مئی 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

محبوب تابش ! گرفتار اور رہا ، مگر کھیل ختم نہیں ہوا ۔۔۔رؤف لُنڈ

حکمران ٹولے کی یہ پرانی بلکہ قدیمی حرکت رھی ھے کہ وہ سیاسی کارکنوں کو گرفتار کر کے اپنی رعونت اور تسلط کی دھاک بٹھانا چاہتے ہیں

سرائیکی شاعر، ادیب، استاد اور سرائیکی قومی و طبقاتی جدوجد کرنے والا کارکن جو جبر کی ھر صورت کا انکاری ھی نہیں بلکہ جبر اور استحصال کی ہر شکل کے خلاف ہر وقت بر سرِ پیکار بھی رہتا ھے۔۔۔۔۔ اسی محبوب تابش کو اسی تونسہ کی ایک نواحی بستی سے گرفتار کیا گیا ھے جس تونسہ سے تعلق رکھنے والے بقول سرور کربلائی نو (منحوس) خداؤں/تمنداروں میں سے ایک تمندار گھرانے کا خانوادہ عثمان بزدار اپنی آبائی سرشت نبھاتے ھوئے تخت لاھور پر بندھا بیٹھا ھے۔۔۔ غلامی کی اس شکل کو خوبصورت کہلانے اور قابلِ قبول بنانے کیلئے نمایشی ہٹو بچو کی وجہ سے وہ یہی تاثر دینے کیلئے وزیرِ اعلیٰ پنجاب بھی کہلاتا ھے۔۔۔۔۔۔۔

اسی کٹھ پتلی تمندار وزیراعلیٰ کو گذشتہ رات سرائیکی خطے کے بہت بڑے استاد، فلاسفر، انقلابی شاعر جناب اقبال سوکڑی کے شاعرانہ مجموعے/کلیات کی تقریب رونمائی میں محبوب تابش کو سچ کہنے، سچ پر عمل کرنے، اپنے حقوق کی لڑائی جرات مندانہ انداز میں لڑنے اور انقلابی جدوجہد کا درس دینے کی باتیں ناگوار گذریں تو محبوب تابش کو مقامی انتظامیہ کی مدد سے اٹھا لیا گیا/گرفتار کر لیا گیا۔۔۔۔ اور آخری اطلاعات کیمابق کچھ دیر کی غیر قانونی حراست میں رکھنے کےبعد رہا کردیا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حکمران طبقے اور حکمران ٹولے کی یہ پرانی بلکہ قدیمی حرکت رھی ھے کہ وہ سیاسی کارکنوں کو گرفتار کر کے اپنی رعونت اور تسلط کی دھاک بٹھانا چاہتے ہیں مگر پھر ان کا یہی بھونڈا پن ان کی کمزوری اور لاغرپن کی ایک مثال بن کے عوام کے سامنے آتا ھے۔۔۔۔۔ جس سے سماج کے خاموش تالاب میں کنکر پڑنے جیسا ارتعاش ابھرتا ھے۔۔۔ عام لوگ، غریب اور محنت کش انگڑائی لیتے ہیں۔۔ اور ان کے ادراک کی وہ آنکھ کھلتی ھے جو صرف اور ان کے ان قاتلوں کو پہچانتی ھے جو مسیحاؤں کا ناٹک رچائے پھرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب میدان سجنے کا وقت آگیا ھے اسی لئے تو خوفزدہ حاکموں کی سماعتوں پر حق سچ کی آوازیں اور نعرے گراں گزرتے ہیں۔۔۔ وہ ان نعروں اور آوازوں کو دبانا چاہتے ہیں۔ اس لئے وہ اپنی خباثت کا اظہار گرفتاریوں، مقدموں اور جیلوں سے ڈرا کے کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن پھر ممتاز اطہر کے ایسے شعر ہر زبان کی زینت بن کر حکمران طبقے کیلئے ایک چتاونی بنتے ہیں۔۔۔۔۔۔ کہ

جن باتوں پہ ہونٹ سلے ہیں ان باتوں کا
آنکھوں سے اظہار ہوا تو پھر کیا ھو گا؟

%d bloggers like this: