مئی 12, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

خیبر پختونخوا اِ ن ایڈ آف آرڈیننس کے خلاف مسترد ہونے والی پٹیشن سے متعلق اپیل دائر

پٹیشن میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس مسئلے کے لئے کوئی دوسرا مناسب فورم بھی موجود نہیں اور اسے صرف سپریم کورٹ ہی حل کر سکتی ہے۔

سابق سینیٹرز فرحت اللہ بابر، افراسیاب خٹک، سابق رکن قومی اسمبلی بشریٰ گوہر اور ماہر تعلیم روبینہ سہگل نے خیبرپختونخوا میں اِ ن ایڈ آف آرڈیننس کے خلاف مسترد ہونے والی پٹیشن سے متعلق اپیل دائر  کردی ہے ۔

پٹیشنرز کے وکیل احمد حسین نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ وہ یہ اپیل اور آئینی پٹیشن دونوں کی سماعت ایک ساتھ کرے۔ اسٹنٹ رجسٹرار کے فیصلے کے خلاف اپیل آج فائل کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ دائر کی گئی پٹیشن کو بغیر کوئی وجہ بتائے ناقابل سماعت قرار دیا گیا ہے۔

اپیل میں کہا گیا ہے کہ یہ واضح طور پر مفاد عامہ میں ہے اور اس کا تعلق انسانی حقوق سے ہے کیونکہ اس میں کسی بھی شہری کو کے پی کے حراستی مراکز میں غیرمعینہ مدت تک رکھا جا سکتا ہے۔ اس سے افواج پاکستان کو اس بات کا اختیار مل جاتا ہے کہ وہ کسی بھی پاکستانی شہری کو غیرمعینہ مدت تک حراست میں رکھ سکے۔

پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ یہ آرڈیننس ایک مفاد عامہ کا معاملہ ہے کیونکہ اس سے کے پی صوبہ میں رہنے والا ہر شخص متاثر ہوتا ہے۔ کوئی بھی شخص جو کے پی میں موجود چاہے وہ کے پی کا رہائشی ہے یا نہیں ہے اس پر اس آرڈیننس کا اطلاق ہو سکتا ہے اس لئے یہ مفاد عامہ کا معاملہ ہے۔

یہ آئین کے آرٹیکل 9، 10اے، 13، 14، 15 اور 19، 23، 24، 25 کے متعلق ہے اور یہ سارے آرٹیکل بنیادی حقوق کے خلاف ہیں اس لئے یہ واضح طور پر ظاہر ہے کہ یہ پٹیشن قابل سماعت ہے اور اسسٹنٹ رجسٹرار کا دیا ہوا فیصلہ غلط ہے۔

اس سے صوبہ کے پی میں قائم حراستی مراکز کو قانونی تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے۔ اس لئے یہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ رجسٹرار یہ بات سمجھنے میں ناکام ہوگئے ہیں کہ اس پٹیشن میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سرکاری ویب سائٹ پر ان تمام قوانین کو شائع کیا جائے تاکہ عوام الناس کو پتہ چل سکے کہ یہ ان کے حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔

پٹیشنرز نے کہا کہ پٹیشن میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ اس آرڈیننس کس طرح سے انسانی حقو ق کی خلاف ورزی ہے۔ پٹیشنرز نے بینظیر بھٹو بمقابلہ وفاق سپریم کورٹ416، 1988ءکا حوالہ دیا گیا ہے جس میں فیصلے میں یہ کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 183(3) کی سادہ زبان ظاہر کرتی ہے کہ یہ ایک اوپن اینڈڈ معاملہ ہے۔ یہ آرٹیکل یہ نہیں کہتا کہ سپریم کورٹ کو جاسکتا ہے اور کوئی بھی شخص جس کے بنیادی حقوق کا معاملہ ہے وہ سپریم کورٹ جا سکتا ہے۔

یہ بات کہ کسی کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے یا نہیں ایک قانونی سوال ہے جس کے متعلق ججز ہی بتا سکتے ہیں۔

پٹیشن میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسسٹنٹ رجسٹرار نے غلطی سے اس پٹیشن کو ناقابل سماعت قرار دے دیا۔ پٹیشن میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس مسئلے کے لئے کوئی دوسرا مناسب فورم بھی موجود نہیں اور اسے صرف سپریم کورٹ ہی حل کر سکتی ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق اس بارے میں سپریم کورٹ نے پشاور ہائی کورٹ کا حکم معطل کر دیا ہے اور اس کیس کو ایک لارج بینچ میں بھیج دیا ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ خود سپریم کورٹ اسے مفاد عامہ کا معاملہ سمجھتی ہے جس سے بنیادی حقوق متاثر ہوتے ہیں اس لئے برائے مہربانی اسسٹنٹ رجسٹرار کا حکم کالعدم قرار دیا جائے اور اس پٹیشن کو قابل حترام سپریم کوٹ کے ججز کے سامنے پیش کیا جائے۔

%d bloggers like this: