رؤف کلاسرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یاد پڑتا ہے کہ چند برس قبل ایک گورے صحافی سے کسی کیفے پر اتفاقاً ملاقات ہو گئی۔ ہم ایک دوسرے کو ٹویٹر پر فالو کر رہے تھے‘ لہٰذا پہچان لیا اور ہیلو ہائے کے بعد کچھ دیر اکٹھے بیٹھ گئے۔ میں نے پوچھا: آپ کا پاکستان میں دل لگ جاتا ہے؟ ایک ترقی یافتہ ملک سے پاکستان میں آ کر تین‘ چار سال تک رہنا ایک مشکل کام ہو گا‘ خصوصاً جو حالات ہیں‘ غیرملکیوں کو تو زیادہ خطرہ محسوس ہوتا ہے۔ انگریز بندہ تو خود کو چھپا بھی نہیں سکتا کہ رنگت اور شکل کی وجہ سے دور سے پہچان لیا جاتا ہے اور اوپر سے ہم دیسی لوگ ویسے بھی ہر خاتون یا فارنر کو گھورنا اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں۔ میرے آخری جملے پر اس نے قہقہہ مارا اور بولا: لیکن آپ کے لوگ بہت اچھے ہیں‘ بڑے مہمان نواز اور محبت دکھانے والے ہیں۔ مجھے کبھی کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔ یہ لوگ غیرملکیوں کے ساتھ بہت اچھی طرح پیش آتے ہیں۔ ان کے آپس میں کچھ بھی ایشوز ہوں لیکن اگر کوئی فارنر ہو گا تو اسے عزت و احترام دیں گے۔ پاکستانی لوگوں کے بارے میں اس کی مثبت رائے سن کر اچھا لگا۔ وہ کہنے لگا: باقی جہاں تک بات ہے اپنا ملک چھوڑ کر پاکستان آنا تو اس میں دو‘ تین عوامل ہیں۔ ایک تو ہم یورپین ایڈونچر اور ٹریولنگ مزاج کے ہوتے ہیں۔ مسکرا کر بولا: اگر یہ مزاج نہ ہوتا تو گورے پوری دنیا کو نہ کھوج پاتے اور آج کا ہندوستان‘ پاکستان بھی شاید اس حالت میں نہ ہوتا۔ آپ کے لوگ باہر جاتے گھبراتے ہیں لیکن یورپین ڈی این اے مختلف ہے۔ ہم لوگ سارا سال پیسے بچاتے ہیں تاکہ ایک ماہ چھٹی کر کے کسی دوسرے ملک کا سفر کریں اور کچھ دن سٹریس دور کریں۔ لہٰذا ایک تو یہ ہمارا مزاج ہے۔ دوسرا‘ اس خطے سے ہمارا ایک پرانا تعلق ہے۔ آپ پسند کریں یا نہ کریں‘ ہندوستان جہاں ہمارے بزرگوں کیلئے سونے کی چڑیا تھا‘ وہیں ہمارے لیے یہ پُراسرار ریجن ہے۔ یہاں اتنی diversity ہے کہ دنیا کے کسی اور خطے میں شاید ہی ملے۔اس خطے سے ہمیشہ ایک پُراسرار رومانس رہا ہے۔ اس لیے جب انگریز افسران وغیرہ ہندوستان میں سروس کے دوران لندن میں اپنے گھر والوں کو خط لکھتے تھے تو وہ خطوط اگر کسی اخبار میں چھپتے تھے تو لوگ اس دلچسپی سے پڑھتے تھے کہ آپ کی سوچ ہے۔ پھر وہ مجھے مختلف کتابوں کے بارے بتانے لگا جو ہندوستان سے لکھے گئے خطوط کی بنیاد پر لکھی گئی تھیں اور جو آج بھی یورپ میں بڑی دلچسپی کے ساتھ پڑھی جاتی ہیں۔ وہ بتانے لگا کہ آج بھی لندن کے کتب خانوں یا بک سٹورز پر سب سے زیادہ کتابیں آپ کو پاکستان اور افغانستان بارے ملیں گی۔ اکثر کتابیں ان گورے صحافیوں کی لکھی ہوئی ہیں جو پاکستان یا افغانستان میں رپورٹنگ کرتے رہے۔ ان صحافیوں نے واپس جا کر بیسٹ سیلر کتابیں لکھیں اور لاکھوں پائونڈز کمائے۔
میری آنکھوں میں سوال دیکھ کر وہ بولا: آپکے ملک میں اتنی خبریں اور سکوپ ہیں کہ جو دنیا کے کسی اور خطے میں نہیں ملتے۔ آپکے ہمسائے میں افغانستان ہے‘ جہاں پہلے سوویت یونین‘ پھر خانہ جنگی اور اب امریکی اور یورپی جنگ چل رہی ہے اور پاکستان ان سب کا مرکز ہے۔ ہمیں یہاں سے برطانیہ‘ نیٹو‘ یورپ‘ امریکہ اور افغانستان کی سب خبریں ایک ساتھ مل جاتی ہیں جو ہمارے میڈیا گروپس کیلئے ہاٹ کیک ہوتی ہیں۔ میں نے کہا: وہ سب تو ٹھیک ہے لیکن آپ کے سورسز اتنی جلدی کیسے بن جاتے ہیں؟ ہمیں تو پاکستان میں رہ کر سورس بنانے میں کافی وقت لگ جاتا ہے۔ وہ مسکرایا اور شرارتی مسکراہٹ کیساتھ بولا: آپ دیسی لوگ کیا کہتے ہیں‘ ہم گورے کیا ہیں؟ میں نے کچھ دیر سوچا اور اچانک میرے ذہن میں آیا کہ وہ کیا کہنا چاہتا ہے۔ میں بولا ”گوری چمڑی‘‘۔ اس نے بڑا قہقہہ لگایا اور بولا: Exactly۔اس نے کہا کہ ہمیں بہت جلد آپ کے سب لوگوں تک رسائی مل جاتی ہے اور خاصی عزت و احترام دیا جاتا ہے۔ بعض بڑے لوگ تو گھر بلا کر ملتے ہیں۔ لیٹ نائٹ پارٹیاں بھی چلتی ہیں‘ جہاں سب بڑے لوگ ہوتے ہیں اور تعارف ہو جاتا ہے۔ اس دوران وہ بہت کچھ بول جاتے ہیں۔ وہ اپنے تئیں ہمیں اپنی انگریزی سے متاثر کرتے ہیں۔ پھر انہیں یہ خطرہ نہیں ہوتا کہ میں ان کی بات کسی کو بتائوں گا۔ آف دی ریکارڈ وہ بہت کچھ بتاتے ہیں کہ کیا چل رہا ہے۔ کچھ ایسے ہوتے ہیں جو ہمارے ذریعے ویسٹرن ممالک کو کوئی میسج‘ اخباری خبر کے ذریعے بھیجنا چاہتے ہیں۔ ان کا خیال ہوتا ہے کہ مغربی اخبار میں خبر چھپنے سے وہاں کی حکومتوں پر وہ دبائو بڑھا سکتے ہیں۔ دبائو بڑھے یا نہ بڑھے لیکن ان کا مؤقف وہاں کے پالیسی میکرز یا حکمرانوں تک ضرور پہنچ جائے گا یا کم از کم مغربی عوام تک ان کی بات پہنچ جائے تاکہ انہیں علم ہو کہ ان کی حکومتیں اس خطے میں کیا کر رہی ہیں۔ اس طرح بہت سارے سویلین اور عسکری حکام سے ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں۔ وہ بھی اپنی پوزیشن بتاتے رہتے ہیں۔ پھر کچھ صحافی بھی ہمارے ساتھ ہوتے ہیں۔ ان سے پاکستانی سیاست بارے علم ہوتا رہتا ہے۔ میں نے پوچھا: واپس جا کر آپ بھی کتاب لکھیں گے؟ کہنے لگا: بالکل! میرے نوٹس تیار ہیں‘ پبلشرز تو پہلے سے تیار بیٹھے ہیں۔ وہ تو ابھی سے مجھ سے مسودہ مانگ رہے ہیں۔ ایسی کتابیں تو وہاں ہاتھوں ہاتھ لی جاتی ہیں۔ پھر بولا: ایک بات بتائوں! پاکستان میں گوروں کی پاکستان پر لکھی کتابیں زیادہ بکتی ہیں اور پڑھی بھی جاتی ہیں۔ آپکے لوگ اپنے صحافیوں سے زیادہ فارنرز کی لکھی کتابوں پر اعتماد کرتے ہیں۔ یہاں اسلام آباد کے بک سٹورز پر غیرملکی لکھاریوں اور صحافیوں کی کتابیں زیادہ بکتی ہیں۔
میں نے پوچھا: آپ نے کتنے صحافیوں کی پاکستانی سیاست یا افغانستان پر کتابیں پڑھی ہیں؟ اگرچہ ہمارے صحافی کتابیں نہ پڑھتے ہیں نہ لکھتے ہیں‘ لیکن اگر کوئی آپ جیسا صحافی یا برطانیہ‘ امریکہ کا اخبار کوئی خبر یا سکینڈل بریک کرے تو پھر ہم سب بہت شیر ہو جاتے ہیں اور فرنٹ پیج سٹوریز چلاتے ہیں۔ میں نے بتایا: چند صحافی ضرور ہیں جنہوں نے انگریزی میں اچھے موضوعات پر کتابیں لکھی ہیں۔ اس نے پوچھا: کون کون؟ میں نے بتایا: نسیم زہرہ‘ ملیحہ لودھی‘ زاہد حسین‘ امتیاز گل‘ عامر میر‘ اعزاز سید‘ احمد رشید (سلمان مسعود کی کتاب اس وقت تک نہیں چھپی تھی)۔ بولا: میں ضرور خریدوں گا۔ پھر پوچھنے لگا: پاکستان پر کس نے کتابیں لکھی ہیں؟ میں نے کہا: انگریزی میں سرتاج عزیز کی Dreams & Realities بہت کمال کتاب ہے۔ اسی طرح سابق فارن سیکرٹری اعزاز چودھری نے بھی جو خودنوشت لکھی‘ بہت اعلیٰ ہے۔ کہنے لگا: آپ کا ملک بہت زبردست ہے لیکن آپ پھنس گئے ہیں۔ آپکے پالیسی میکرز اور کرتا دھرتائوں نے آپ کو پھنسا دیا ہے۔ پالیسی میکرز اور حکمرانوں نے اپنے ملک اور عوام سے وہ محبت نہیں دکھائی جو طالبان سے دکھائی۔ آپ کے ہاں روزانہ کچھ نہ کچھ ایسا بڑا ہو رہا ہوتا ہے جو ہم صحافیوں کیلئے تو بڑی خبر ہے ہی لیکن آپکے ملک کا امیج بہت خراب ہوتا ہے۔ دہشتگردی آپکی جڑوں میں بیٹھ گئی۔ وہ مجھے برسوں پہلے گارڈین کو دیے گئے پرویز مشرف کے انٹرویو کا حوالہ دے کر کہنے گا: مشرف نے اعتراف کیا تھا کہ ہم افغانستان کے معاملے پر امریکیوں کے ساتھ ڈبل گیم کر رہے تھے‘ ہم نے طالبان کو نائن الیون کے بعد امریکہ کے حملوں سے بچایا تھا۔ وہ اثاثے اب آپ کو گھٹنوں پر لے آئے ہیں۔ جن طالبان کو آپ اپنے اثاثے سمجھتے تھے‘ وہی آج پر آپ پر حملہ آور ہیں۔ آپ نے بڑی گیم ڈالی مگر وہ آپ کے گلے پڑ گئی۔ یہ آپ کی بیس سالہ پالیسی تھی اور آپ کے بڑے‘ جو ملک چلا رہے تھے‘ ان میں اتنی عقل تھی۔
میں نے پوچھا: آپ کیلئے مزید کافی آرڈر کروں؟ کہنے لگا: لگتا ہے کہ آپکو میری بات پسند نہیں آئی۔ میں نے کہا: نہیں! اگر میں نے آپ کیساتھ ہونیوالی اس گفتگو کو اپنے کالم میں لکھا تو پاکستانی عوام کو پسند نہیں آئے گی۔
میری آنکھوں میں سوال دیکھ کر وہ بولا: آپکے ملک میں اتنی خبریں اور سکوپ ہیں کہ جو دنیا کے کسی اور خطے میں نہیں ملتے۔ آپکے ہمسائے میں افغانستان ہے‘ جہاں پہلے سوویت یونین‘ پھر خانہ جنگی اور اب امریکی اور یورپی جنگ چل رہی ہے اور پاکستان ان سب کا مرکز ہے۔ ہمیں یہاں سے برطانیہ‘ نیٹو‘ یورپ‘ امریکہ اور افغانستان کی سب خبریں ایک ساتھ مل جاتی ہیں جو ہمارے میڈیا گروپس کیلئے ہاٹ کیک ہوتی ہیں۔ میں نے کہا: وہ سب تو ٹھیک ہے لیکن آپ کے سورسز اتنی جلدی کیسے بن جاتے ہیں؟ ہمیں تو پاکستان میں رہ کر سورس بنانے میں کافی وقت لگ جاتا ہے۔ وہ مسکرایا اور شرارتی مسکراہٹ کیساتھ بولا: آپ دیسی لوگ کیا کہتے ہیں‘ ہم گورے کیا ہیں؟ میں نے کچھ دیر سوچا اور اچانک میرے ذہن میں آیا کہ وہ کیا کہنا چاہتا ہے۔ میں بولا ”گوری چمڑی‘‘۔ اس نے بڑا قہقہہ لگایا اور بولا: Exactly۔اس نے کہا کہ ہمیں بہت جلد آپ کے سب لوگوں تک رسائی مل جاتی ہے اور خاصی عزت و احترام دیا جاتا ہے۔ بعض بڑے لوگ تو گھر بلا کر ملتے ہیں۔ لیٹ نائٹ پارٹیاں بھی چلتی ہیں‘ جہاں سب بڑے لوگ ہوتے ہیں اور تعارف ہو جاتا ہے۔ اس دوران وہ بہت کچھ بول جاتے ہیں۔ وہ اپنے تئیں ہمیں اپنی انگریزی سے متاثر کرتے ہیں۔ پھر انہیں یہ خطرہ نہیں ہوتا کہ میں ان کی بات کسی کو بتائوں گا۔ آف دی ریکارڈ وہ بہت کچھ بتاتے ہیں کہ کیا چل رہا ہے۔ کچھ ایسے ہوتے ہیں جو ہمارے ذریعے ویسٹرن ممالک کو کوئی میسج‘ اخباری خبر کے ذریعے بھیجنا چاہتے ہیں۔ ان کا خیال ہوتا ہے کہ مغربی اخبار میں خبر چھپنے سے وہاں کی حکومتوں پر وہ دبائو بڑھا سکتے ہیں۔ دبائو بڑھے یا نہ بڑھے لیکن ان کا مؤقف وہاں کے پالیسی میکرز یا حکمرانوں تک ضرور پہنچ جائے گا یا کم از کم مغربی عوام تک ان کی بات پہنچ جائے تاکہ انہیں علم ہو کہ ان کی حکومتیں اس خطے میں کیا کر رہی ہیں۔ اس طرح بہت سارے سویلین اور عسکری حکام سے ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں۔ وہ بھی اپنی پوزیشن بتاتے رہتے ہیں۔ پھر کچھ صحافی بھی ہمارے ساتھ ہوتے ہیں۔ ان سے پاکستانی سیاست بارے علم ہوتا رہتا ہے۔ میں نے پوچھا: واپس جا کر آپ بھی کتاب لکھیں گے؟ کہنے لگا: بالکل! میرے نوٹس تیار ہیں‘ پبلشرز تو پہلے سے تیار بیٹھے ہیں۔ وہ تو ابھی سے مجھ سے مسودہ مانگ رہے ہیں۔ ایسی کتابیں تو وہاں ہاتھوں ہاتھ لی جاتی ہیں۔ پھر بولا: ایک بات بتائوں! پاکستان میں گوروں کی پاکستان پر لکھی کتابیں زیادہ بکتی ہیں اور پڑھی بھی جاتی ہیں۔ آپکے لوگ اپنے صحافیوں سے زیادہ فارنرز کی لکھی کتابوں پر اعتماد کرتے ہیں۔ یہاں اسلام آباد کے بک سٹورز پر غیرملکی لکھاریوں اور صحافیوں کی کتابیں زیادہ بکتی ہیں۔
میں نے پوچھا: آپ نے کتنے صحافیوں کی پاکستانی سیاست یا افغانستان پر کتابیں پڑھی ہیں؟ اگرچہ ہمارے صحافی کتابیں نہ پڑھتے ہیں نہ لکھتے ہیں‘ لیکن اگر کوئی آپ جیسا صحافی یا برطانیہ‘ امریکہ کا اخبار کوئی خبر یا سکینڈل بریک کرے تو پھر ہم سب بہت شیر ہو جاتے ہیں اور فرنٹ پیج سٹوریز چلاتے ہیں۔ میں نے بتایا: چند صحافی ضرور ہیں جنہوں نے انگریزی میں اچھے موضوعات پر کتابیں لکھی ہیں۔ اس نے پوچھا: کون کون؟ میں نے بتایا: نسیم زہرہ‘ ملیحہ لودھی‘ زاہد حسین‘ امتیاز گل‘ عامر میر‘ اعزاز سید‘ احمد رشید (سلمان مسعود کی کتاب اس وقت تک نہیں چھپی تھی)۔ بولا: میں ضرور خریدوں گا۔ پھر پوچھنے لگا: پاکستان پر کس نے کتابیں لکھی ہیں؟ میں نے کہا: انگریزی میں سرتاج عزیز کی Dreams & Realities بہت کمال کتاب ہے۔ اسی طرح سابق فارن سیکرٹری اعزاز چودھری نے بھی جو خودنوشت لکھی‘ بہت اعلیٰ ہے۔ کہنے لگا: آپ کا ملک بہت زبردست ہے لیکن آپ پھنس گئے ہیں۔ آپکے پالیسی میکرز اور کرتا دھرتائوں نے آپ کو پھنسا دیا ہے۔ پالیسی میکرز اور حکمرانوں نے اپنے ملک اور عوام سے وہ محبت نہیں دکھائی جو طالبان سے دکھائی۔ آپ کے ہاں روزانہ کچھ نہ کچھ ایسا بڑا ہو رہا ہوتا ہے جو ہم صحافیوں کیلئے تو بڑی خبر ہے ہی لیکن آپکے ملک کا امیج بہت خراب ہوتا ہے۔ دہشتگردی آپکی جڑوں میں بیٹھ گئی۔ وہ مجھے برسوں پہلے گارڈین کو دیے گئے پرویز مشرف کے انٹرویو کا حوالہ دے کر کہنے گا: مشرف نے اعتراف کیا تھا کہ ہم افغانستان کے معاملے پر امریکیوں کے ساتھ ڈبل گیم کر رہے تھے‘ ہم نے طالبان کو نائن الیون کے بعد امریکہ کے حملوں سے بچایا تھا۔ وہ اثاثے اب آپ کو گھٹنوں پر لے آئے ہیں۔ جن طالبان کو آپ اپنے اثاثے سمجھتے تھے‘ وہی آج پر آپ پر حملہ آور ہیں۔ آپ نے بڑی گیم ڈالی مگر وہ آپ کے گلے پڑ گئی۔ یہ آپ کی بیس سالہ پالیسی تھی اور آپ کے بڑے‘ جو ملک چلا رہے تھے‘ ان میں اتنی عقل تھی۔
میں نے پوچھا: آپ کیلئے مزید کافی آرڈر کروں؟ کہنے لگا: لگتا ہے کہ آپکو میری بات پسند نہیں آئی۔ میں نے کہا: نہیں! اگر میں نے آپ کیساتھ ہونیوالی اس گفتگو کو اپنے کالم میں لکھا تو پاکستانی عوام کو پسند نہیں آئے گی۔
یہ بھی پڑھیے:
ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا
آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا
پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا
ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر