مارچ 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پِنیاتا "یا "پِنجاتا ” ساؤتھ کیلی فورنیا کی ایک قدیم رسم۔ایک تاثُر

گُل زیب خاکوانی


سرائیکی زُبان و تہذیب  میں ایک لفظ استعمال ہوتا ہے "پِنجنڑ” یا ” پِنجڑاں” جو ہردو معانوں میں ایک ہی عمل  کو  ظاہر کرتا ہے جسے اردو میں بیحد پیٹنا  یا مارنا کہتے ہیں ۔ساؤتھ کیلیفورنیا کی مذکورہ بالا رسم "پِنیایا”بھی صفاتی معانوں میں سرایئکی  الفاظ "پِنجنڑ ” یا ” پِنجڑاں ” کے بہت قریں ہی نہیں بلکہ حیرت انگزیز حد تک  مماثل ہے ۔

پِنیاتا کی تاریخ میں جھانکتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ جب بھی بہار کی آمد پر کاشت کاری کا آغاز ہوتا  تب سبھی کسان مل کر آسمانی  بلاؤں  شیطانوں اور فصلوں کو نقصان پُہنچانے والی آفتوں کو دور بھگانے کے لیے ایک چمڑے کے تھیلے میں اپنے اعتقادات کے مطابق تمام نحوستوں کو بند کرکے اُنہیں   مظبوطی سے سی لیتے تھے اور اُس بند تھیلے کو اردگرد رسیوں سے باندھ لیا جاتا  اور پھر لکڑی کے ایک بہت موٹے ڈنڈے سے اُسے پیٹا جاتا یا پِنجا جاتا۔اور اس کارِ خیرمیں سب کسان شامل ہوکراپنا حصہ بقدرِ جُثہ   لیتے ۔جب تک یہ تھیلا پھٹ نا جاتا ۔اور کسی سوغات کی شکل میں کوئی مُثبت نشانی ناں حاصل کرلیتے تب تک یہ مٹی میں بیج ناں بوتے تھے۔اور عام طور پر یہ سوغات کسی اناج کے بیج کی شکل میں ہی ظاہر ہوتی تھی۔ ۔اور چمڑے کا تھیلہ پھٹ جانے کے بعد یہ ظاہر ہوتی تو یہ اپنے آقاؤں کی خوشنودی خیال کرتے تھے۔اور اسے خوشحالی کا استعارہ تصور کرتے تھے ۔اور خوب فصل اُگاتے ۔مگر جہاں تک اُس سوغات کے ظاہر ہونے کا تعلق ہے  وہ یا اُن کے دیوتا یا علاقے کے سردار خود جان بوجھ کر تھیلے میں چُھپا دیتے تھے یا کوئی جادو کرتے تھے ،اسکے بارے میں کوئی تحقیق سامنے نہیں آئی اور ناں ہی یہ ہمارے موضوع کا حصہ ہے ۔البتہ  آج کے میکسیکو میں رسومات اور تہذیب کا تعلق  پندرہ سو انیس عیسوی کے ہسپانوی حملے کے بعد  سے ہے ۔جبکہ مایان اور ازٹیک تہذیبوں کے نشانات انکے پُرانے کھنڈروں یا  قدیم عمارتی باقیات کی حد تک تو موجود ہیں مگر آج بود باش اور ثقافت میں اُسکے اثرات مکمل طور پر ناپید ہیں ۔مثلا پنیاتا کی اس قدیم رسم کو ہی لے لیجیے۔جوکہ ازٹیک عہد کی ایک بازگشت تو معلوم ہوتی ہے مگر اسکے نقوش پر ہسپانوی کالونی کے اثرات نمایاں ہیں ۔جبکہ ازٹیک تاریخ کے جھرنکوں سے جھانکیں تو یہی رسم انسانی قربانی  سے دی جاتی تھی۔چونکہ گندم ازٹیک دیوتاوں کے نزدیک ایک مقدس فصل تصور کی جاتی تھی تاہم جب بھی اس فصل اُگانے کا وقت آتا تو خوشحالی کے دیوتاوں کو خوش کرنے کے لیے اور شیطانی بالاوں کو دور بھگانے کے لیے ایک دوشیزہ کو قتل کرکے قربانی پیش کی جاتی تھی ۔اُن کے نزدیک سالانہ بنیادوں پر اس عظیم فصل کی اُگائی کے آغاز پر اس سے بہتر اور کوئی قربانی نہیں ہوسکتی تھی۔یہاں تک کہ حکمران دیوتا اپنا خون بھی دیوتاوں کو ارپن کرتے تھے۔

مگر یہی رسم بعد میں چمڑے کے تھیلے کو پیٹ کر نبھائی جاتی رہی ۔اس رسم کا ایک اور تاریخی حوالہ بھی مشہور ہے کہ ازٹیک کے نجات دہندہ ووہتشیلو پوشتیلی کے جنم دن پر بھی منائی جاتی تھی۔اور آج کے موجودہ دور میں اس رسم کے خال و خط مکمل طور پربدل چُکے ہیں ۔اور نئے خطوط میں جب بھی کسی بچے کی سالگرہ منائی جاتی ہے ۔تو ایک بہت بڑی تقریب کا  انعقاد ہوتا ہے اور بچے کے پسندیدہ کارٹون کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک گتے کا ایک پُتلا بنایا جاتا ہے ۔جسکا بیرونی حصہ قدرے فربہ ہوتا ہے اور اُسے کاغظ کی رنگین پنیوں سے سجایا جاتا ہے اوراُسے مذکورہ کارٹون کی شکل  دی جاتی ہے  جبکہ اندرونی حصے میں طرح طرح کی کھٹی میٹھی ٹافیوں اور چاکلیٹ سے بھر دیا جاتا ہے ۔اور تقریب میں لا کر اسکے اردگرد رسیاں باندھ کر لٹکا دیا جاتا ہے ۔اور صاحب تقریب اُس بچے کو ایک لاٹھی دی جاتی ہے کہ وہ پہل کرے اور بڑے زور سے اُس کارٹونی پُتلے کو پیٹے۔اور پھر بعد ازاں تقریب میں شامل سبھی بچوں کے ہاتھوں میں ڈنڈے تھما دیے جاتے ہیں اور سب زور زور سے پیٹنے لگتے ہیں ۔یہاں تک کہ وہ جگہ جگہ اطرف سے پھٹ جاتا ہے ۔اور تمام بچے گرتی ہوئی ٹافیوں کو جلدی جلدی چُننا شروع کردیتے ہیں ۔اسی دوران تمام  بچوں کے والدین اپنے بچوں کو شہ دے رہے ہوتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ اکٹھی کرو۔۔۔جو بچہ زیادہ مستعدی سے زیادہ ٹافیاں اکٹھی کرلیتا ہے تو تصور کیا جاتا ہے کہ یہ بچہ کافی ہوشیار ہے اور بڑا ہوکر خوب کماو پوت ثابت ہوگا۔۔کامیاب ہونے والے بچوں کے لیے انکے والدین مقامی تعریفی کلامات میں بڑے فخریہ انداز میں براوہ۔۔”براوہ”  براوہ    ” پُکار رہے ہوتے ہیں جو انگلش لفظ برئیو۔۔سے نکلا ہے جسکے معانی ہیں بہادر۔

اس رسم کی ادایئگی کے لیے ضروری نہیں ہوتا ہے کہ فقظ صاحب ثروت ہی ادا کرسکتے ہیں بلکہ ہر طبقہ اپنی مالی استعاعت کے مطابق باآسانی اس رسم کو ادا کرسکتا ہے ۔

کافی عرصہ پہلے گتے کے یہ فربہ پُتلے ہر شکل میں دستیات ہوتے تھے،جو سب سے زیادہ مقبول ہوئے وہ جو دل کی شکل میں بنائےجاتے یا جانوروں کی شکلوں میں ۔

پر آج پسندیدہ کارٹونز کی شکل میں بنائے جاتے ہیں ۔گو کہ وقت بدل چُکا ہے ۔انکے خال و خط بھی مکمل طور پر بدل چکے ہیں مگر خوشی کے اس استعارے کے بین بین خونخار ماضی مکمل طور پر دُھندلا چُکا ہے ۔

اس رسم سے متعلق ایک اور حوالہ بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔تاریخ دانوں کے مطابق یہ رسم اور اسکا نام پنیاتا چودویں صدی عیسوی  میں یورپی علاقے اٹلی سے سفر کرتی ہوئی میکسکیو پُہنچی ۔اور اٹلی میں کسانوں کے تہواروں میں اس رسم کو "پگناٹا  کہا جاتا تھا۔اور چمڑے کے تھیلے کے جبائے مٹی کی ہانڈی  یا گولک نما پاٹری کے اندر کھانے پینے کی اشیا کو رکھ دیا جاتا اور کسان اسے پھوڑ کر فصلوں کا آغاز کرتے تھے۔ٹھیک اسی انداز کی رسم آج بھی انڈیا میں موجود ہے جسے  ہندو بھگوان کرشنا کے حوالے سے دہی ہانڈی کا تہوار کہا جاتا ہے ۔

اور تقسیم ہند سے پہلے ہندو اکثریتی سرایئکی علاقوں میں بھی صدیوں سے یہ تہوار رائج رہا ہے ۔۔حالات و واقعات جو بھی ہوں مگر مجھے پنیاتا میں پنجاتا یا پنججاڑاں کا تاثر ملا ہوسکتا ہے کہ درست ہو ۔مگر یہ حقیقت ہے کہ ایک جگہ سے اُٹھ کر دوسری جگہ ہجرت کرنے والا ہجرتی اکیلا نہیں ہوتا۔تاریخ قدیم رسمومات۔تہذیب، زُبان اور ثقافت اُسکے ساتھ ساتھ رہتے ہیں ۔

%d bloggers like this: