اپریل 17, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ستلج ویلی پراجیکٹ اور میلسی سائفن کی کہانی

میلسی سائفن کو دریا کی سرکش لہروں اور طغیانی سے بچانے کے لئے سائفن کے بالائی حصہ کی جانب دائیں بائیں طرف مارجن بند تعمیر کئے گئے ہیں ۔

طاہرعباس سہو


دریائے ستلج کا شمار برصغیر پاک و ہند کی تقسیم سےقبل ان اہم دریائوں میں ہوتا تھا جو اپنی اہمیت کے اعتبار سے منفرد تھا۔

بھارت سے پاکستان کے سرائیکی وسیب میں داخل ہونے والے اس دریا کی کل لمبائی 1550 میل اور چوڑائی شروع میں بہت زیادہ تھی۔

1921ء میں ستلج کے پانی کو استعمال کرنے کے لئے نواب آف بہاولپور نے ریاست بیکانیر، اور پنجاب کے ساتھ ملکر ستلج ویلی پراجیکٹ کے نام سے منصوبہ شروع کیا جس کے تحت 4 ہیڈ ورکس اور 11 کینال بنائی گیئں جو کہ 1930 میں مکمل ہوئیں ۔ جس پر 32 کروڑ 31 لاکھ روپے کا خرچ ہوا جن سے 81 لاکھ 8 ہزار ایکڑ رقبہ سابق ریاست بہاولپور اور 22 لاکھ 83 ہزار ایکڑ انڈیا بشمول بیکانیر میں زیر کاشت آیا۔

1947ء میں آزاد مملکت پاکستان وجود میں آئی تو اس ملک نے نہایت بے سرو سامانی مگر عزم و استقلال سے اپنی حیات نو کا آغاز کیا۔  رفتہ رفتہ تمام کٹھن مسائل پر قابو پا لیا لیکن کشمیر کا مسئلہ اور پانی کا معاملہ ایک مستقل تنازعہ کی صورت میں باقی رہا۔

بھارت نے دوسری مشکلات پیدا کرنے کے علاوہ اپنے علاقہ میں ہیڈ ورکس کو بھی معاندانہ سرگرمیوں کا ذریعہ بنا دیا۔ دریائے ستلج کو ہندوستان نے اس مقصد کے لئے استعمال کیا۔

یکم جنوری 1948ء کو دیپالپور بمبانوالہ اور سنٹرل باری دو آبہ کا پانی اچانک بند کر دیا گیا ۔ پانی کی بندش پاکستان کے لئے موت و حیات کا مسئلہ بن گیا چنانچہ نہری پانی کے تنازع نے بین الاقوامی اہمیت حاصل کر لی۔

اس صورتحال کو 1951ء میں ٹیننی ویلی اتھارٹی کے چیئرمین ڈاکٹر ویوری لینتھا نے خوفناک قرار دے دیا جو کسی وقت بھی نہ صرف برصغیر بلکہ ایشیاء کے امن کو تباہ کر سکتا تھا۔

چنانچہ انہوں نے دونوں ممالک کی آبپاشی کا جائزہ لیا اور اس تنازعہ کو ختم کرانے کے لئے عالمی بنک کو اپنی سفارشات پیش کر دیں۔

عالمی بینک کے یوجین بلیک نے پاک و ہند کا دورہ کر کے اس اہم مسئلہ کو فنی پہلو سے حل کرنے کی کوشش کی ۔ بالآخر عالمی بینک کی وساطت سے پانی کا معاہدہ سندھ طاس کے نام سے دنیا کے سب سے بڑے پراجیکٹ کی صورت میں سامنے آیا۔

1960ء کو کراچی میں طویل مذاکرات کے بعد انقلابی حکومت نے سندھ طاس منصوبے کے آبی معاہدے پر دستخط کئے۔

اسی نہری پانی کے سمجھوتے پر پاکستان کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوا کیونکہ اس سے مستقبل کے ترقیاتی منصوبے بنانے میں جو غیر یقینی حالت پائی جاتی تھی وہ ختم ہو گئی۔

اس معاہدے کے تحت سندھ طاس کے چھ دریائوں میں تین مشرقی دریا راوی، ستلج اور بیاس کا پانی بھارت کے استعمال کے لئے اور تین مغربی دریائوں سندھ، جہلم اور چناب کا پانی پاکستان کے لئے متعین کر دیا گیا۔

ان چھن جانے والے دریاؤں کے رقبوں کو سیراب کرنے کےلئے850 میل متبادل رابطہ لینک کینالز بنائیں گئیں۔

اس مقصد کےلئے بلوکی سلیمانکی لنک کے ذریعے ہیڈ سلیمانکی کو فیڈ کیا گیا۔اور پی۔آئی۔لنک کے ذریعے ہیڈ اسلام کو فیڈ کیا گیا۔

بہاولپور ضلع کی زمینوں کےلئے سدھنائی ہیڈسے میلسی بہاول لنک کے ذریعے پانچ اضلاع کی 22 لاکھ ایکڑ زمینوں کو سیراب کرنے کا بندوبست کیا گیا ۔

اس لنک کینال کی خاص بات دریائے ستلج کے نیچے سے میلسی کے قریب سےگزاری گئی سائفن ہے جسکے ذریعے 5200 کیوسک پانی 1881 فٹ لمبی 50۔13فٹ× 50۔13 چوڑی 4 عدد بیرل کے ذریعے گزارا گیا ہے اور حال ہی میں ایک پانچویں بیرل بھی تعمیر کی گئی ہے جو کہ 1600 کیوسک کی ہے اس طرح اب کل کپیسٹی 6800 کیوسک ہو گئی ہے۔

1958ء میں عالمی بینک کی تجویز پر یہ منصوبہ مرتب کیا گیا۔ میلسی سائفن کی تعمیر آٹھ ممالک کے کنسورشیم نے کی جس میں قابل ذکر امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا، کینیڈا ۔ نیدرلینڈ ۔جرمنی اور ڈنمارک نے پاکستان کے ساتھ ملکر تعمیر کیا اور جولائی 1966 کو محکمہ انہار پنجاب کے سپرد کیا۔ اس پل سے دریا کے پانی کے اخراج کی گنجائش چار لاکھ انتیس ہزار کیوسک ہے۔

میلسی سائفن کو دریا کی سرکش لہروں اور طغیانی سے بچانے کے لئے سائفن کے بالائی حصہ کی جانب دائیں بائیں طرف مارجن بند تعمیر کئے گئے ہیں ۔

دایاں بند دس میل اور بایاں مارجن بند تیرہ میل لمبا ہے۔ سائفن کے ڈیزائن میں بہاولپور کے علاقہ کو آئندہ بہتر بنانے کی ضرورت کو پورا کرنے کے پیش نظر زیادہ بہائو گزارنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔

میلسی سائفن کی تعمیر سے قبل ستلج کا پانی تحصیل میلسی سے چھ میل چوڑے علاقے سے گزرتا تھا لیکن اب سولہ سو فٹ چوڑے ٹکڑے میں سائفن کے اوپر سے گزر رہا ہے۔

مشرقی دریائوں کا پانی مغربی دریائوں میں منتقل کرنے کے لئے سدھنائی میلسی لنک کینال تعمیر کی گئی ہے۔ یہ نہر میلسی سائفن تک 62 میل لمبی ہے ۔

اس نہر کے دہانے پر تیراہ ہزار کیوسک پانی کا نکاس ہوتا ہے اور نہر کے آخری سرے پر سات ہزار کیوسک پانی خارج ہوتا ہے کیونکہ اس رابطہ نہر میں پاکپتن کینال اور میلسی کینال کو پانی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ 22 چھوٹی نہریں اور مائنر بھی نکالے گئے ہیں۔

میلسی سائفن سے گزرنے کے بعد یہ نہر میلسی بہاول لنک کینال کہلاتی ہے جو خیر پور ٹامیوالی کے قریب بہاول کینال لویئرمیں مدغم ہوجاتی ہے۔ میلسی بہاول لنک کینال میں سات ہزار کیوسک پانی جاری ہونے کی گنجائش ہے۔

اس منصوبے کے مکمل ہونے سے خیر پور ٹامیوالی سابق ریاست بہاولپور کا درمیانی فاصلہ ایک سو میل سے کم ہوکر صرف بیس میل رہ گیا ہے۔

اپنی نوعیت کا یہ منفرد سائفن میلسی سے سات میل ،ملتان سے ستر میل ، لاہور سے ایک سو ستر میل اور خیر پور ٹامیوالی سے دس میل کے فاصلے پر واقع ہے۔

میلسی سائفن کی تعمیر کے دوران تحصیل میلسی کے چار ہزار سے زائد افراد تین سال تک بر سر روزگار رہے۔

یہ ان افراد کی تعداد ہے جو براہ راست اس منصوبے پر کام کرتے رہے جبکہ بالواسطہ طور پر جن ہزاروں افراد کو چھوٹا موٹا کاروبار کرنے کا موقع ملا وہ ان میں شامل نہیں ہیں۔

میلسی سائفن کی تعمیر کے دوران جو انتظامیہ کمیٹی تشکیل دی گئی تھی اس کے ایڈمنسٹریٹر میجر سی۔جے بگز ، اسسٹنٹ ایڈمنسٹریٹر میجر قمر الزمان ، ایجنٹ مسٹر جے او گریس ، ڈپٹی ایجنٹ مسٹر ایچ جے سیبر تھے۔

شعبے کی تقسیم میں آڈٹ اینڈ اکائونٹس برانچ کے نگران مسٹر آنسن ، آفس انجینئر کے نگران مسٹر سی، ٹی ووٹ ، ڈرائنگ ایڈ ڈیزائن سیکشن کے نگران مسٹر کوسٹ لاری سن، مکینیکل سیکشن کے نگران مسٹر گنبر ، سائفن سائٹ انچارج پور کنشن ، چیف انجینئر واپڈا مسٹر یعموس تھے۔

1961سے قبل کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ میلسی کے قریب دریائے ستلج کا ریتلا علاقہ ایک بہت بڑے سائفن کا روپ دھار لے گا اور یہ گمنام مقام بین الاقوامی شہرت حاصل کرلے گا۔

عرصہ چار سال کے دوران دریائے ستلج پر دنیا کا عظیم ترین سائفن تعمیر ہوگیا جو جدید ٹیکنالوجی و تعمیرات کا عالی شان نمونہ ہے۔

دنیا کے سب سے بڑے پراجیکٹ کو دیکھنے کے لئے ملکی و غیر ملکی سیاح یہاں آتے ہیں لیکن یہ امر باعث افسوس ہے کہ سیاحوں کے آرام اور دلچسپی کو برقرار رکھنے کے لئے کوئی انتظام نہیں کیا گیا۔

یہاں تک کہ سیاحوں کے بیٹھنے کا بھی کوئی انتظام نہیں۔ یہاں کے عوامی حلقے اور سیر و تفریح میں دلچسپی رکھنے والے حضرات مختلف اوقات میں مطالبہ کرتے رہتے ہیں کہ یہاں پبلک پارک تعمیر کیا جائے۔

ضلع وہاڑی کے ایک سابق باذوق ڈپٹی کمشنر نے اس مطالبہ کی اہمیت کے پیش نظر ایک قطعہ اراضی پبلک پارک کے لئے منصوبہ بنایا تھا لیکن ان کے تبادلے کے ساتھ ہی یہ منصوبہ دریائے ستلج میں ڈوب گیا۔

تاہم سابق رکن قومی اسمبلی سعید احمد خان منیس نے میلسی سائفن کے قریب ایک پارک بنوایا جو سیاحوں کے لئے تفریح طبع کا باعث بناہوا ہے سیاحوں کا کہنا ہے ضلع کونسل پارک کی نگہبانی اور تزین وآرائش کے لئے عملہ تعینات کیا جائے۔

%d bloggers like this: