مئی 6, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

یادوں کی برسات ۔۔۔ ڈیرہ اور ایس ایس جہلم ۔۔۔

کبھی کبھی جہاز دریا کے بیچ ریت میں پھنس جاتا تو خاص قسم کا SOS ہارن بجاتا۔پھر لانچیں اور خلاصی وہاں روانہ ہوتے اور جہاز کو نکال لیتے۔ کبھی یہ جہاز کئی دن پھنسا رہتا اور مسافر بھی وہیں رات گزارتے۔

گلزار احمد 


بچپن میں جب مجھے لاھور کے ایک سکول داخل کیا گیا تو ڈیرہ اسماعیل خان سے لاھور پہنچنے پر دو دن لگتے تھے جو سفر اب چھ گھنٹے کا ھے۔

اس سفر کا دلچسپ پہلو SS Jhelum جھاز تھا جو دریا خان اور ڈیرہ کے درمیان دریاۓ سندھ کے بیس کلو میٹر فاصلے کو طے کرتے پورا دن لگا دیتا۔ اس جھاذ کے نچلے عرشے میں مال مویشی ساز وسامان اور کچھ لوگ ہوتے اور اوپر والے عرشے میں مسافر۔ کبھی کبھی اوپر والے عرشے میں بارات جا رہی ھوتی تھی تو گانے واے ڈھول والے اورجھومر ڈانس والے بھی اپنے فن سے محظوظ کرتے۔

جہاز جب روانہ ہوتا تو ایک خلاصی سب سے آگے جہاز کی دیوار والی جگہ بیٹھتا اور ایک لمبی لکڑی سے دریا کی گہرائ کا ناپ کرتا اور جانو کپتان کو بتاتا۔۔۔چھ فُٹا۔سات فٹا۔آٹھ فٹا۔ آواز اتنی بلند ہوتی کہ سب کو سنائی دیتی اور چونکہ جہاز پانی کی ایک خاص گہرائی میں تیر سکتا تھا اگر پانی کم ہوتا تو رُک جاتا اور پھر گہرے پانی کی طرف موڑ دیا جاتا۔

جانو کپتان ایک تجربہ کار ڈرائیور تھا اور وہ دریاکی لہروں کے رُخ کو خوب جانتا تھا۔

جب جہاز دریا کے کنارے سے روانہ ھوتا تو ایک خاص قسم کا ہارن بجاتا جسے ہم کُوک کہتے تھے جو سارے شھر کو سنائ دیتا اور دل کو بھاتا تھا کہ اب جہاذ روانہ ہورہا ھے پیارے گلے مل رھے ہیں اور جدائ کا وقت شروع ہو گیا ۔بعض بچوں عورتوں کی آنکھیں نمناک ہوتی کیونکہ اُس زمانے میں جدائی کافی لمبی ہوتی تھی۔

کبھی کبھی جہاز دریا کے بیچ ریت میں پھنس جاتا تو خاص قسم کا SOS ہارن بجاتا۔پھر لانچیں اور خلاصی وہاں روانہ ہوتے اور جہاز کو نکال لیتے۔ کبھی یہ جہاز کئی دن پھنسا رہتا اور مسافر بھی وہیں رات گزارتے۔

اوپر والے عرشے میں ایک کچن تھا جھاں دال روٹی بھی مل جاتی تھی۔اُس وقت بھوک میں وہ روٹی دال فائیو سٹار ہوٹل سے کم نہ تھی۔شام کو ہم دریا خان پہنچتے وہاں سے رات کو ٹرین کے ذریعے کُندیاں ریلوے سٹیشن اور یہاں سے ایک اور ماڑی انڈس ٹرین پر سوار ہو کر دوسرے دن عصر کو لا ھور آ جاتے۔

بشکریہ آئی آر ایف سی اے ڈاٹ او آر جی

SS Jhelum کی مختصر تاریخ یہ ھے کہ پہلی جنگ عظیم میں یہ انگریزوں کے لئے یو کے میں ایک موبائیل ڈسپنسری کے طور پر استعمال ھو رہا تھا۔ زخمی فوجیوں کو لانے کے علاوہ علاج کا بھی انتظام جہاز کے اندر تھا۔

پھر جنگ کے خاتمے کے بعد پھرتے پھراتے یہ ہندوستان کے پنجاب صوبے کو ملا۔ کیونکہ یہاں انگریزوں کی حکومت تھی۔1935میں اس جہاز کو سرحد حکومت جو اب Kp ہے نے پنجاب سے خرید لیا۔

یہ جہاز 150 فٹ لمبا اور 33 فٹ چوڑا تھا۔ 451 ٹن وزنی اس جہاز میں 960 ہارس پاور کا انجن تھا۔ یہ ساز و سامان کے ساتھ 500 مسافروں کو لے جاتا تھا اور گاڑیاں ۔جانور بھی اس کے سب سےنچلے عرشے میں آتے جاتے تھے۔

یہ بھی پڑھیے: جب ہم جواں ہونگے۔۔۔۔۔

مجھے یاد ھے گدھے کو جھاز پر چڑھاتے وقت گدھے کا منہ جہاز کے الٹ کر دیا جاتا اور گدھے کو کانوں سے پکڑ کر آگے کھینچتے تو گدھا پیچھے کی طرف زور لگاتا اور یوں وہ پیچھے ہوتے ہوئے جہاز پر چڑھ جاتا اُس وقت مجھے پتہ چلا گدھا آخر گدھا ہوتا ھے۔
جہاز کا کپتان جانو ٹوٹی ہڈیاں جوڑنے کا ماہر تھا ۔دور دور سے لوگ علاج کروانے اس کے پاس آتے تھے۔

ایک دفعہ بچپن میں میری دائیں بازو کی ہڈی کریک ہو گئی تو میرے بابا مجھے جانو کپتان کے پاس لے گئے ۔جانو کپتان نے ہڈی جوڑ کر پٹی باندھ دی اور بابا کو کہا آٹے کا گرم حلوہ پکا کر بازو کے ارد گرد لپیٹ کر پٹی باندھنی ھے۔

چنانچہ ماں نے خالص گھی میں حلوہ پکا کر بازو پر لگایا اور پٹی باندہ دی۔ جب ماں ذرا ادھر ادھر ہوتی تو ہم دوست ملکر حلوہ کھالیتے اور پٹی باندہ دیتے۔ ماں بیس دن حلوہ باندھتی رہی اور ہم حلوہ کھاتے رھے۔ پتہ نہیں یہ حلوہ کھانے کی کرامت تھی یا جانو کپتان کا فیض نظر تھا آخر میرا بازو ٹھیک ہو گیا اور ہم حلوے سے محروم ہو گئے۔

ایک دفعہ اس ایس جھلم کو آگ بھی لگی تھی جب یہ خالی کھڑا تھا مگر پھرمرمت کر کے پینٹ کر دیا گیا۔ جب ڈیرہ دریا خان پل بن گیا تو یوں سمجھیں یہ جہاز ریٹائر ہو کے کنارے پر لنگر انداز ہو گیا۔

یہ بھی پڑھیے: ڈیرہ اسماعیل خان کا ریلوے اسٹیشن۔۔۔۔

لوگ شام کو اس جہاز پر بیٹھتے اور ایک ہوٹل کی طرح چاۓ پیتے۔ ایس ایس جہلم ڈیرہ کی ثقافت کا حصہ تھا اور لوگوں کو اس سے بے حد پیار تھا۔ نہ جانے کیا ہوا کہ ایک رات آندھی اور بارش آئی تو ہمارا یہ Titanic پانی میں الٹ کر ڈوب گیا۔لیکن اس کا اوپر والا عرشہ نظر آ رہا تھا۔

ارباب اختیار کی کوئی مصلحت تھی کہ اسے نکالنے کی کوئ کوشش نہیں کی اور وہ ریت کے نیچے دفن ھو گیا۔ڈیرہ کا بھی کوئی ولی وارث نہ تھا جو کچھ کرتا بس ہمارے آنسو اسے آہستہ آہستہ ڈوبتا دیکھتے رھے۔
ہم کیسے لوگ ہیں کہ اپنی تاریخ۔اپنی ثقافت۔اور محبت کو اپنی آنکھوں سے ڈوبتے دیکھتے رھے اور ہاتھ بڑھا کر نکالنے کی کوشش تک نہیں کی۔
شعر عرض ھے ؎
میں دُور سے انجامِ وفا دیکھ رہا تھا۔۔۔
کچھ لوگوں نے اِک لاش سمندر میں بہا دی۔۔۔

%d bloggers like this: