر کشمیر کے تسلط کے خاتمے کے لئے بھارت ایک بار پھر جموںو کشمیر کو تقسیم کرنے کے لئے تیار ہے۔
بھارتی حکومت نے جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد جموں کشمیر کو دو ،دو ڈویژن میں تقسیم کر کے وادی کشمیر کا مسلم اکثریتی تشخص ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ساؤتھ ایشین وائر کے مطابق ذرائع نے بتایا کہ اس منصوبے کو تقریباحتمی شکل دے دی گئی ہے اور ممکن ہے کہ اس ماہ کے آخر میں یا اگلے سال کے اوائل میں اس پر عمل درآمد کیا جائے ۔
جموں و کشمیر حکومت کے ایک سینئر عہدیدار نے کہاکہ فیصلہ پہلے ہی کیاجا چکا ہے اور صرف طریق کار پر کام کیا جا رہا ہے۔لیکن اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ اس سے دوسرے خطوں خصوصا جموں پر کشمیر کے تسلط کو مزید کم کیا جائے گا۔
ذرائع نے یہ بھی کہا کہ بھارتی وزارت داخلہ پہلے ہی اس منصوبے پر عمل پیرا ہے ، جبکہ حکمراں بی جے پی اس اقدام کو جموں پر کشمیر کے قبضے کو ختم کرنے کے ایک اہم اقدام کے طور پر دیکھتی ہے۔ساؤتھ ایشین وائر کے مطابق اس معاملے پر جموں و کشمیر کے افسران اور مرکزی وزارت داخلہ امور کے سینئر عہدیداروں کے درمیان ایک اعلی سطحی میٹنگ میں بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔
بی جے پی کے ایک سینئر رہنما نے کہا کہ کشمیری صرف اس وجہ سے ریاست پر حکمرانی کررہے تھے کہ انہیں اسمبلی میں جموں کے علاقے کی نسبت زیادہ نشستیں حاصل تھیں ۔
پانچ اگست سے پہلے مقبوضہ جموں کشمیر ایک ہی یونٹ تھا۔ مقبوضہ کشمیر اسمبلی کی 87 نشستوں میں سے 44 وادی کشمیر، 37 جموں اور 4 لداخ کے لئے مختص تھیں۔ بی جے پی جموں سے زیادہ نشستیں حاصل کر لیتی تھی لیکن وادی سے اسے نشستیں حاصل نہیں ہوتی تھیں۔
نئی ڈویژن میں جموں خطے کے رامبن ، کشتواڑ اور ڈوڈا اضلاع شامل ہوسکتے ہیں جبکہ شوپیان ، اننت ناگ اور کشمیر کے خطے کے کولگام اضلاع کو بھی اس نئی ڈویژن میں شامل کیا جاسکتا ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ اگرچہ اس اقدام کے پیچھے پہاڑی علاقوں میں بہتر انتظامیہ کی فراہمی اصل سبب ہے ، لیکن اصل وجہ سیاسی ہے ، جو بی جے پی کو ووٹوں کی شکل میں بھرپور فائدہ پہنچا سکتی ہے۔

%d bloggers like this: