اپریل 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے ۔۔۔وجاہت علی عمرانی

دراصل فیض کا مخصوص لہجہ اور اسلوب ہی وہ جادو ہے جو قاری کو اپنا اسیر کر لیتا ہے

آج ترقی پسند انقلابی شاعر فیض احمد فیض کی برسی کا دن ہے۔ 13 فروری 1911 کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔20 نومبر 1984 کو دل کی شدید تکلیف کے باعث میو ہسپتال میں انتقال ہوا، ماڈل ٹاؤن لاہور کے قبرستان میں سپرد خاک کر دیئے گئے ۔ ہر دور میں ایک نہ ایک آواز ایسی ضرور ابھرتی ہے جسے کوئی بھی صاحب دل اور اہل شعور نظر انداز نہیں کر سکتا۔ جس کا تاثر وسیع بھی ہوتا ہے اور دور رس بھی۔ آ ج کے دور میں یہ آواز فیض کی آواز ہے۔ جہاں جہاں مظلوم انسانیت کے دکھوں کا شعور موجود ہے یہ آواز اپنے گہرے تاثر کی وجہ سے پہچانی جاتی ہے۔ بلاشبہ اردو شاعری کا عہد نو فیض کا عہد ہے اور فیض سے شناسائی کے بعد رہائی کی کوئی صورت نہیں۔ دراصل طبقاتی کشمکش کے خلاف، انقلاب اور جدوجہد تیسری دنیا کے استحصال ذدہ عوام مزدوروں اور کسانوں کے حقوق چند ایسے موضوعات ہیں جن پر فیض نے بہت لکھا ہے اور اس انداز سے لکھا ہے کہ ان کی شاعری کھوکھلی نعرے بازی بننے کی بجائے با معنی اور جامعیت کی تمام تر وسعتیں اپنے اندر سمیٹتی گئی۔ کیونکہ فیض احمد فیض ان شاعروں میں سے نہیں جو خلا میں شاعری کرتے ہیں اپنے ماحول سے کٹ کر مراقبہ کرتے ہیں اور اپنی روحوں پر اشعار نازل ہونے کا انتظار کرتے ہیں ۔ فیض نے تو آج کی دنیا کے جملہ سیاسی ، سماجی اور اقتصادی محرکات کے شعور میں شعر کہے ہیں۔

فیض احمد فیض ترقی پسندوں کے امام تصور کیے جاتے ہیں۔ فیض نے ہزاروں سختیوں کو سہنے اور دار و رسن کی منزلوں سے گزرنے کے باوجود نہ تو اپنے نظریات میں لچک پیدا کی اور نہ ہی روگردانی کی۔ اُس وقت جب ترقی پسندوں پر اُن کے گھروں کے دروازے بند اور جیلوں کے دروازے کھل گئے تھے، فیض اس تحریک سے وابستہ رہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ فیض وفاداری بشرط استواری کے قائل تھے۔ فیض معاشرے میں ایسا انقلاب برپا کرنے کے خواہشمند تھے جو موجودہ استحصالی نظام کو بالکل بدل کر رکھدے وہ غیر طبقاتی نظام کے قائل تھے۔ فیض نے نہایت خلوص اور فنکاری کے ساتھ اور اپنے نظریات اور رجحانات کو اشعار میں ادا کیا۔ ترقی پسندی شعروادب میں ایک نئی روایت ہے کہ جسے انہوں نے خوبی کے ساتھ اپنایا، انہوں نے مزدور، محنت کش، کسان اور دوسرے طبقات کے دکھ درد کی سچی ترجمانی کی۔ فیض کا فنکارانہ کمال یہ ہے کہ انہوں نے مروجہ شعری ڈھانچے سے فکرو خیال کی نئی عمارت کھڑی کی۔ فیض کی شاعری کی اصل خوبی ان کا وہ پیرایہ اظہار ہے جس میں تغزل کا رنگ و آہنگ تہہ نشین ہوتا ہے۔ یہی طرز بیان ان کی شاعری کا امیتازی وصف ہے۔ تعبیرات کی ندرت اور تشبیہوں کی جدت اس کے اہم اجزا ہیں ۔ ان کی نظموں میں ایسے ٹکڑے جن میں اجزاءسلیقے کے ساتھ یکجا ہو گئے ہیں۔ واقعتا بے مثال ہیں ۔بیان کی شگفتگی ایسے اجزا ءمیں درجہ کمال پرنظر آتی ہے اور پڑھنے والا کچھ دیر کے لئے کچھ کھو سا جاتا ہے۔


دراصل فیض کا مخصوص لہجہ اور اسلوب ہی وہ جادو ہے جو قاری کو اپنا اسیر کر لیتا ہے اور ہر بار ایک نئے اندا ز میں نمودار ہوتا ہے۔ یہ فیض کے اسلوب کا ایک خاص وصف ہے کہ جدید ذہن اس کو جدید حوالے سے لیتے ہیں اور قدیم ذہن اس میں کلاسیکی رکھ رکھاؤ اور شیرینی تلاش کر لیتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ فیض بیک وقت ، ماضی، حال اور مستقبل تینوں زمانوں پر محیط نظر آٹا ہے۔ یہ ان کے اسلوب کا خاصا ہے۔ فیض احمدفیض بیسویں صدی کے اُن خوش قسمت شعراءمیں سے ہیں جنہیں زندگی ہی میں بے پناہ شہرت و مقبولیت اور عظمت و محبت ملی۔ انہوں نے دار و رسن کا مزہ چکھا اور کوچہ یار کی رنگینیوں سے بھی لطف اندوز ہوئے۔ وہ علامہ اقبال کے استاد مولوی میر حسن ہی کے شاگرد تھے انہیں یوسف سلیم چشتی سے پڑھنے کا شرف بھی حاصل ہوا۔ لیکن وہ اقبال نہ بن سکے اقبال نے اسلام کو انقلابی مذہب جانا اور اسلام بذریعہ اسلام کا نعرہ لگایا۔ جبکہ فیض نے کمیونزم کے راستے انقلاب کا خواب دیکھا۔ دونوں کی شاعری میں یہ فرق بہت واضح ہو کر سامنے آتا ہے۔

شاعری کے ساتھ ساتھ پاکستان ٹائم،امروز،لیل ونہار میں بھی کام کیا۔راولپنڈی سازش کیس میں ملوث ہونے کے شبہ میں آپ کو 9 مارچ 1951 ء کو گرفتار کر لیا گیا۔چار سال آپ نے جیل میں گزارے۔آپ کو 2 اپریل 1955 کو رہا کر دیا گیا۔ زندان نے فیض کو مشہور شاعر بنایا۔فیض نے تو آج کی دنیاکے جملہ سیاسی، سماجی، اقتصادی، معاملات کو سامنے رکھ کر شاعری کی ہے۔ ان کی کتابیں نقش فریادی، سروادی سینا، دست صبا، شام شہر یاراں، مرے دل مرے مسافر،نسخہ ہائے وفا،زنداں نامہ،دست تہ سنگ۔ ان کا مجموعۂ کلام دستِ صبا ان کی قید کے دوران ہی منظرِ عام پر آیا۔ اس کے علاوہ زنداں نامہ کی اکثر و بیشتر شاعری پسِ زنداں ہی تصنیف ہوئی ۔ فیض کی شاعری کے تراجم مختلف زبانوں میں ہوئےسب سے زیادہ روس میں آپ کی شاعری کو سراہا گیا۔ فیض احمد فیض کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کے ذکر کے بغیر اردو ادب کی تاریخ ادھوری ہے۔

فیض احمد فیض کو چار بار نوبل انعام کے لیے نامزد کیا گیا۔ لینن پیس پرائز 1962 کو حاصل کیا۔ نشان امتیاز،نگارایوارڈ سمیت متعدد عالمی اور قومی اعزازات سے نوازا گیا۔ فیض احمد فیض کی مجموعی شاعری یاسیت کا رنگ لیے ہوئے ہے۔ کہیں کہیں عشق ومحبت جھلکتا ہے۔ان کی شاعری میں انسانیت سے محبت،دوسروں کا درد،زندگی کی بنیادی ضروریات،غربت،محرومی،ان کو بے چین رکھتی تھی۔ فیض کو اپنے ملک سے حددرجہ محبت ہے وہ ملک سے جبرواستحصال کے خاتمے کے متمنی تھے ۔اس ملک کی ترقی وخوشحالی اور جمہوریت کے لئے کوشاں تھے۔

مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے

%d bloggers like this: