مئی 16, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسی کی درخواست پر سپریم کورٹ میں سماعت

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا اتمام وکلا ذہن میں رکھیں کہ ہم صرف ریفرنس پر دلائل سنیں گے،بعض درخواستوں میں ریفرنس سے ہٹ کر بھی نکات اٹھائے گئے ہیں۔

اسلام آباد: صدراتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسی کی درخواست پر سپریم کورٹ کا دس رکنی لارجر بنچ سماعت کررہاہے ۔

جسٹس قاضی فائز عیسی کے وکیل منیر اے ملک کے دلائل شروع ہونے سے قبل سپریم کورٹ کے سینئیر وکیل افتخار گیلانی نے روسترم پر آکر کہا کہ ہماری دو درخواستوں پر ابھی تک نوٹس نہیں ہوا۔

اس پر بنچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ کی درخواستوں پر آج نوٹس کر دیا جائے گا،تمام وکلا ذہن میں رکھیں کہ ہم صرف ریفرنس پر دلائل سنیں گے،بعض درخواستوں میں ریفرنس سے ہٹ کر بھی نکات اٹھائے گئے ہیں۔

جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ ایسے نکات پر وقت کی کمی کے باعث بحث نہیں کر سکتے،تمام درخواستوں میں اگر ایک ہی بات ہے تو ایک وکیل کو سننا کافی ہے،پٹیشنز اور وکلا کی تعداد سے فرق نہیں پڑے گا، دلائل کی اہمیت ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسی کے وکیل منیر اے ملک نے گزشتہ روز کی طرح اپنے دلائل کا آغاز فیض آباد دھرنا کیس سے شروع کیا۔

منیر اے ملک نے کہا کہ فیض آباد دھرنا کیس پر نظر ثانی درخواستیں مارچ میں دائر کی گئیں ،دس اپریل 2019 کو ایسٹ ریکوری یونٹ کو ایک صحافی نے خط لکھا۔

منیراے ملک نے صحافی عبد الوحید ڈوگر کا ایسٹ ریکوری یونٹ کو لکھا گیا خط پڑھ کر سنایا۔

قاضی فائز عیسی کے وکیل نے کہاکہ صحافی کے خط میں قاضی فائز عیسیٰ کی کسی بھی جائیداد کا ذکر نہیں کیا گیا،اس خط پر فون نمبر اور پتہ  درج نہیں ہے۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے استفسار کیا کہ یہ ایسٹ ریکوری یونٹ کیا ہے یہ وزیراعظم سیکرٹریٹ میں کیوں ہے۔

منیر اے ملک نے کہا کہ دس مئی کو وزیر قانون کو ایک خط لکھا گیا جس میں ان سے موقف مانگا گیا، پہلی بار زرینہ کھوسو  اور ارسلان کھوسو کے نام سامنے آئے، وحید ڈوگر نے لندن کی جائیداد کے بارے میں آن لائن سرچ کر کے دستاویز سامنے رکھیں۔

قاضی فائز عیسی کے وکیل نے کہا وحید ڈوگر نے الزام لگائے کہ قاضی فائز عیسیٰ کی جائیداد لندن میں ہے،جو انہوں نے اپنے اثاثوں میں ظاہر نہیں کی۔

منیر اے ملک نے کہاخود کو تحقیقاتی صحافی کہنے والے نے درخواست پر “عیسی” کے ہجے بھی غلط لکھے ہیں،صحافی کا دعوی ہے کہ اس نے لندن کے مکان کی تفصیل آن لائن سرچ سے ڈھونڈی۔

قاضی فائز عیسی کے وکیل نے مزید کہا کہ وحید ڈوگر نے جسٹس کے کے آغا کی جائیداد سے متعلق بھی معلومات دیں،وحید ڈوگر نے یہ بھی ایسٹ ریکوری یونٹ کو بتایا کہ کے کے آغا کے پاس دوہری شہریت ہے، لیکن کوئی دستاویزی ثبوت نہیں دیئے۔

منیر اے ملک نے کہاایسٹ ریکوری یونٹ نے کہا ہے کہ وحید ڈوگر نے لندن لینڈ ڈیپارٹمنٹ کی ایک کاپی فراہم کی ہے،8 مئی کو ایسٹ ریکوری یونٹ نے ایک خط لکھا جس میں جج کی جائیداد کی بارے میں ذکر ہے،دس مئی کو ایف آئی اے کی ایسٹ ریکوری یونٹ والوں سے میٹنگ ہوئی،اس میٹنگ میں درخواست گزار کی اہلیہ کا نام اور سپین کی شہریت سامنے آئی۔

جسٹس عمر عطابندیال نے ریمارکس دیے کہ ویزا درخواست کی وجہ سے نام سامنے آیا، جسٹس قاضی فائز کی اہلیہ کو پانچ سال کا ویزہ دیا گیا۔

منیر اے ملک نے نے سوال اٹھایا جسٹس قاضی کی اہلیہ کا نام ڈوگر کو کیسے پتا چلا؟کیسے ایک جج کیخلاف تحقیقات شروع کی جاسکتی ہیں میرا یہی مدعا ہے۔

جسٹس قاضی فائز کے وکیل نے کہاکل پھر ایک ایس ایچ او بھی درخواست پر کارروائی شروع کر دے گا،ججز کیخلاف تحقیقات سے متعلق قانون میں کچھ سیف گارڈز ہیں۔

جسٹس فیصل عرب نے کہا ججز کے حوالے سے دو فورمز ہیں جو رائے دے سکتے ہیں۔

منیر اے ملک نے کہا  شکایت وصول کرنا,ثبوت اکٹھے کرنا اور ریفرنس فائل کرنا مخلتف اوقات میں سیریز کیساتھ ہوئے ہیں۔

جسٹس مقبول باقر نے کہا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ بغیر اجازت کے جج کیخلاف تحقیقات شروع کی گئیں؟ کیا آپ ایسٹ ریکوری یونٹ کی قانونی حیثیت عدالت کو بتا سکتے ہیں؟

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاآپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ وحید ڈوگر کو ایف آئی اے اور ایف بی آر نے تمام معلومات فراہم کیں؟

جسٹس مقبول باقر نے کہا آپ کیمطابق تحقیقات ایسٹ ریکوری یونٹ کیوجہ سے شروع ہوئیں۔

منیر اے ملک نے کہا کہ ڈوگر ایک جعلی شکایت کنندہ ہے، ایسٹ ریکوری یونٹ میں کوئی بھی سول سرونٹ نہیں ہے۔

جسٹس مقبول باقر نے پوچھا وحید ڈوگر کو کیسے علم ہوا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کے یورپین نام کا؟

منیر اے ملک نے کہا ہو سکتا ہے ڈوگر کے پاس مافوق الفطرت پاورز ہوں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسارکیا آپ آن لائن پراپرٹی لندن لینڈ اتھارٹی سے لے سکتے ہیں؟

منیر اے ملک نے کہا کہ صرف پلاٹ کا پتہ لگ سکتا ہے کس کے نام پر ہے یہ پتہ نہیں لگ سکتا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا یہ ممکن ہے کہ نام پر ریکارڈ سرچ کیا جا سکتا ہے؟سوال یہ ہے کہ پھر کیسے اس پراپرٹی کے بارے معلومات ملیں؟

منیر اے ملک نے کہا یہ سب درخواست گزار کا اور اس کے خاندان کا پیچھا کر کے معلومات لی گئیں، 27 اکتوبر 2018 کو نیو یارک ٹائم کی خبر کا ذکر ہے جس میں صحافی پر حملے کا ذکر ہے،احمد نورانی کی بی بی سی کی رپورٹ بھی آئی۔

%d bloggers like this: