مئی 6, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مصنوعی مہنگائی اور کسان ماڈل بازار ۔۔۔جام ایم ڈی گانگا

اجارہ داری کے خاتمے کے لیے شوگر ملوں کے قیام اور منظوری کو اوپن کر دے. بیک وقت کسانوں اور عوام کو کاٹ کھانے والے اژدھے کو کنٹرول کیا جائے.

وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کا عوام کو ریلیف دینے کیلئے بڑا اقدام صوبے کے 32 ماڈل بازاروں میں کسان براہ راست اپنی اجناس فروخت کرسکیں گے۔

پنجاب حکومت کسانوں کو اجناس کی فروخت کیلئے ماڈل بازاروں میں سٹال فراہم کرے گی کسانوں سے سٹالز کا کرایہ یا کوئی اور فیس نہیں لی جائے گی کاشتکار کھیت سے سبزیاں اور پھل لا کر براہ راست ماڈل بازار میں عوام کو فروخت کریں گے۔

وزیراعلیٰ صوبے میں زرعی فیئر پرائس شاپس کا دائرہ کار بھی بڑھانے کی ہدایت کی ہے.

موجودہ طوفانی مہنگائی، اشیاء خورد و نوش کے مصنوعی اور حقیقی بحران سے نمٹنے اور صارفین کو ان کے بد اثرات سے بچانے کے لیے حکمران اور انتظامیہ میدان میں سرگرم عمل ہے. یہ علیحدہ بات ہے کہ انہیں گرم سے سرد اور ٹھنڈا کرنے والے لوگ اور گروہ بھی اپنی پوری طاقت اور توانائیوں کے ساتھ موجود ہیں.

یہ مصنوعی مہنگائی کوئی نئی بات نہیں ہے. عوام پر مصنوعی مہنگائی کا حملہ پہلی بار نہیں ہو رہا. بے چاری عوام اس طرح کے حملوں اور شدید حملوں کا پہلے بھی کئی بار شکار ہو چکی ہے.

دراصل وطن عزیز میں شکاری بہت بڑے اور طاقت ور لوگ ہیں.یہاں حقائق یہاں تک تلخ ترین بتائے جاتے ہیں سرائیکی زبان میں کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ُ ُ جتھاں لوڑھے رڑھیں چردن.سچی گال اے لوک ایویں مردن ٗ ٗ. مطلب یہ کہ رکھوالے، کنٹرولر، محافظ، نگرانوں میں سے لوگ ملوث اور ملے ہوئے پائے جاتے ہیں. وہاں عوام ایسے ہی مرتی ہے.

لوٹ مار کا شکار ہوتی ہے.بہت کچھ سرکاری آفیسران کی سرپرستی میں ہوتا ہے. ماضی میں ضلع رحیم یار خان سے روزانہ سینکڑوں ٹرک گندم کیسے سمگل ہونے کے لیے جاتی تھی. بلوچستان کے راستے یہاں سمگل شدہ ایرانی تیل کیسے پہنچتا ہے.بیج مافیاء کیسے چل پل رہا ہے. کون نہیں جانتا؟ خیر اس پر پھر لکھیں گے.
وزیر اعلی پنجاب سردار محمد عثمان خان بزدار کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ صارفین کے حقوق کا ہر قیمت پر تحفظ یقینی بنائیں گے.

پرائس کنٹرول میکانزم پر سو فیصد عملدرآمد یقینی بنانے کے لئے آخری حد تک جائیں گے. پرائس کنٹرول کے حوالے سے حکومت زیروٹالرنس پالیسی پر عمل پیراہے۔گرانفروشی کے خلاف جس ضلع سے شکایت آئی تو متعلقہ ڈپٹی کمشنر جوابدہ ہو گا مصنوعی مہنگائی کے ذمہ داروں کے خلاف بلا تفریق کریک ڈاؤن جاری رکھا جائے۔

ذخیرہ اندوزوں کے خلاف بھی دباؤ کے بغیر کارروائی کی جائے۔انتظامیہ پرائس کنٹرول کیلئے خود میدان میں نکلے دفتروں میں بیٹھ کر عوام کو ریلیف نہیں دیا جا سکتا عملی اقدامات کر کے اشیاء ضروریہ کی مقررکردہ نرخوں پر فروخت یقینی بنائی جائے پرائس کنٹرول مجسٹریٹس عوام کو ریلیف دینے کے لئے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو روزانہ کی بنیاد وں پر چیک کریں۔سبزیوں، پھلوں اور دالوں کی قیمتوں میں مصنوعی اضافہ کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا ضلع کی سطح پر پرائس کنٹرول کمیٹیوں کو فعال انداز میں کام کرنا ہوگا۔

محترم قارئین کرام،،، صوبے جے وزیر اعلی نے جو کچھ فرمایا ہے اچھی باتیں ہیں.جو کچھ کر رہے ہیں یا کرنے جا رہے ہیں. اس کا عوام کو کب تک کیا اور کتنا ریلیف ملے گا.یہ تو کریک ڈاؤن اور حالات ہی بہتر بتائیں گے.

جہاں تک میری سمجھ میں آتا ہے یہ ساری کاروائی اور ایکشن محض وقتی اور جزوی ہے. دراصل ایڈہاک ازم کی سوچ اور نظریے نے، ذاتی سیاسی و معاشی مفادات کے حصول کی اندھی اور بے رحم دوڑ نے حکومتوں، اداروں اور معاشرے سے اخلاقیات کی دولت چھین کر حرص و ہوس کو بھر دیا ہے.

یہی وجہ ہے کہ ایک دوسرے کا احساس اور درد رکھنے والے انسان کم اور کاٹ کھانے والے زیادہ ہو گئے ہیں. یہی شکوہ ہم میں سے اکثر طبقات اور لوگ ایک دوسرے سے کرتے نظر آتے ہیں. نظام اور سسٹم انفرادی اور اجتماعی بد نیتی کی وجہ سے فیل در فیل ہوتے چلے آ رہے ہیں.

مجھے کسان ماڈل بازار کامیاب ہوتے ہوئے نظر نہیں آ رہے. وطن عزیز میں سرکاری سرپرستی میں چلنے والے بہت سارے سستے بازار ہمارے سامنے ہیں. اربوں روپے کے پیکیجز کا کتنا پیسہ تشہیر پر خرچ ہوتا ہے. کتنی رقم ملی بھگت سے اِدھر اُدھر ہوتی ہے. عوام کو ریلیف کے لیے باقی کیا اور جتنا بچتا ہے.

ہہ حیقیت ہم تم سب اچھی طرح جان چکے ہیں. قلیل تعداد میں لانچ کیے جانے والےکسان بازار وں سے کوئی خاطر خواہ رزلٹ حاصل نہیں کیا جا سکے گا. جس کی کئی وجوہات ہیں.پہلی بات کسان بازاروں کو آباد کرنے میں بھی کئی مشکلات پیش آئیں گی.

انہیں مستقل جاری رکھنے کے لیے مستقل اور مضبوط قسم کی پلاننگ کی ضرورت ہے. جوکہ نظر نہیں آ رہی.اسسٹنٹ کمشنر صاحبان کے علی الصبح منڈیوں کے وزٹ سے عوام پر اس کے مثبت اثرات بھی کچھ نہ کچھ ضرور مرتب ہوں گے.مجھے یقین ہے کہ یہ صبح صبح اٹھنا اور منڈیوں کا وزٹ کرنا ان کی صحت کے لیے سازگار اور مفید رہے گا.

یہ منڈیوں کا وزٹ بولی کو اوپر جانا سے جبری روکنا ہے یا بولی کے مطابق ریٹ لسٹ مرتب کرکے آگے مارکیٹوں اور شہر میں عمل درآمد کروانا ہے.اگر بولی کو جبری روکنا مقصد ہے تو یہ سراسر کسان کے ساتھ زیادتی ہے. کیونکہ جن دنوں ٹماٹر پانچ روپے کلو کے حساب سے بکتا ہے پھر تو کوئی وزٹ نہیں کرتا سخت خسارے کے شکار کسان کو کوئی سہارا یا ریلیف نہیں ملتا.

اس وقت کسانوں کو طلب اور رسد کا قانون بتایا جاتا ہے.منڈیاں ہوں یا ملک طلب اور رسد کا قانون ایک حقیقت ہے.حالات کے متوقع اتار چڑھاؤ اور مستقل نوعیت کی اپنی ضروریات اور قومی ترجیحات کے مطابق پلاننگ کرنا بھی حکومتوں اور حکمرانوں کا کام ہے.

جب ملک کی شوگر انڈسٹری کو چند مخصوص خاندانوں کی مکمل اجارہ داری میں دے کر ملک کے کروڑوں کسانوں کو ان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے وہاں شوگر ملز کارٹل حکومت سے 38سے 45روپے کلو والی چینی کا ریٹ 75روپے کلو کروانے کا اعلان اور نوٹیفیکیشن جاری کروا لیتی ہے.

پیداواری اخراجات میں خاصے اضافے کے باوجود کسانوں کے گنے کا ریٹ چھ سال گزرنے کے بعد بھی نہیں بڑھایا جاتا.کسانوں کے 300روپے من کے حق کو 180روپے من پر ہینڈ بریکیں کھنچ کر لگا دی جاتی ہیں.کسانوں سے اگر گنا 180روپے من میں ہی خریدنا ہے تو حکومت جو چاہئیے کہ وہ عوام کو چینی بھی 45روپے کلو کی فراہمی یقینی بنائے.

اجارہ داری کے خاتمے کے لیے شوگر ملوں کے قیام اور منظوری کو اوپن کر دے. بیک وقت کسانوں اور عوام کو کاٹ کھانے والے اژدھے کو کنٹرول کیا جائے. شوگر انڈسٹری نقصان دہ مافیا کا روپ دھار چکی ہے اس کا علاج بہت ضروری ہے.

حالات اور مرض کی نوعیت کے مطابق بہترین اور منصفانہ علاج وہی ہے. جس کا ہم اوپر ذکر کر چکے ہیں.یعنی اجارہ داری کا خاتمہ. یہاں تو سیاست سیاست کھیلتے کھیلتے زیادہ وقت برباد کر دیا جاتا ہے. یہی ہمارا بنیادی اور بہت بڑا المیہ ہے.

%d bloggers like this: