اپریل 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مقبرہ سطح زمین سے کوئی دس فٹ اونچے چبوترے پر تعمیر کیا گیا ہے، مقبرہ کی چھت گر چکی ہے جبکہ دیواریں بھی خستگی کا شکار ہیں۔

تحریر و تصاویر:
ڈاکٹر سید مزمل حسین


مقبرہ شیخ سادن شہید  ملتان سے ہیڈ محمد والا کراس کر کے چوک پر جائیں تو وہاں  سے دو کلومیٹر بجانب جھنگ بستی سرور والا کے مشرق میں جھلاریاں میں واقع ہے۔

حضرت شیخ سادن شہید کا نام سعید الدین قریشی ہے، آپ حضرت مخدوم عبد الرشید حقانی کے بھائی اور حضرت بہاالدین زکریا ملتانی کے کزن ہیں۔

سینیئر ایکسپلورر جناب خرم سعید خان کراچی کی تحقیق کے مطابق حضرت شیخ سادن نے سندھ، ملتان اور لاہور پر منگولوں کے تسلط اور تیسرے حملے کے خلاف 1286 میں جنگ بیاص میں غیاث الدین بلبن کے بڑے بیٹے شہزادہ محمد خان کے ہمراہ جام شہادت نوش فرمایا ۔

اس معرکے میں منگولوں کو شکست سے دوچار ہونا پڑا اور وہ یہ علاقہ چھوڑ کر چلے گئے جسکے بعد سے اس علاقہ پر مسلمانوں کی گرفت مضبوط ہوگئی ۔ اس شاندار فتح اور شہادت کے بعد شہزادہ محمد خان "خان شہید ” کے نام سے مشہور ہوئے ۔

بیٹے کی موت کا غم غیاث الدین بلبن سے برداشت نہ ہوا اور کچھ عرصے کے بعد وہ بھی وفات پاگئے ۔ دہلی میں شہزادہ محمد خان کو شاہی اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا آج بھی دہلی میں مہرولی میں سلاطین دہلی کے آثار باقی ہیں اور جن میں ایک شکستہ مقبرے کے کھنڈرات کے درمیان شہزادے محمد خان اور غیاث الدین بلبن کی قبریں آج بھی موجود ہیں۔

شہزادہ محمد خان کے ہمراہ جام شہادت نوش پانے والے سادن شہید کو شاہی اعزاز کے ساتھ انکے رہائشی علاقے میں دفنایا گیا اور شاہی طرز کا مزار ان کی شان میں بنوایا گیا۔

مقبرہ سادن شہید مختلف فنون تعمیر کا ایک منفرد شاہکار ہے اس میں عرب، سینٹرل ایشیا اور وادی سندھ کے فنون کا امتزاج ملتا ہے۔

گواکشا محراب میں اینٹوں کو تراش کر کمال مہارت سے عربی عبارات لکھی گئی  ہیں جو اس دور کے معماروں کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

مقبرہ سطح زمین سے کوئی دس فٹ اونچے چبوترے پر تعمیر کیا گیا ہے، مقبرہ کی چھت گر چکی ہے جبکہ دیواریں بھی خستگی کا شکار ہیں۔

گزشتہ تین سال میں ہم کئی بار اس مقبرہ کا دورہ کر چکے ہیں اور ہر بار مقامی انتظامیہ کی جانب سے مقبرہ میں کی گئی  تبدیلیاں دیکھنے کو ملی ہیں جو عمارت کی ساخت اور خوبصورتی کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔

عالمی یوم ورثہ کی مناسبت سے ہم محکمہ آثار قدیمہ سے درخواست کرتے ہیں کہ خدارا اس ختم ہوتے ہوئے تاریخی شاہکار کو بچا لیں جو زمانہ کی سختیوں کے باوجود صدیوں سے اپنا وجود سنبھالے ہوئے ہے لیکن ہماری سستی اور لاپرواہی کی وجہ سے تنزلی کا شکار ہے۔

%d bloggers like this: