دنیا میں متعدد ملحد ریاستیں تھیں لیکن الحاد آباد دنیا کی پہلی حقیقی نظریاتی ملحد ریاست تھی۔ اس کے بانی قائد اکبر کا تعلق آل ایشیا ملحد لیگ سے تھا۔ ان کے انتقال کے بعد ملحد لیگ کے بے شمار ٹکڑے ہوگئے اور ہر رہنما اپنی لیگ بناکر میدان میں اتر آیا۔ کوئی ملحد لیگ ٹے تھی اور کوئی ملحد لیگ عین غین۔ ایک ملحد لیگ چھوٹی یے تھی اور ایک ملحد لیگ بڑی یے۔ حد یہ کہ ایک ملحد لیگ چ بھی تھی۔ سب سے زیادہ رہنما اسی میں تھے۔
قیام الحادآباد کے بعد بہت سی دوسری سیاسی جماعتیں بھی قائم کی گئیں۔ حیرت انگیز طور پر ان میں کئی سیکولر جماعتیں بھی تھیں حالانکہ نیا ملک الحاد کے نام پر حاصل کیا گیا تھا۔ یہ جماعتیں اصرار کرتی تھیں کہ کسی کے ملحد یا مذہبی ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور ملک کا آئین سیکولر ہونا چاہیے۔ عوام انھیں بڑی تعداد میں ووٹ دیتے تھے لیکن بظاہر ایسا لگتا تھا کہ ان کے خیالات سے اتفاق نہیں کرتے تھے۔
شدت پسند نظریات رکھنے والے علمائے الحاد نے بھی کئی سیاسی جماعتیں قائم کیں جن میں جماعت الحادی، جمعیت علمائے الحاد اور سپاہ الحادیہ قابل ذکر تھیں۔ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ ایسی جماعتوں کے وجود کی کوئی خاص ضرورت نہیں تھی کیونکہ ریاست میں آئینی طور پر تشکیل کردہ الحادی نظریاتی کونسل پہلے سے موجود تھی۔ اس کا کام ریاست میں بننے والے ہر قانون کا جائزہ لینا تھا کہ کہیں اس میں کوئی نکتہ الحاد سے متصادم تو نہیں۔
سیاسی جماعتیں بنیں تو ان کے زیر اثر طلبہ تنظیمیں بھی قائم کی گئیں۔ ایک تنظیم کا نام الحادی جمعیت طلبہ رکھا گیا۔ دوسری کا نام انجمن طلبائے الحاد تھا۔ ملحد اسٹوڈنٹس فیڈریشن پہلے سے موجود تھی۔
سیاسی جماعتوں کو اپنے نظریات کے پرچار کے لیے ذرائع ابلاغ کی ضرورت ہوتی ہے۔ چنانچہ جماعت الحادی نے اپنا اخبار روزنامہ حماقت جاری کیا۔ یہ اخبار فوراً مقبول ہوگیا کیونکہ عوام کا اس بات پر اتفاق رائے تھا کہ ملحد ریاست میں ملحد سیاسی جماعت قائم کرکے ملحد نظریے کا اخبار چھاپنا بہترین حماقت ہے۔
الحادآباد کے علما آئے دن تقریریں کرتے اور میڈیا کو انٹرویو دیتے۔ ان کی ہر تقریر اور ہر انٹرویو کا مرکزی خیال ایک ہی ہوتا یعنی ’’الحاد خطرے میں ہے۔‘‘ وہ عوام کو بتاتے کہ پوری دنیا مذہبی لوگوں سے بھری پڑی ہے جو دن رات الحادآباد کے خلاف سازش کرتے رہتے ہیں۔ ان سازشوں کا قلع قمع کرنے کے لیے الحادی جماعتوں کو زیادہ سے زیادہ ووٹ اور الحادی افواج کو زیادہ سے زیادہ دفاعی بجٹ دینا چاہیے۔
دنیا میں جتنے بھی ملحد ممالک تھے، انھوں نے اپنی فلاح اور امن سے بے نیاز ہوکر ایک تنظیم آرگنائزیشن آف الحادی کنٹریز قائم کی تھی۔ ان میں کسی اور کے پاس الحادی ایٹم بم نہیں تھا، اسی لیے الحاداآباد کے رہنما اپنے ملک کو الحاد کا قلعہ قرار دیتے تھے۔
الحادآباد کا ایک ہمسایہ الحادستان قبائلی معاشرے کا حامل تھا۔ خانہ جنگی اس کا قومی کھیل تھا۔ الحادآباد کے شہری الحادستان کو انتہائی سخت گیر نظریات کا ہونے کی وجہ سے اچھے ملحد نہیں سمجھتے تھے۔
یہی معاملہ الحادی جمہوریہ ملحدان کا تھا۔ وہاں ملحدوں کی آبادی تو تھی لیکن ان کے نظریات الحادآباد کے عوام سے الگ تھے۔ بنیادی اختلاف ملحدان کے نعرے پر ’’ایشیا سرخ ہے‘‘ پر تھا۔ الحادآباد کے لوگ ایشیا کو گرے دیکھنا چاہتے تھے کیونکہ ان کے ملک کا نام ہر گرے لسٹ میں پایا جاتا تھا۔
الحادآباد اگر کسی ملحد ملک سے سچا پیار تھا تو وہ’’ملحدی عرب‘‘ تھا۔ اس کا ایک سبب وہ رقوم تھیں جو باقاعدگی سے الحادآباد کی لیبارٹریوں کو موصول ہوتی رہتی تھیں۔ ہم پچھلے باب میں پڑھ آئے ہیں کہ ان لیبارٹریوں میں کیمیاوی اور طبیعاتی تجربات کرکے لڑکوں کو پکا ملحد اور سچا الحادآبادی بنایا جاتا تھا۔ ایسے لڑکے بعض اوقات مخالف نظریات رکھنے والوں کی لائبریریوں اور لیبارٹریوں میں پھٹ کر اپنا اور ملک کا نام روشن کرتے تھے۔
الحادآباد کی گہری دوستی ایک ہمسایہ ملک مذہبی جمہوریہ دین سے تھی۔ ظاہر ہے کہ اس کا نام ہی دین تھا۔ لیکن الحادآباد کو اس کے مذہبی ہونے سے کوئی غرض نہ تھی۔ اس کے رہنما بار بار کہتے کہ الحادآباد اور دین کی دوستی جھوٹ کے پہاڑ سے زیادہ بلند، خفیہ ایجنسیوں کی سازشوں سے زیادہ گہری اور گنڈاپوری شہد سے زیادہ میٹھی ہے۔
مذہبی جمہوریہ دین میں ون پارٹی سسٹم تھا جس کا مطلب تھا کہ وہاں ہر شخص کے پاس گرجا پارٹی میں شمولیت کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ وہاں سرکاری طور پر کوئی شہری ملحد نہیں ہوسکتا تھا۔ الحادآباد کی سرحد کے ساتھ واقع صوبے میں لاکھوں ملحد موجود تھے لیکن انھیں سرکاری پالیسی کے مطابق چلنا پڑتا۔ حکومت کو ان پر شک ہوا تو لاکھوں افراد کی برین واشنگ کے لیے انھیں کیمپوں میں قید کرلیا گیا جہاں انھیں اچھا مذہبی بنانے کی جدوجہد کی جانے لگی۔
الحادآباد کے رہنماؤں کو پوری دنیا میں الحاد پھیلانے کی فکر رہتی تھی۔ اس کے وزیراعظم اپنے ملک کو ریاست دہریہ بنانا چاہتے تھے۔ لیکن جب بھی ان سے مذہبی جمہوریہ دین میں ملحدوں پر ظلم و ستم کی بات کرتے، وہ یہ کہہ کر ٹال دیتے کہ انھیں اس بارے میں کوئی معلومات نہیں۔ حیرت انگیز طور پر ملک کی تمام الحادی جماعتیں بھی اس بارے میں خاموش رہیں۔
الحادآباد کے رہنماؤں کو پوری دنیا میں الحاد پھیلانے کی فکر رہتی تھی۔ اس کے وزیراعظم اپنے ملک کو ریاست دہریہ بنانا چاہتے تھے
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر