نازیہ حسن خان
روز مرہ زندگی میں ہمارا واسطہ بہت ساری ایسی بیرونی چیزوں سے پڑتا ہے ( جو کہ کیمیائی اعتبار سے پروٹین ہوتی ہیں ) جن کے مضر اثرات سے بچاؤ کیلئے ہمارا مدافعتی نظام فورا کام شروع کر دیتا ہے۔ لیکن اگر کسی وجہ سے مدافعتی نظام کمزور پڑ جائے تو مضر چیز کے ساتھ غیر مضر چیزیں بھی ہمارے جسم میں ایک ردعمل پیدا کرتی ہیں جو مختلف علامات کی شکل میں ظاہر ہوتی ہیں۔ ایسی چیزوں کو الرجی کہا جاتا ہے۔الرجی کی مختلف اقسام ہیں جیسے سانس کی الرجی، ناک کی الرجی، آنکھوں کی الرجی، خوراک کی الرجی وغیرہ وغیرہ۔
بہار کے موسم میں پھولوں کے ذرات جنھیں ہم زردانے بھی کہتے ہیں ہوا میں بہت زیادہ مقدار میں موجود ہوتے ہیں۔ یہ زردانے بہت چھوٹے ہوتے ہیں اور انھیں صرف مائیکروسکوپ کی مدد سے ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ زردانے جب حساس لوگوں کے جسم میں داخل ہوتے ہیں تو یہ جسم میں مختلف علامات پیدا کرتے ہیں۔ اسے پولن الرجی کہتے ہیں ۔ سادہ قسم کے پودوں جیسے جھاڑیوں ، گھاس، درخت وغیرہ کے زردانے الرجی کا سبب بنتے ہیں۔ زردانے ہوا، پانی، کیڑے مکوڑوں یا جانوروں کے بالوں مین پھنسے ہونے کی وجہ سے پھیل سکتے ہیں ۔
پولن کی مقدار گرم اور خشک دنوں میں زیادہ ہوتی ہے جبکہ نمی والے دن انکی مقدار کم ہوتی ہے۔ اسکے علاوہ پولن صبح پانچ بجے سے دس بجے تک بہت زیادہ مقدار میں زمینی سطح پر ہوتا ہے اسی طرح شام پانچ بجے سے آدھی رات تک پولن کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔
پولن الرجی کا موسم عموماً فروری کے آخری ہفتے سے شروع ہوکر مئی کے پہلے ہفتے تک رہتا ہے۔ ان دنوں میں چونکہ درختوں اور پودوں پر پھول لگ رہے ہوتے ہیں اس وجہ سے ہوا میں زردانے کی تعداد زیادہ ہو جاتی ہے جس کے باعث ہسپتالوں میں پولن کےمریضوں کا رش بڑھ جاتا ہے۔
کچھ لوگوں کو گندہ وغیرہ کی کٹائی یعنی تھریشر کے موسم مثلا جون، جولائی میں الرجی کی شکایت ہوتی ہے اور کچھ کو برسات کے موسم یعنی جولائی تا ستمبر جبکہ کچھ لوگوں کو سردیوں میں جب روئی کی فصل اتاری جاتی ہے تو الرجی کا مسئلہ شروع ہو جاتا ہے۔
ایک تحقیق کے مطابق پولن الرجی موروثیت کو بھی ظاہر کرتی ہےیعنی اگر کسی شخص کے دونوں والدین الرجی کے مریض ہیں تو اس شخص میں الرجی ہونے کے امکانات پچاس سے پچپن فیصد ہوتے ہیں ۔
الرجی ویکسین کا کورس تین سے پانچ سال تک کے لئے ہوتا ہے،قومی ادارہ صحت
اسلام آباد کی فضاؤں میں موسم بہار میں جنگلی درختوں اور جڑی بوٹیوں سے بے شمار پولن کا اخراج الرجی کا باعث بنتا ہے۔ قومی ادارہ صحت کی تحقیق کے مطابق جنگلی شہتوت، عام گھاس، سفیدہ، سنتھا اور گلاب کے پودے بہار میں پولن الرجی کا باعث بنتے ہیں ۔
پولن کے موسم میں الرجی کے مریض کو مندرجہ ذیل احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہیے۔
بلا وجہ باغات، جنگلات یا زیادہ درختوں والی جگہ پر جانے سے پرہیز کریں۔
گھر میں غیر ضروری پودے نہ لگائیں خاص طور پر سفیدہ، جنگلی شہتوت ، سنتھا کی باڑ نہ اگائیں۔
پولن کے موسم میں گھر کی کھڑکیاں بند رکھیں۔
فلٹر ماسک کا استعمال کریں جو دھواں، دھول اور گیس سے بچائے۔
سفر کے دوران گاڑی کے شیشے بند رکھیں۔
الرجی کے مریض پالتو جانوروں مثلا بلی، کتا، خرگوش اور پرندوں وغیرہ کے قریب جانے جائیں۔
پولن کے موسم میں چشمہ استعمال کریں اور کانٹیکٹ لینز سے اجتناب کریں کیونکہ پولن کے ذرات لینز کے نیچے پھنس کر الرجی یا انفیکشن کا باعث بن سکتے ہیں۔
گھر میں قالین کم سے کم بچھائیں۔
پروں یا فر والے تکیے اور غلاف استعمال نہ کریں۔
الرجی سے بچاؤ کے لئے ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق مخصوص ٹیسٹ کے بعد ویکسین لگوائیں۔
الرجی جانچنے کے لئے جلد کا ٹیسٹ کیا جاتا ہے جسے سکن پرک ٹیسٹ کہتے ہیں۔اس میں ڈاکٹر جلد پر دوائی ڈال کر پرک کرتا ہے اور پندرہ سے بیس منٹ بعد نتیجہ دیکھتا ہے۔ جو جلد پر سرخی، ابھار یا خارش کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔اسکے علاوہ ڈاکٹر اپنی جانچ کے لئے دیگر ٹیسٹ بھی کروا سکتا ہے۔
قومی ادارہ صحت سرکاری سطح پر الرجی کے علاج اور کنٹرول کا واحد ادارہ ہے ۔ یہ ادارہ نہ صرف الرجی ٹیسٹ کرنے والی دوائی بلکہ ویکسین بھی خود بناتا ہے۔ یہ پاکستان کا واحد سرکاری مرکز ہے جو روزانہ تین سو سے چار سو تک الرجی کے مریضوں کا علاج کرتا ہے۔
الرجی ویکسین کا کورس تین سے پانچ سال تک کے لئے ہوتا ہے۔ یہ کورس ہمارے جسم میں الرجی کا باعث بننے والے امینو گلوبولن کو کم کرتا ہے جس سے مرض کی شدت میں کمی آجاتی ہے۔
قومی ادارہ صحت کے مطابق ویکسین لگانےسے پہلے ضروری ہے کہ آپکا ڈاکٹر آپکو الرجی ویکسین کے لئے ریفر کرے۔ آپکی عمر10 سے 55 سال کے درمیان ہو، آپ کسی موذی مرض ( دل، جگر، گردے، جوڑوں، گلہڑ کی بیماری یا کینسر) میں مبتلا نہ ہوں۔ الرجی ٹیسٹ سے کم از کم تین دن پہلے آپ نے اینٹی الرجی ادویات استعمال نہ کی ہوں ۔
نوٹ: ادارے کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے
اے وی پڑھو
صحت عامہ سے متعلقہ کمانڈ، کنٹرول، اور کمیونیکیشن کی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کے لئے قومی ادارہ صحت میں ورکشاپ
راجہ گدھ کا تانیثی تناظر! چودہویں قسط||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
نیلے والی تیری، پیلے والی میری!||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی