اپریل 19, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

شرجیل بلوچ نے کہا کہ ایک دن اچانک بیٹھے بیٹھے انہیں خیال آیا کہ ایسا کچھ کرنا چاہیے کہ جس سے بہت کچھ ہوجائے۔

رنگ تماشا کیا ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے رنگ تماشا کے بانی شرجیل بلوچ کا کہناہے کہ یہ دو تین لوگوں کا ایک انفارمل گروپ ہے اب فارمل ہوتا جارہاہے۔ شرجیل بلوچ نے کہا کہ ایک دن اچانک بیٹھے بیٹھے انہیں خیال آیا کہ ایسا کچھ کرنا چاہیے کہ جس سے بہت کچھ ہوجائے۔

انہوں نے کہا کہ ایک دن اپنے دوست اشفاق بھٹی سے کہا کہ بہت بے رنگی سی ہوگئی ہے کچھ نہ کچھ کرنا چاہیے ۔ انہوں نے کہا آپ میرے اسکول میں آجائیں رنچھوڑ لائن کراچی میں وہاں کچھ ہوسکتا ہے تو کریں۔ میں وہاں گیا اور دیکھا تو کہا یہاں تو بہت کچھ ہوسکتاہے۔

شرجیل نے بتایا میرے ایک اور دوست ہیں ظاہر حسین جو بہت اچھے کیلی گرافر ہیں اور واٹر کلر بھی کرتے ہیں۔ ظاہر سے خیال شئیر کیا تو انہوں نے کہا میں آپ کے ساتھ ہوں ۔ پھر ہم نے اسکول میں بچوں کے ساتھ ملکر کر رنگ بھرنے کا کام شروع کیا ۔

انکا کہنا تھا کہ اس کام میں بچوں کا دل لگنا شروع ہوگیا انہوں نے اسکول میں زیادہ وقت گزارنا شروع کردیا اسکول کی انرولمنٹ بھی بڑھنا شروع ہوگئی ۔

کمیونٹی اسکول میں آنا شروع ہوگئی اور بچوں کے رویوں میں مثبت تبدیلی آنا شروع ہوگئی ۔ جب ہم نے محسوس کیا کہ اس کام کا اثر ہے تو پھر ہم نے اسے آگے پھیلانا شروع کردیا۔

شرجیل بلوچ نے کہا کہ وہ اس وقت بلوچستان میں بھی کام کررہے ہیں ۔ اپنے ہوم ٹاؤن مچھ میں بھی کام کررہاہوں۔

مچھ ایک تاریخی قصبہ ہے وہاں کی جیل بہت مشہور ہے ، کوئٹہ سے سبی کی طرف آئیں تو لگ بھگ چالیس منٹ کی مسافت پر یہ قصبہ آتاہے ۔

پرٹش دور میں ڈیزائن کیا گیا قصبہ ہے ۔ مچھ کے مختلف محلوں میں بچوں نے یہ کام شروع کردیا ہے ۔ وہاں جلال آباد کا ہائی اسکول ہے وہاں ہم نے ایک دن میں سو فٹ کی ایک دیوار کو ہم نے ایک ہی دن میں پینٹ کیا۔

انہوں نے بتایا کہ اسی طرح اوتھل سے آگے ڈام نام کی بستی ہے وہاں چھوٹے چھوٹے ہٹس ہیں جو بالکل گرے ہوچکے ہیں ہم نے انہیں رنگ کیا ۔

خیال یہ ہے کہ میں جہاں بھی جاتاہوں وہاں اپنے دوستوں کو کہتا ہوں کہ مجھے پینٹ چاہیے رنگ تماشا کرنا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہمارا خیال یہ تھا کہ ہم اس خیال کو پہلے اسکولوں سے شروع کریں اور پھر پورے سماج کو اس میں شراکت دار بنائیں گے۔

شرجیل بلوچ نے بتایا کہ بلوچستان حکومت نے پیش کش کی ہے کہ وہاں سات سو کے قریب بنیادی مراکز صحت ہیں وہاں آکر رنگ تماشا کریں ۔اس سے آگے میرا خیال ہے کہ ہم اپنے اپنے ہوم ٹاونز کو پینٹ کریں ان میں رنگ بھردیں ۔

فنڈنگ سے متعلق سوال کے جواب میں شرجیل نے بتایا کہ کچھ فنڈنگ انہیں اسکول سے مل جاتی ہے اور کچھ ہم دوست ملکر فنڈ اکٹھا کرلیتے ہیں تاہم ہمارا خیال ہے کہ اب ہم کارپوریٹ سیکٹرخاص طور پر پینٹ کمپنیز اور حکومتوں کو بھی اس میں شراکت دار بنائیں تے عالمی سطح پر اس کام کی پذیرائی ہو۔

بچوں کے رویوں میں تبدیلی سے متعلق سوال کے جواب میں شرجیل بلوچ نے بتایا کہ جب ہم نے اسکول میں کام شروع کیا تو وہاں مختلف کمیونیٹز کے بچے تھے اور ان میں ایک طرح کی تفریق موجوددکھائی دیتی تھی۔
جیسا کہ بلوچ ہے پٹھان، سندھی ہے مہاجر ہے ہندو ہے مسلمان ہے وغیرہ وغیرہ ۔

ہم نے محسوس کیا کہ یہ صرف پینٹ کرنا نہیں ہے یہ انسان کے دماغ کو بھی رنگ دیتا ہے اور وہ رنگا رنگی کو قبول کرتاہے۔ ایک ڈیڑھ ماہ بعد ہم نے بچوں کے رویوں میں حیران کُن تبدیلی دیکھی وہ آپس میں گھل مل گئے ۔

%d bloggers like this: