مئی 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ڈیرہ اسماعیل خان کا ریلوے اسٹیشن۔۔۔۔

در اصل ریل کی کوک کی وسل کی آواز لوگوں کو اتنی پیاری لگتی کہ وہ ویگن چھوڑ کر ریل پر جا بیٹھتے۔بعض تو محض کوک کی آواز سننے کے لیے ٹانک کا چکر لگا آتے۔

گلزار احمد


آج میں کچھ پرانی کتابوں کی ورق گردانی کر رہا تھا تو ان صفحات پر کچھ پرانی تصاویر اور ماضی کی ریلوے کی تاریخ سامنے آ گئی ۔ مثال کے طور پر ابھی ریلوے کے انجن بھی نہیں آے تھے جب انگریزوں نے ڈیرہ سے ٹانک تک چھوٹی ریل کی پٹڑی بچھا دی اور ریل چلا دی۔پہلے اس ریل کو چھ گھوڑے کھینچ کے لاتے تھے جو بڑے طاقتور تھے اور وائیلر گھوڑے کہلاتے تھے۔

پھر انجن لگا دیا اور فی سواری کرایہ 8 آنے تھا۔دوسری جانب ڈاج ویگن یہاں آ گئی اور ٹانک سے ڈیرہ کا کرایہ 2 روپے مقرر ہوا۔ لیکن آخر ریل سے مقابلہ کرنے کے لیے ویگن کا کرایہ چھ آنے کرنا پڑا۔

در اصل ریل کی کوک کی وسل کی آواز لوگوں کو اتنی پیاری لگتی کہ وہ ویگن چھوڑ کر ریل پر جا بیٹھتے۔بعض تو محض کوک کی آواز سننے کے لیے ٹانک کا چکر لگا آتے۔

پھر ہم کتابوں میں ایک پٹڑی کی تصویر دیکھتے ہیں جو دریا ے سندھ کے کنارے نظر آتی ہے۔ 70 سال پہلے ڈیرہ اسماعیل خان کے قریب دریاے کے کنارے یہ ریل کی پٹڑی موجود تھی۔

کہا جاتا ھے یہ پٹڑی پیزو تک بنائی گئی تھی اور اس پر ریلوے ویگن کے ذریعے پتھر لا کر حفاظتی بند بنایا گیا۔

پٹری کے ساتھ سندھ کنارہ بہت صاف نظر آتا ھے اور درختوں کے تنوں کو چونا لگا کر سجایا گیا ھے۔مگر اس پٹڑی کے متعلق صحیح معلومات نہیں مل سکیں کہ کہاں تک تھی اور کس نے اکھاڑ پھینکی ؟؟؟
ہمارے ایک دوست کاشف عدنان محفل ٹانک کے نام سے ایک فیس بک گروپ چلاتے ہیں ۔وہ اس گروپ میں لکھتے ہیں کہ انگریزوں کے دور میں 1916ء کے لگ بھگ محکمہ ریلوے نے ماڑی انڈس سے بنوں تک ایک چھوٹی ریلوے لائین بچھائی اور اس کو جنوبی طرف ٹانک اور منزئی سے ملا دیا۔

یہ 122 کلومیٹر فاصلے کی ریلوے لائین تھی جہاں باقاعدہ ٹرین چلتی۔ڈھائی فٹ چوڑی اس چھوٹی لائین پر سات ریلوے سٹیشن تھے۔

مگر 1995ء میں یہ پٹڑی اکھیڑ کر لوہا بھٹیوں میں چلا گیا۔ میں نے کچھ اور جگہ سرچ کی تو پرانے ریلوے سٹیشن پیزو کی تصویر مل گئی۔

ان تصاویر میں فہرست کرایہ نامہ کا ایک بورڈ ہے جس پر بنوں سے ٹانک تک ریلوے سٹیشنوں کے نام لکھے ہوے ہیں ۔

ان میں ٹانک ۔گل امام۔لکی مروت ۔گمبیلا سراے ۔بنوں۔پیزو وغیرہ شامل ہیں۔ایک تصویر ٹکٹ گھر کی ہے جس کی کھڑکی اینٹوں سے بند کی ہوئی نظر آتی ہے۔ پیزو ریلوے سٹیشن کی تصویر بہت واضع اور صاف ہے۔

یہ پتہ نہیں چل سکا کہ اس پٹڑی کو 1995 میں آسمان کھا گیا یا زمین نگل گئی۔پٹڑی کے نیچے دیار کے پھٹے ہوتے ہیں وہ کدھر گیے؟ یہ ساری پٹڑی اور ریلوے سٹیشن کی زمینیں کہاں گئیں؟ چلیں یہ تو شیخ رشید صاحب کا کام ہے کہ وہ اس فردوس گم گشتہ کا پتہ کرے۔

میں یہ درخواست کرنے بیٹھا ہوں کے ڈیرہ ائیرپورٹ بھی ویران پڑا ہے۔CPEC کا گوادر سے سیدھا راستہ ڈیرہ اسماعیل خان سے گزرنا تھا مگر وہ موٹر وے کی طرح پہلو بدل کر مشرقی لمبے روٹ پر بننے لگی ۔

ڈیرہ اسماعیل خان سے کوٹلہ جام ریلوے سٹیشن 20 کلومیٹر پر موجود ہے اگر ہماری غریبی کو دیکھتے ہوے ڈیرہ میں ایک ریلوے سٹیشن بیس میل پٹڑی بنا کر بنا دیا جاے تو بہت احسان ہو گا۔

مگر میری طرح کا خیالی پلاو کوئی اور بھی پکاے تو شاید کوئی کچھڑی پک سکے۔ شاکر شجاع آبادی کے اشعار مجھ پر فٹ آتے ہے۔؎
فکر دا سِجھ اُبھردا ہے سُچیندے شام تھی ویندی۔۔۔ خیالیں وچ سکوں اجکل گُلیندے شام تھی ویندی۔۔۔غریباں دی دعا یا رب خبر نیں کن کریندا ہیں۔۔سدا ہنجواں دی تسبیح کوں پھریندے شام تھی ویندی۔۔کڈیں تاں ڈکھ وی ٹل ویسن کڈیں تاں سکھ دے سا ولسن۔۔ پُلا خالی خیالاں دے پکیندے شام تھی ویندی۔

%d bloggers like this: